امن کے لئے عالمی کوششیں

March 03, 2019

جنوبی ایشیا کی ایٹمی طاقتوں میں پچھلے دو ہفتوں کے دوران آخری حدوں تک پہنچ جانے والی کشیدگی نے پوری عالمی برادری کو بجا طور پر سخت تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس کی وجہ واضح طور پر یہ ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس ملکوں میں جنگ کی نوبت آئی تو پوری دنیا کے امن کا متاثر ہونا یقینی ہے۔ لہٰذا صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اقوام متحدہ کے علاوہ بڑی عالمی طاقتوں سمیت متعدد ممالک کوشاں ہیں، تاہم پاکستان کی جانب سے پلوامہ خودکش حملے کی تحقیقات اور دیگر معاملات کے پُرامن حل کے لیے بامقصد بات چیت کی مسلسل پیشکش حتیٰ کہ پاکستان میں فضائی حملے کی نیت سے داخل ہونے اور پاک فضائیہ کے ہاتھوں مار گرائے جانے والے بھارتی جنگی طیارے کے گرفتار پائلٹ کی محض اڑتالیس گھنٹے بعد بھارت کو واپسی کے فراخ دلانہ اقدام کے باوجود مودی حکومت کا قطعی منفی رویہ صورتحال کی سنگینی کو بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ بھارت کے اس عاقبت نااندیشانہ طرزِ عمل کے پیش نظر پچھلے چوبیس گھنٹوں میں منظرِ عام پر آنے والی اطلاعات کے مطابق پاک بھارت کشیدگی میں کمی کے لیے عالمی برادری کی کوششیں نقطۂ عروج پر پہنچ گئی ہیں۔ امریکہ، سعودی عرب، چین، آسٹریلیا، برطانیہ اور اردن نے پاکستان سے رابطہ کیا ہے۔ روس پہلے ہی دونوں ملکوں کے درمیان ثالثی کی پیشکش کر چکا ہے جسے پاکستانی وزیر خارجہ نے گزشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کرنے کا اعلان کر دیا ہے جبکہ مودی حکومت کی جانب سے ایسی تمام کوششوں کا جواب لائن آف کنٹرول پر مسلسل گولہ باری، آزاد کشمیر کے معصوم شہریوں کے قتل عام، بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کے نئے ریکارڈ قائم کرنے کے اقدامات اور پاکستان کے خلاف دھمکیوں پر مبنی بیانات کی شکل میں دیا جا رہا ہے، تاہم یہ امر امید افزا ہے کہ ایک طرف عالمی برادری اپنی کاوشوں کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے سرگرم نظر آ رہی ہے اور دوسری جانب خود بھارت میں اپوزیشن جماعتیں پلوامہ حملے کی آڑ میں کسی ثبوت کے بغیر پاکستان کے خلاف وزیراعظم نریندر مودی کی اشتعال انگیز مہم کی حقیقت کو بے نقاب کر رہی ہیں۔ توقع ہے کہ سعودی وزیر خارجہ ان سطور کی اشاعت تک ثالثی کی خاطر بھارت کا دورہ کر کے پاکستان پہنچ چکے ہوں گے۔ چین کے ایلچی بھی اسلام آباد پہنچ رہے ہیں جبکہ روسی وزیر خارجہ نے اپنے پاکستانی ہم منصب سے فون پر بات کرتے ہوئے کشیدگی کے خاتمے میں روس کی جانب سے کردار ادا کیے جانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ روس کی ثالثی کی پیشکش مودی حکومت کے لیے بھی پاک بھارت اختلافات کے تصفیے کا ایک اچھا موقع ہے لیکن ان کے منفی رویے میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی اور وہ کسی معقول جواز کے بغیر جنگ کے خطرات کو بڑھانے پر تلے ہوئے ہیں۔ اِس صورتحال پر بھارتی اپوزیشن علی الاعلان کہہ رہی ہے کہ مودی جی پلوامہ کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر آئندہ الیکشن جیتنا چاہتے ہیں۔ نریندر مودی اِس کے جواب میں تمام اپوزیشن جماعتوں پر پاکستان کی مدد اور دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کا لایعنی الزام عائد کر کے اپنے عوام کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں جبکہ مودی حکومت کے اقدامات نے پاکستان میں حکومت، اپوزیشن، عسکری قیادت اور ملک کے چپے چپے کے لوگوں کو دفاع وطن کے لیے پوری طرح متحد کر دیا ہے۔ سیاسی قائدین نے تمام اختلافات بالائے طاق رکھ کر حکومت اور افواجِ پاکستان کے ساتھ کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ اِن واقعاتی حقائق کی روشنی میں عالمی برادری کے لیے صحیح اور غلط کا تعین کرنا اور درست نتائج تک پہنچنا یقیناً آسان ہو گیا ہے لہٰذا یہ توقع بے جا نہیں کہ اس کی جانب سے مودی حکومت کو ہٹ دھرمی سے باز رہنے، سیاسی فائدے کے لیے علاقائی اور عالمی امن کو خطرے میں ڈالنے سے گریز کرنے اور جنگ کے بجائے امن کا راستہ اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کی خاطر ایسے مؤثر سیاسی، اقتصادی اور سفارتی اقدامات عمل میں لائے جائیں گے جو اُس کے جنگی جنون کو جلد از جلد ہوشمندی سے بدل سکیں۔