امریکی شہنشاہیت کی زوال پذیری کا اعتراف

January 09, 2013

ستّر کی دہائی میں امریکی صدر جمی کارٹر کے سلامتی کے مشیر زیبیگ برزنسکی جنہیں امریکہ کی سوچ کا آئینہ دار کہا جاتا ہے، نے 15 سال پہلے اپنی کتاب گرینڈ چیس بورڈ میں تحریر کیا تھا کہ امریکہ کی دنیا پر بالادستی تیس برس تک قائم رہے گی کیونکہ بقول ان کے روس کو جنگ افغانستان کے اثرات سے نکلنے میں تیس برس لگیں گے، انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکہ اپنی دنیا میں بالادستی کو قائم کرنے کے لئے جابجا جنگ اور حکومتوں کی تبدیلی، خفیہ یا براہ رست طریقوں کو استعمال کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ اُن کی یہ بھی خواہش تھی کہ اس طریقے سے امریکہ اپنی بالادستی کی مدت کو تیس سال سے بڑھا کر پوری21 ویں صدی پر محیط کردے گا مگر ہوا کیا کہ 15 سال میں ہی امریکہ زوال پذیر ہوگیا اور امریکہ کے خیالات کا آئینہ دار برزنسکی نے اپنی دوسری کتاب
Strategic Vision: America And Crisis of Global Power
جو حال میں ہی شائع ہوئی ہے، میں تسلیم کرلیا ہے کہ اُن کا امریکہ کی بالادستی کا خواب صرف 15 سال میں ہی بکھر گیا۔ اُس کی وجوہات انہوں نے
1۔جارج ڈبلیو بش کی جنگیں، کلنٹن کی بلکان کی مہم جوئی کو قرار دیا جس کی وجہ سے صارفین کلچر اور اسٹاک مارکیٹ ایک بلبلہ بن گیا اور اس نے بڑے پیمانے پر معاشی بدحالی پیدا کردی۔ وہ یہ تسلیم تو نہیں کرتے کہ امریکہ کا حال روس جیسا ہوگیا ہے مگر وہ یہ بات بھول گئے کہ خود انہوں نے دُنیا بھر کو کنٹرول کرنے کے لئے جو تجاویز دی تھیں وہ سم قاتل ثابت ہوئیں۔ انہوں نے خود کہا تھا کہ دُنیا میں روس، چین، فرانس اور دیگر ملکوں کے علاوہ خود امریکی عوام دُنیا پر امریکی بالادستی قائم کرنے کی راہ میں حائل ہیں۔ انہی کے خیالات کا ثمر تھا کہ9/11 کا واقعہ ہوا اور انہوں نے امریکی عوام کو اپنے ساتھ ملا لیا اور امریکی عوام میں ملٹری کلچر کا رجحان پیدا کر دیا۔ جس کو میں نے 2005ء میں چندی گڑھ انڈیا کے ایک سیمینار میں ذکر کیا تھا کہ جیسا جنگی جنون امریکہ نے خود اپنے ملک میں پیدا کر دیا ہے وہ امریکہ کے عوام میں تباہی لے آئے گا سو اب روز اس معاشرے میں قتل ہو رہے ہیں، بچوں کو مارا جارہا ہے۔ میں نے اُس کو پاکستانی معاشرے سے تشبیہ دی تھی کہ افغان جنگ کے بعد پاکستانی معاشرے میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر عام ہوا۔ اِس کے بعد اب قدرے یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ 9/11 کا واقعہ امریکہ ساختہ تھا، چاہے وہ القاعدہ کے ذریعہ ہی کیوں نہ کرایا گیا ہو۔
2۔برزنسکی یورپ کو دشنام دیتے ہیں کہ یورپ نے اُن کا ساتھ نہیں دیا۔ یورپ ایک آرام دہ زندگی کا خواہاں ہے۔ ایسی آرام دہ زندگی جس میں کوئی عمر رسیدہ شخص جو اپنی باقی ماندہ زندگی آرام سے گزارنا چاہتا ہو جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یورپی یونین میں تو خود امریکہ کے خلاف لاوا پک رہا ہے۔ امریکہ نے یورپ میں ایٹمی ہتھیاروں کا انبار لگایا ہوا ہے جس سے سارا یورپ لرز رہا ہے اور امریکہ سے نالاں ہے۔ اس نے دُنیا بھر میں سہانے خواب دکھا کر یورپ کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا ہے۔ یورپ امریکہ کے دباؤ سے آزادی چاہتا ہے۔ یورپی یونین کا قیام خود اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ امریکہ کے مقابلے میں ایک طاقت بننا چاہتی تھی مگر امریکہ نے اسے ایسا بننے نہیں دیا۔ جس کی وجہ سے وہ امریکہ سے اندر سے شاکی ہیں۔ وہ مغرب کا نام لیکر اور یورپ کا استعمال کرکے خود اُن کی بالادست قوت بنا تھا اور اب اُن کو برزنسکی ڈرا رہا ہے کہ طاقت کا محور اب ایشیاء میں جا رہا ہے۔ اس طاقت کے محور کو لانے میں خود برزنسکی کے مطابق امریکہ کو ایک صدی کا عرصہ لگا تھا وہ 15 سال کے اندر اندر وہاں سے نکل کر ایشیاء میں جانے والا ہے۔ برزنسکی نے اپنے پیش لفظ میں لکھا تھا کہ ازل سے طاقت کا محور یوریشیا رہا ہے یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ طاقت کا محور براعظم امریکہ میں آگیا ہے اور وہ اسے اس وقت تک اپنے پاس رکھیں گے جب تک ممکن ہو، چاہے اس کے لئے انہیں جنگیں ہی کرنا پڑیں یا حکومتیں تبدیل کرنے کی سازشیں کرنا پڑیں یا دھمکیاں دینا پڑیں۔ خفیہ طریقہ استعمال ہو یا ظاہری طاقت انہوں نے ہارپ ٹیکنالوجی جو زلزلہ، سیلاب اور سونامی لاسکتا ہے کے پروان چڑھنے کے بعد کہا تھا کہ وہ دُنیا کی قوموں کو اپنے ماتحت کرنے میں حق بجانب ہوں گے کیونکہ وہ زیادہ سائنسی علوم سے بہرہ ور ہیں۔ ایسی صورت میں طاقت کا محور اگر ایشیاء آجائے تو وہ یورپ بھی آسکتا ہے،اس لئے یورپ کیوں امریکہ کا ساتھ دے گا۔
3۔برزنسکی نئے افکار کی کمی کو بھی امریکی زوال پذیری کی وجہ گردانتے ہیں۔ جب انسانی اقدار کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور انسان کو غلام بنانے کی سوچ رکھتے ہیں تو نئے افکار کیسے پیدا ہوں گے۔ جو نہیں پیدا ہوئے اور امریکہ میں سننے والا کون تھا۔ خود مجھ سے امریکہ کے ایک دانشور ڈاکٹر رڈنی جونز نے2003ء میں اسلام آباد میں کہا تھا کہ اب امریکہ میں ہماری بات کوئی نہیں سنتا، نئے قدامت پسند دانشور آ گئے ہیں اب اُن کی چلتی ہے۔ قدامت پسند دانشوروں نے امریکہ کا جو حال کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے اور خود برزنسکی اس کا اعتراف کیوں نہیں کرتے کہ یہ وہ بھی تھے جو امریکہ کو انسانی اقدار کے بغیر چلانا چاہتے تھے۔
4۔امریکہ کی رواجی اقدار کی عدم بیداری نے امریکہ کی زوال پذیری میں حصہ لیا کیونکہ امریکہ نے اخلاقیات بالائے طاق رکھ دی تھی۔ اس کے بعد روحانی اقدار کیسے پروان چڑھتی، وہاں تو جنگی جنونیت تھی جس نے جگہ بنائی۔امریکی صدر آئزن ہاور نے امریکی قوم کو متنبہ کیا تھا کہ ہمیں متوازن معاشرے کو تشکیل دینا چاہئے نہ کہ ملٹری طاقت کو۔ ملٹری طاقت کے ساتھ دوسرے شعبوں کو آگے بڑھنا چاہئے، صرف ملٹری طاقت کے بڑھنے سے ہماری خارجہ پالیسی بند گلی میں آکھڑی ہوگی اور ملٹری طاقت کے حصول میں پرائیویٹ سیکٹر کے گھس آنے سے معاشی بدحالی شروع ہوجائے گی اور صرف جنگ کی تیاری ہماری روحانی صحت کو خطرے میں ڈال دے گی چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ امریکہ روحانی و اخلاقی و انسانی اقدار سے محروم ہوگیا۔
برزنسکی امریکی بالادستی کا خواب اس کتاب میں بھی کسی نہ کسی طرح سے قائم رکھنا چاہتے ہیں وہ کہتے ہیں امریکہ کی توجہ کے بغیر انسانیت تباہ ہوجائے گی کیوں کہ قومیں آپس میں جنگوں میں الجھ جائیں گی۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ کون ہے جو دُنیا بھر میں قتل عام کرتا پھر رہا ہے۔ ہیروشیما ناگاساکی پر ایٹمی حملہ، ویتنام کی جنگ و عراق جنگیں، کویت پر عراق کا قبضہ، ایران عراق جنگ، عراق پر قبضہ، افغانستان پر قبضہ اور افغانستان اور پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوششیں۔ دُنیا بھر میں میزائل شیلڈ کے نام پر اڈے، جنوبی بحر چین میں حالت جنگ پیدا کرنا، خلیج میں ایران کے بحری جہازوں کا اجتماع، اسرائیل کی حمایت، عربوں اور ایرانیوں میں اختلافات کو ہوا دینا، چین کو گھیرنا اور انڈیا کو اس کے مدمقابل کھڑا کرنا، 120 ممالک میں امریکی اڈے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دُنیا امریکہ کے بغیر زیادہ بہتر طور پر جینا سیکھ لے گی جبکہ برزنسکی امریکہ کو اعلیٰ و برتر قوم جانتے ہوئے دُنیا میں اُس کی مرضی کے خلاف پتے تک کو ہلانے کی اجازت نہیں دیتے۔ اب برزنسکی دُنیا میں امریکہ کی بالادستی اور عالمی قیادت کے تصور کو چھوڑ کر عالمی طاقتوں کے تنازعات میں امریکہ کے ثالث کا کردار ادا کرنے کا خواہشمند ہے۔ وہ ثالثی کے نام پر جھگڑوں میں خود ملوث ہوجاتا ہے تاکہ وہ فوائد حاصل کرے اور اُس کی طاقت کا سکّہ مانا جائے مگر اس کے لئے وہ یورپ کے اتحاد کو امریکہ کے لئے ضروری سمجھتا ہے اور اُس کے بعد وہ امریکہ کی تعمیرنو کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ ایک طاقت کے طور پر تو موجود رہے گا مگر اس کا عالمی کردار محدود ہوجائے گا کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ جنگ افغانستان نے امریکہ کی شہنشاہیت کا جنازہ نکال دیا ہے اُس کی حیثیت 1989ء کے سوویت یونین جیسی ہے جس کا وہ اظہار تو نہیں کر رہا مگر اس کے اپنے ملک میں علیحدگی کی تحریکیں شروع ہوگئی ہیں۔ روس نے 15 ریاستوں کو علیحدہ کرکے اپنی جان چھڑائی تھی مگر امریکہ میں کیا ہوتا ہے یہ دیکھنے کی بات ہے۔ برزنسکی کے نزدیک روس اب بھی امریکہ کے لئے خطرہ ہے مگر وہ اُس کو نیٹو میں شامل کرکے اُس کے زہر کو مارنا چاہتا ہے جو روس کو شاید ہی قبول ہو۔