میرے ماموں کا بیٹا

February 26, 2019

آج کل سوشل میڈیا پر ’’ماموں کے بیٹے کامران‘‘ کا بہت چرچا ہے اور کامران کی شہرت پی ایس ایل کی شہرت پر حاوی ہو چکی ہے۔ جس سے بات کرو، جس طرف جاؤ، بس ماموں کے بیٹے ہی کی باتیں ہیں۔ شاید دنیا میں آج تک ماموں کو اتنی شہرت نہ ملی ہو جتنی اب تک ماموں کے بیٹے کو مل چکی ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ یہ کامران کون ہے اور کیا کرتا ہے، کہاں رہتا ہے، ہمارے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر یہ ہمارے کونسے ماموں کا بیٹا ہے اور ان ماموں کا پورا تعارف کیا ہے۔ جب اپنے بڑوں سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ کوئی سگے ماموں نہیں ہیں بلکہ انھیں پیار سے سار ا جگ ماموں کہتا ہے اس لئے ہم سب بھی ماموں کہتے ہیں۔ جب یہ پوچھا کہ آخر کیوں سب ماموں کہتے ہیں تو پتہ چلا کہ ان ماموں کو بچپن سے ہی ماموں بننے کا شوق تھا اس لئے جہاں جہاں گئے جس جس سے ملے سب نے ماموں ہی بنا دیا ہے۔ ان جگ ماموں کی پیدائش 1947میں ہوئی تھی اور تب سے اب تک نہ جانے کتنی دفعہ دنیا انہیں ماموں بننے پر داد دے چکی ہے۔ جبھی تو ہم فخر سے انھیں ماموں کہتے ہیں اور حکومت کی مہربانی سے سعودی عرب کی جیلوں سے رہا ہونے والا ہر فرد ہمارے ان ماموں کا بیٹا ہے اور روز جہاز بھر بھر کر ماموں کے بیٹے سعودی عرب سے گھر پہنچ رہے ہیں۔ آئیے اُس تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے یہ ماموں جگ ماموں بنے اور ماموں بننے پر اپنے اوپر بالکل ایسے ہی فخر کرتے ہیں جیسے ہمارے موجودہ وزیر اعظم عمران خان کو کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے پر یا سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ایٹمی دھماکہ کرنے پر فخر ہے۔ اگر ہم اپنے ان ماموں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں ایسے لاتعداد واقعات نظر آئیں گے جہاں ہمیں اپنے ان ماموں کے ماموں بننے پر شدید غصہ آئے گا مگر کیونکہ ماموں کو نانا جی نے ماموں بنایا اور وہ ہر لحاظ سے ہم سے کئی گناہ معتبر ہیں لہٰذا سوائے غصہ کرنے کے ہم اور کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ جب سے ہمارے ماموں نے آنکھ کھولی بڑے فخر سے ماموں بننا شروع کر دیا سب سے پہلا ماموں انھیں ہمارے ابا جی نے مانا اور ہمارے ابا جی کی دیکھا دیکھی سب کے ابا جی نے انھیں ماموں ماننا شروع کردیا۔ اب تو یہ میری کلاس کے ہر بچے کے ماموں بن چکے تھے۔ میرے ابا جی اپنا کاروبار کرتے تھے تو انھیں ماموں کی سب سے زیادہ ضرورت پڑتی تھی۔ صبح، دوپہر، شام کہیں سے کچھ لانا ہو، کچھ چھپانا ہو، کچھ چرانا ہو، بس ابا جی کا واحد آسرا ماموں ہی تھے۔ مجھے تو ماموں پر کبھی کبھی بڑا رحم آتا تھا کہ ایک اکیلے ماموں اور سارے جگ کے مسئلے منہ دینے کے لئے۔ میرے ایک دوست کے ابا جی پولیس میں تھے انھیں ماموں کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ کبھی وہ ماموں کو بندوق تھما کر گشت پر لے جاتے تھے تو کبھی بارشوں اور سیلاب میں کشتیاں چلواتے اور کبھی الیکشن میں ڈیوٹی لگانے،ماموں کو یہ سب بہت اچھا لگتا تھا۔ اس لئے میرے دوست کے ابا جی نے ماموں کو دل کھول کر ماموں کا رتبہ دیا اور جب جب جہاں ضرورت ہوئی، بھیج دیا۔ اُن کی وجہ سے ماموں کی ملک سے باہر بھی بڑی دھاک بیٹھ گئی اور اب ملک سے باہر بھی اگر کسی کو کوئی بہادر چاہئے ہوتا تو وہ ماموں سے ہی رابطہ کرتا۔ آہستہ آہستہ ماموں پوری دنیا میں چھاتے چلے گئے اور اُن کا ڈنکا بجنے لگا اب وہ ایسی جرات و بہادری کی علامات بن چکے تھے کہ اگر کہیں کسی کو بچانا لوٹنا مارنا یا ڈرانا ہوتا تو ماموں کو ہی یاد کیا جاتا۔ میرے ایک اور دوست کے ابا جی سیاست دان تھے اُن کے لئے تو ماموں سونے کی چڑیا تھے۔ جب دل چاہا نعرے لگوانے کے لئے لے گئے، جب دل چاہا دھرنے دینے کے لئے لے گئے، جب دل چاہا ماموں کو ہر غلط کام کے لئے استعمال کرلیا کیونکہ ماموں کو ماموں بننے کا شوق تھا اور میرے اس دوست کے ابا نے ماموں کو ایسا ماموں بنایا کہ بیچارے اب اپنے اس شوق کو اپنا دشمن سمجھنے لگے تھے۔ ماموں کی خاص بات یہ ہے کہ وہ سب کا گناہ اپنے سر لے لیتے اور اس کے بدلے اگر کوئی تھوڑی بہت اُن کی مدد کر دے تو اُن کے کچھ دن اچھے گزر جاتے ہیں۔ یہ کام وہ بچپن ہی سے کر رہے ہیں ایک دوست کے ابا نے ایک بہت بڑی ڈکیتی کی اور الزام ماموں پر لگا دیا۔ کچھ لاکھ روپے کے بدلے ماموں نے دوست کے ابا کے بدلے جیل کاٹی اور جب جیل سے باہر آئے تو واپس اپنے پرانے دھندے یعنی ماموں بننے پر لگ گئے۔ ماموں کو پھر چند لاکھ کی رشوت ملی اور ماموں نے اپنا گھر کچھ بدمعاشوں کو کرائے پر دے دیا۔ وہ بدمعاش ماموں کے گھر میں چھپ کر اسلحہ اور بم بنانے لگے ماموں کو سب پتہ تھا مگر خاموش رہے کیونکہ ماموں کے ابا جی نے اس کے بدلے لاکھوں روپے جو لے لئے تھے، اگر ماموں شور کرتے تو لاکھوں روپے بھی واپس دینا پڑتے جو کہ ماموں کے ابا جی ایک دن میں ہی کھا چکے تھے۔ کیونکہ ماموں کو ماموں بننے کا بہت ہی شوق تھا اس لئے ماموں کی شہرت کو دیکھتے ہوئے ماموں کو دوسرے ملکوں سے بھی ماموں بننے کی آفرز آنے لگیں۔ کہیں کسی کی سینہ زوری روکنے کے لئے بلایا گیا تو کہیں سینہ زوری دکھانے کے لئے کیونکہ ماموں ہر کام کے ماہر ہیں اور کام جتنا الٹا ہو ماموں اتنے کارآمد۔ ماموں کو کیا چاہئے بس نانا جی کے لئے چند لاکھ، باقی جو کام لینا ہے، لو ماموں حاضر۔ اگر حقیقتاً دیکھا جائے تو ماموں کو سب سے زیادہ ماموں بنانے میں نانا کا ہاتھ ہے۔ ظاہر ہے اگر نانا نہیں ہوتے تو ماموں بھی نہ ہوتے تو سلام تو نانا کو کرنا چاہئے کہ جن کی وجہ سے آج ماموں دنیا بھر میں ماموں بن کر جی رہے ہیں۔ مزے کی یہ بات ہے کہ جتنا ماموں کمزور اور لاغر ہو گئے ہیں اتنے ہی زیادہ نانا جوان اور طاقتور ہو گئے ہیں، نانا کو ماموں کی کوئی پروا نہیں کیونکہ انھیں پتا ہے کہ ماموں کی خیر ہے،ماموں جیسے تیسے اپنا گزارہ کر لے گا اور نہ کر پایا تو وہ ماموں کے دوستوں کو بتا دیں گے کہ بھائی ماموں اب تھک گیا یا تو قیمت بڑھاؤ یا پھر دوسرا ماموں ڈھونڈو۔ نانا جی نے ماموں کو ہر سال اور ہر بار ماموں بنایا۔ گرمیوں میں ماموں بنایا، سردیوں میں ماموں بنایا، جینے میں بنایا، مرنے میں بنایا، جمہوریت میں بنایا، آمریت میں بنایا، گلیوں میں بنایا، سڑکوں پر بنایا، دھرنوں میں بنایا، سرحدوں پر بنایا، مسجد میں بنایا، منبر پر بنایا، چرچ میں بنایا، مندر میں بنایا، غرض ہر دور میں ہر جگہ ماموں بنایا۔ اب حال یہ ہے کہ ماموں کے گھر والے ماموں کے ماموں بننے کہ اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اگر اب ماموں کو کوئی ماموں نہ بنائےتو وہ اسے ماموں کے خلاف دشمنوں کی سازش سمجھتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نانا جی ماموں کی خدمات کے بدلے ماموں کو اور کتنا ماموں بننے دیں گے۔ کیا اس کے بعد رہا ہونے والے ماموں کے بیٹے کی باری ہے ماموں بننے کی یا پھر نانا جی ماموں ماموں کے اس کھیل کو ختم کر کے اپنی آخرت کی فکر کریں گے اور یاد اللہ میں باقی زندگی گزاریں گے۔