متنازع علامہ بمقابلہ کھوکھلی جمہوریت

January 10, 2013

بے شک علامہ طاہرالقادری انتہائی متنازع اورمشکوک ہیں۔ سیاسی اور صحافتی حلقوں میں یہ خوف بھی بجا ہے کہ علامہ کا اس موقع پر اپنے نئے ملک کینیڈا سے اپنے پرانے ملک پاکستان میں آنا اور ایک ایسے موقع پر لانگ مارچ کا اعلان کرنا جب عوام نئے الیکشن کی تیاری میں ہے کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے اور یہ کہ وہ کسی اور کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ مگر ایک کڑوا سچ بھی سن لیں...... شیخ الاسلام نے پاکستان کی جمہوریت کے کھوکھلے پن کو بری طرح سے بے نقاب کر دیا ہے۔علامہ جو بھی کھیل کھیلنے جا رہے ہیں وہ اپنی جگہ مگرموجودہ سسٹم کی جن کمزوریوں کا سہارا لے کر وہ عوام کو اپنے انقلاب کی طرف بلا رہے ہیں اس کا کوئی دفاع نہیں۔ علامہ نے اپنے ایجنڈے کے حصول کے لیے پاکستان کی جمہوریت کی اُس دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا ہے کہ جس کا ہمارے سیاستدانوں کے پاس کوئی جواب نہیں۔ کیا یہ جھوٹ ہے کہ ہمارے اکثر ممبران پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی اُن شرائط کو پورا نہیں کرتے جو آئین پاکستان میں درج ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں کہ پارلیمنٹ میں چور، لٹیرے، شرابی وغیرہ بھی موجود ہیں؟؟ کیا یہ بھی سچ نہیں کہ جھوٹ اور فراڈ کی بنیاد پر درجنوں جعلی ڈگری والے پارلیمنٹ میں پہنچ گئے اور جب اُن کو بے نقاب کیا گیا تو کچھ سیاسی جماعتوں نے ایسے جھوٹوں اور فراڈیوں کا دفاع کیا اور انہیں بچانے کی بھی کوشش کی؟؟؟ کیا یہ سچ نہیں کہ کئی جعلی ڈگری والے استعفٰی دے کے دوبارہ پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہو گئے اور انہیں نااہل قرار نہیں دیا گیا؟؟ کیا یہ بھی سچ نہیں کہ پارلیمنٹ کے ممبران کی اکثریت ٹیکس نہیں دیتی اور اپنے ہی بنائے گئے قانون جس کے تحت سالانہ ٹیکس گوشوارے جمع کرانا لازمی ہے کی کھلے عام خلاف ورزی کرتے ہیں؟؟؟ چوں کہ علامہ خود کینیڈین ہو چکے اس لیے مصلحت کے تحت انہوں نے دوہری شہریت والے ممبران اسمبلی کی بات کی نہ اس کو بُرا جانا مگرکیا یہ بھی سچ نہیں کہ آئین میں قدغن کے باوجود غیروں کی وفاداری کا حلف اُٹھانے والوں کا پارلیمنٹ میں داخلے کا رستہ نہیں روکا گیا؟؟
علامہ کے پیچھے چھپے خطرے کے خلاف سیاسی جماعتیں متحد ہو رہیں۔ ہر طرف سے علامہ کے خلاف بیان بھی آ رہے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن اس خطرہ کے خلاف متحد ہو کر مقابلہ کرنے کے لیے بھی ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے ہیں۔ اب سوچا یہ جا رہا ہے کہ علامہ کے لانگ مارچ کو روکا جائے، اُسے اسلام آباد آنے دیا جائے، لانگ مارچ پر اسلام آباد کی سخت سردی میں ٹھنڈا پانی پھینکا جائے یا کہ علامہ کو اُن کے نئے ملک کینیڈا ڈی پورٹ کر دیا جائے۔ علامہ سے جو مرضی آئے کریں مگر کیا صدر و وزیراعظم، نواز شریف، اسفندیار ولی اور دوسرے سیاسی رہنما اور جماعتیں جمہوریت کی اُن کمزوریوں اور خرابیوں کو دور کرنے کے لیے کچھ فوری عملی اقدامات اُٹھائیں گے جس کی وجہ سے جمہوریت کو کرپشن اور فراڈ سے پاک کیا جا سکے اور اُن آئینی شرائط پرسختی سے عمل کیا جائے جس سے صرف صاف اور ستھرے لوگ پارلیمنٹ میں داخل ہو سکتے ہیں۔آئین کے آرٹیکل 62 کے مطابق صرف وہی لوگ قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے رکن بن سکتے ہیں جو اچھے کردار کے حامل ہوں اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف میں مشہور نہ ہوں، جو اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتے ہوں اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کے پابند ہوں اور کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرتے ہوں، جو سمجھدار، پارسا، ایماندار اور امین ہوں، جو کسی اخلاقی پستی میں ملوث ہونے یا جھوٹی گواہی دینے کے جرم میں سزایافتہ نہ ہوں اور جو نظریہ پاکستان کے مخالف نہ ہوں۔یہ بحث اپنی جگہ کہ کیا علامہ خود ان شرائط پر پورے اترتے ہیں یا نہیں مگر یہ سچ نہیں کہ ہماری پارلیمنٹ کے اکثریت آئینی شرائط پر پورا نہیں اترتیں؟؟ ان شرائط پر اگر عمل ہو گا تو ہمارے پارلیمنٹ میں کوئی چور لٹیرا، شرابی، زانی اوردھوکہ باز داخل نہیں ہو سکتا۔ مگر افسوس کے ان بنیادی آئینی نکات پر عمل درآمد کے لیے نہ تو الیکش کمیشن اور نہ ہی سیاسی جماعتوں نے کوئی لائحہ عمل طے کیا۔ اگر ماضی میں نہیں تو اب ایسا کرنے میں کیا حرج ہے۔آئین میں دی گئی شرائط کے برعکس یہاں ہمارے کچھ پارلیمنٹ کے ممبران ایوان کے اندر شراب پر پابندی کے خاتمہ کا مطالبہ کرتے ہیں اور اُن سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی۔ یہاں شراب اور عورتوں سے تعلقات کے متعلق کھلے عام بات کی جاتی ہے مگر کوئی ایسے اراکین پارلیمنٹ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہاں سینٹ اور قومی اسمبلی کے کچھ ممبران نے توایوان کے اندر نماز کے لیے دی جانے والی اذان کو بند کرنے کا بھی مطالبہ کیامگر اس پر بھی کوئی اعتراض نہ کیا گیا۔کتنے ممبران پارلیمنٹ ایسے ہیں جن کو نظریہ پاکستان کی کھلے عام مخالفت کرتے ہیں اور پاکستان کو ایک سیکولر اسٹیٹ بنانے کی بات کرتے ہیں مگر ایسے ممبران کے لیے بھی پارلیمنٹ کے رستے بند نہیں۔ جمہوریت کا نعرہ اپنی جگہ مگر جمہوریت کے نام پر عوام سے فراڈ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر علامہ کو حق نہیں کہ وہ لوگوں کو بے وقوف بنائیں تو سیاستدانوں کو بھی یہ حق نہیں کہ وہ جمہوریت کے نام پر عوام سے فراڈ کریں، کرپشن اور کرپٹ لوگوں کی پشت پناہی کریں اور عام لوگوں کی زندگیوں میں آسودگی لانے کی بجائے اپنی جیبیں بھرتے پھریں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ سیاسی قوتیں فوری مل بیٹھ کر اُن انتخابی اصلاحات کو فوری عمل درآمد کے لیے تیار کریں جس سے پاکستان کے غریب کا مستقبل روشن اور خوشحال ہو سکے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تواس بار اگر علامہ کو ناکامی بھی ہوئی تو کل علامہ یا کوئی دوسراایک بار پھر ہماری نام نہاد جمہوریت کے کھوکھلے پن کو پھرتار تار کر دے گا۔ اگر اس بار علامہ کے انقلاب سے بچت ہو بھی گئی تو شاید پھر مستقبل میں ایسا نہ ہو۔