تپِ دق: مرض پر قابو پانے کا یہی وقت ہے

March 24, 2019

پروفیسرڈاکٹر سہیل اختر

عالمی ادارئہ صحت کی جانب سے ہر سال دُنیا بَھر میں24مارچ کو تپِ دق(Tuberculosis)کا عالمی یوم منایا جاتا ہے۔ امسال اس دِن کے لیے،عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے جس تھیم کا اجراء کیا گیا ہے،وہ ہے"IT's TIME"۔دراصل جراثیم سے پیدا ہونے والے وہ عوارض جو ایک سے دوسرے فرد میں باآسانی منتقل ہوجاتے ہیں، طبّی اصطلاح میں متعدّی امراض کہلاتے ہیں اور ایک طویل عرصے سے خطرناک متعدّی امراض میں تپِ دق سرِفہرست ہے۔ تقریباً22مُمالک میں یہ عارضہ عام ہے اور دُنیا بَھرمیں موجود80فی صد مریضوں کا تعلق بھی ان ہی مُمالک سے ہے۔اِسی لیے عالمی ادارۂ صحت نے تپِ دق کو ایک عالمی اور سنگین مسئلہ قرار دیتے ہوئے مذکورہ تھیم کا انتخاب کیا ہے ۔تاہم ،اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مرض کے مضر اثراتسے بچاؤ کے لیے صحت کے ادارے اورعوام الناس مل کر اپنا کردار ادا کریں۔تپِ دق سے متاثرہ مُمالک میں پاکستان کا شمار پانچویں نمبر پرہوتا ہے۔عالمی ادارۂ صحت کی جانب سےجاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ تقریباً پانچ لاکھ نئے مریض اس عارضے کا شکار ہورہے ہیں، جن میں 15سے55سال کی عُمر کے مریضوں کی تعداد زیادہ ہے۔

انسانی تاریخ کی سب سے قدیم اور متعدی بیماری ایک مخصوص جرثومے’’مائیکو بیکٹیریم ٹیوبر کلوسس "Mycobacterium Tuberculosis" کے سبب لاحق ہوتی ہے۔یوں تویہ جرثوماجسم کے کسی بھی حصّے کو متاثر کرسکتا ہے۔ مثلاً نظامِ ہاضمہ، اعصابی نظام، دماغ، آنتیں، ہڈیاں، جوڑ، گُردے، جِلد، آنکھوں کے پردے،کمر اور غدود وغیرہ، لیکن تپِ دق کا مرض تین چوتھائی مریضوں کے پھیپھڑے ہی متاثر کرتا ہے۔ پھیپھڑوں کی ٹی بی اس لیے بھی خطرناک ہے کہ اس کے جراثیم ہوا کے ذریعے ایک فرد سے دوسرے تک جا پہنچتے ہیں، لیکن یہ فعال تب ہی ہوتے ہیں،جب قوّتِ مدافعت کم ہوجائے،بہ صورتِ دیگر جسم میں موجود ہونے کے باوجود بےضرر ہی رہتے ہیں۔ اس لیے اس مرض کا بروقت علاج جہاں خود مریض کی جان بچانے کے لیے ضروری ہے ،وہیں دیگر افراد کو تپِ دق سے محفوظ رکھنے اور مرض کو معاشرے میں پھیلنے سے روکنے کے لیے بھی ضروری ہے۔واضح رہے کہ علاج سے محروم ایک مریض سال بَھر میں لگ بھگ دس سے پندرہ صحت مند افراد کو بیماری منتقل کرسکتا ہے۔مرض لاحق ہونے کی بنیادی وجہ قوتِ مدافعت میں کمی ہے،جو کسی بھی سبب ہوسکتی ہے۔ مثلاً غربت، غذائی قلّت، ذیابطیس، ایڈز، خون کی کمی وغیرہ کے باعث۔تاہم ،تپِ دق کے پھیلاؤ میں مرض سے لاعلمی، لاپروائی، علاج میں تاخیر،دورانِ علاج ادویہ کے استعمال میں ناغہ اور علاج ادھورا چھوڑ دینا وغیرہ شامل ہیں۔پھیپھڑوں کی ٹی بی کی اقسام کی بات کریں،توایک قسم پرائمری تپِ دق(Primary Tuberculosis)کہلاتی ہے،جوخطرناک نہیں ۔ یہ عموماً عام نزلہ کھانسی کی طرح حملہ آور ہوتی ہے،جب کہ بچّوں کے علاوہ دیگر افراد میں اس کی تشخیص ہی نہیں ہو پاتی ہے۔ دوسری قسم پوسٹ پرائمری ٹی بی سب سے عام اور اہم ہے، کیوں کہ یہ مرض کی متعدّی (Contagious)قسم ہے۔اگراس کا بروقت علاج نہ کروایاجائے اورمریض خود بھی احتیاط نہیں برتے، خصوصاً چھینکتے، کھانستےیا تھوکتے ہوئے،توجراثیم ہوا میں تحلیل ہوکر اُن افرادکے جسم میں، جن کا مدافعتی نظام کم زور ہو،آکسیجن کے ساتھ باآسانی داخل ہوکر پھیپھڑوں میں افزایش کرتے ہیں۔ پوسٹ پرائمری ٹی بی کے شکار عموماً وہ مریض ہوتے ہیں، جو پرائمری ٹیوبر کلوسس میں مبتلا رہ چُکے ہوں۔ تپِ دق کے جراثیم پھیپھڑوں میں کہیں نہ کہیں موجود رہتے ہیں اور جب کبھی مریض کی قوّتِ مدافعت کسی بھی وجہ سے کم زور ہوجائے، تو یہ اپنی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے بہت شدّت کے ساتھ پھیپھڑوں پر حملہ آور ہو کر انہیں متاثر کردیتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ پرائمری ٹی بی کے حملے کے بعد مریض کی قوّتِ مدافعت اس پر قابو پانے میں ناکام ہو جاتی ہے۔بعض اوقات پرائمری ٹی بی سے صحت یابی کے بعد کبھی کسی دوسرے مریض کی وجہ سے تپِ دق کے جراثیم پھیپھڑوں میں داخل ہو جاتے ہیں، جو مدافعتی نظام کو شکست دے کرپوسٹ پرائمری ٹی بی میں مبتلا کردیتے ہیں۔اور یہی مریض پھر نئےمریضوں کی تعداد میں اضافے کا باعث بنتےہیں۔تپِ دق قابلِ علاج مرض ہے،لیکن اگر معالج کی ہدایت کے مطابق ادویہ استعمال نہ کی جائیں یا وہ غیر معیاری ہوں یا پھر علاج ادھورا چھوڑ دیا جائے،تو مرض کے جراثیم ان ادویہ کے خلاف اپنے اندر مدافعت پیدا کر لیتے ہیں ۔یہ ٹی بی کی ایک خطرناک قسم ہے،جو مدافعتی ٹی بی(Resistant-TB) کہلاتی ہے۔ اس کی بھی دو اقسام ہیں۔پہلی قسم ملٹی ڈرگ ریسسٹینٹ ٹی بی (Multi Drug Resistant TB)کہلاتی ہے۔ یہ قسم ٹی بی کی دو مؤثر ترین ادویہ کے خلاف اپنے اندر مدافعت پیدا کرلیتی ہے۔ اگرچہ ایم ڈی آرقابلِ علاج ہے، لیکن علاج مہنگا اوردورانیہ طویل ہے۔ کم از کم دو سال یا اس سے بھی زائد عرصے تک باقاعدگی سے ادویہ استعمال کرنی پڑتی ہیں،جن کی عام ٹی بی کی نسبت تعدادبھی زیادہ ہوتی ہے۔نیز، مضراثرات سے بھی انکار ممکن نہیں،لہٰذا ملٹی ڈرگ ریسسٹینٹ کا علاج ٹی بی کے مخصوص سینٹرز ہی سے کروایا جائے۔اگرایم ڈی آر کے علاج میں کوتاہی برتی جائے، تویہ دوسری قسم ایکس ڈی آرٹی بی (Extensively Drug Resistant TB) کا سبب بن جاتی ہے،اس صورت میں عموماً ٹی بی کی کوئی دوا کارگر ثابت نہیں ہوتی ہے۔ ان دونوں خطرناک اقساممیں ادویہ کے ساتھ انجیکشنزبھی لگانے پڑتے ہیں،جو خاصے مہنگے ہوتے ہیں۔ایم ڈی آر اور ایکس ڈی آرسے محفوظ رہنے کابہترین حل تو یہی ہے کہ مریض جب پہلی بار ٹی بی کا شکار ہوجائے، تو معالج کی ہدایت کے مطابق بغیر کسی وقفے کے مکمل علاج کروایا جائے، تاکہ مکمل شفا حاصل ہوسکے۔

پھیپھڑوں کی ٹی بی کی عام علامات میں دو ہفتے یا اس سے زائد مدت کا ایسا بخار اور کھانسی، جو عام علاج سے ٹھیک نہ ہو رہے ہوں، سینے میں درد، سانس پھولنا، وزن کم ہو جانا، بھوک نہ لگنا یا کم ہو جانا،رات میںپسینہ آنا،کھانسی کے ذریعے بلغم میں یا پھر الگ سے خون خارج ہونا وغیرہ شامل ہیں،جب کہ کسی مخصوص عضو کی ٹی بی میںاس عضو کی بھی اپنی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔بعض کیسز میں علامات اس قدر خفیف ہوتی ہیں کہ مریض کو خود ان کا احساس تک نہیں ہوتا اور وہ اپنی جسمانی قوّت اور قوّتِ ارادی کے بل بوتے پر روزمرّہ امور انجام دیتا رہتاہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ لازمی نہیں کہ یہ تمام تر علامات ٹی بی ہی کی ہوں۔یہ بھی ممکن ہے کہ مریض سینے کے انفیکشن یا پھر کسی اور مرض میں مبتلا ہو۔لہٰذا اگر کسی فرد میں تمام یا پھرکوئی ایک علامت ظاہر ہو، تو سب سے پہلے ماہرِ امراض سینہ سے رجوع کیا جائے،تاکہ مرض کی درست تشخیص اور بروقت علاج ہوسکے۔ مشاہدے میں ہے کہ بعض اوقات مریض علامات ،عُمر اورفیملی ہسٹری بتانے سے کتراتے ہیں۔ یہ بات مرض کے درست علاج میں رکاوٹ کا باعث بن سکتی ہے،لہٰذا معالج سے کبھی بھی غلط بیانی نہ کریں۔ معالج سے رجوع سے قبل اگر کوئی دوا استعمال کی جا چُکی ہے اور کوئی ٹیسٹ یا طبّی معائنہ بھی کروایا گیا ہے، تو اس کا ریکارڈ بھی ڈاکٹر کو مہیا کرنا ضروری ہے۔ اگر تپِ دق پہلے سے تشخیص ہو چُکی ہو اور علاج بھی کروایا گیاہو، تو اس کی تفصیلات سے بھی معالج کو لازماً آگاہ کیا جائے۔مرض کی تشخیص کےلیے ایک ماہر معالج مختلف ٹیسٹ تجویز کرتا ہے۔جیسےجِلد،خون کا ٹیسٹ، بلغم کا معائنہ اور سینے کا ایکسرے وغیرہ۔ تاہم،ان سب میں مستند بلغم کا ٹیسٹ ہے، جس میںخردبین کے ذریعے جراثیم کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات مریض کے بلغم میں جراثیم کی تعداد اتنی کم ہوتی ہے کہ بذریعہ خردبین تشخیص نہیں ہوتے، لہٰذا ایسے مریضوں کے بلغم کا ایک نمونہ لے کر کلچر ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ اس ٹیسٹ میں جراثیم کی ایسے غذائی مادّوں میں پرورش کی جاتی ہے، جس میں وہ نشوونما پاتے ہیں اور ان کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ ان کی چھوٹی چھوٹی بستیاں (Colonies) نظر آنے لگتی ہیں، جس کے بعد خردبین کے ذریعے معائنہ کیا جاتا ہے۔ کلچر مثبت (Positive) ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لیبارٹری میں جراثیم کی پرورش سے ان کی بستیاں وجود میں آگئی ہیں اور مریض کے بلغم میں واقعی جراثیم موجود تھے، جو مرض کا باعث بنے۔عالمی ادارۂ صحت نے چند برس قبل ایک ٹیسٹGenexpertبھی متعارف کروایا ہے۔اسMolecular Technologyکی بدولت ٹی بی کا خفیف جرثوما بھی تشخیص کیا جاسکتا ہے اور رپورٹ بھی ایک دن بعدمل جاتی ہے۔

یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ تپِ دق ہرگز ناقابلِ علاج نہیں،یہ ایک قابلِ علاج عارضہ ہےبہ شرطیکہ علاج، مستند معالج سےدِ ل جمعی سے کروایا جائے ۔ویسے تو یہ کُلیہ تمام بیماریوں کے لیے اہم ہے، لیکن چوں کہ تپِ دق کے علاج کا دورانیہ طویل ہوتا ہے،اس لیےمعالجین باقاعدگی سے علاج پر خاص زور دیتے ہیں۔عام طور پر تقریباً 6 ماہ تک مسلسل ادویہ استعمال کی جاتی ہیں۔ بعض کیسز میں علاج کا دورانیہ اس سے بھی بڑھ ہوسکتا ہے۔ عموماً ہوتا یہ ہے کہ ابتدائی دو ماہ کے علاج سے جب طبیعت بہتر ہونے لگتی ہے،تو مریض سمجھتا ہے کہ مَیں اب تن درست ہو گیا ہوں۔ اس لیے وہ علاج کے معاملے میں سُست پڑجاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مرض ابتدائی طور پر کچھ بہترہونے کے بعد دوبارہ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور پھر اس کا علاج اتنا آسان نہیں رہتا، جتنا کہ پہلے ہوتا ہے۔تپِ دق کا عارضہ تب پیچیدہ ہوسکتا ہے، جب مرض کی نوعیت شدید یا قوّتِ مدافعت انتہائی کم زور یا پھر ایچ آئی وی لاحق ہو، علاج بروقت اور درست طریقے سے نہ کیا جائے،ادویہ کے استعمال میں کوتاہی برتی جائے یا پھر علاج ادھورا چھوڑ دیا جائے۔چوں کہ علاج کے ابتدائی چند ہفتوں تک مرض کسی دوسرے فرد میں منتقل ہونے کا امکانات پائے جاتے ہیں، لہٰذا چند باتوں پر سختی سے عمل ضروری ہے۔ مثلاً مریض کا بستر اور تولیا وغیرہ الگ رکھا جائے، مریض کا کمرا روشن، ہوا دارہو، بلغم ڈھکن والے ڈبّے میں تھوکے اور جب یہ بَھر جائے،تو اسے جلادیا جائے یا پھر زمین میں دفن کردیں۔ مریض کھانستے اور چھینکتے ہوئے منہ پر کپڑا رکھےیا پھر ماسک۔ چھوٹے بچّوں کو پیار کرنے سے گریز کیا جائے۔ عموماً دو سے تین ہفتے کے علاج کے بعد مریض کے بلغم میں جراثیم کی مقدار انتہائی کم ہو جاتی ہے اور اس بات کا امکان نہیں رہتا کہ مرض کسی دوسرے فرد میں منتقل ہوسکے۔ شادی شدہ خواتین میں اگر ٹی بی تشخیص ہو،تو وہ معالج کی ہدایت پر مانع حمل ادویہ یا کوئی اور محفوظ طریقہ اختیار کریں۔ اگر دورانِ حمل مرض تشخیص ہو، توحمل سے آگاہ کریں۔ یہ امر پیش ِنظر رہنا چاہیے کہ ٹی بی کی مروجہ (first-line) ادویہ حمل کے دوران استعمال کی جا سکتی ہیں۔ اگردورانِ علاج حمل ٹھہرجائے، تو ٹی بی کا علاج ادھورا نہ چھوڑیں اور ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق جاری رکھیں۔ اگر کوئی ماں اس مرض سے متاثر ہے،تو وہ بغیر کسی خوف کے بچّے کو اپنا دودھ بھی پلا سکتی ہے۔بس، کھانستے ہوئے احتیاط برتے۔ نیز،اہلِ خانہ ،مریض کا بھرپور خیال رکھیں اور اپنی نگرانی میں ادویہ کھلائیں۔ علاج کے دوران مریض اپنے روزمرّہ معمولات سر انجام دے سکتا ہے۔ تاہم، مشقّت کے کاموں ، جن سے سانس پھولنے لگے یا تھکاوٹ محسوس ہو، اجتناب برتیں۔تپِ دق سے محفوظ رہنے کے لیے بی سی جی کا ٹیکہ مفید ہے،جو بچّوں کو پیدایش کے وقت ہی لگوادیا جائے۔ صحت کے بنیادی اصولوں پر عُمر بَھر عمل پیرا رہیں۔

علاوہ ازیں، تمباکو نوشی ایک بُری علّت ہے، جس کے شکارا فراد میں پھیپھڑوں کےسرطان اور امراض قلب کے امکانات عام فرد کی نسبت زیادہ بڑھ جاتے ہیں، وہیںتپِ دق میں مبتلا ہونے کا خطرہ بھی دگنا بڑھ جاتا ہے۔دراصل تمباکو میں موجود زہریلے مادّے اور دھواںجب سانس کی نالی کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل ہوتا ہے، تو اس کی جھلیاں کم زور کردیتا ہے،نتیجتاًجراثیم کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔اسی لیے تمباکو نوشی کے شکارافراد پرتپِ دق کے جراثیم آسانی سے حملہ آور ہوجاتے ہیں، لہٰذا تمباکو نوشی سےبھی ہر صورت اجتناب برتا جائے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دُنیا کا ہر پانچواں فرد تمباکو نوشی کی علت کا شکارہے۔یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا کے ماہرین کی تحقیق اور جمع کردہ اعدادوشمار کے بعدماہرینِ طب نےخدشہ ظاہر کیاہے کہ2010ء سے 2050ء کے درمیان تمباکو نوشی کی وجہ سے تپِ دق کے شکار مریضوں میں سے چار کروڑ لقمۂ اجل بن سکتے ہیں۔تپِ دق ایک سنگین عالمی اور قومی مسئلہ ہے، جس پر قابو پانا ناگزیر ہے،جس کے لیےبر وقت تشخیص اور مکمل علاج ضروری ہے۔ہمارے یہاں ٹی بی کے حوالے سے متعدد مفروضات، توّہمات بھی عام ہیں۔ یاد رکھیں، یہ مرض نہ تو چھوت کا ہے اور نہ ہی موروثی۔ ٹی بی ایک مکمل اور قابلِ علاج مرض ہے،لیکن ادھورا علاج، مرض لاعلاج کر دیتا ہے، تب مؤثر ترین ادویہ بھی بےاثر ہوجاتی ہیں،لہٰذا اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ مریض اپنی دوا کا کورس ہر صورت پوری طرح مکمل کرے۔

(مضمون نگار، ماہرِ امراضِ سینہ ہیں اور انڈس اسپتال، کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔نیز، پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن(پیما) کے مرکزی صدر بھی رہ چُکے ہیں)