مالِ حرام کی بابت چند سوالات

March 29, 2019

تفہیم المسائل

مالِ حرام کی بابت چند سوالات (گزشتہ سے پیوستہ)

سوال:(2)میری بہن ہمارے لیے تحائف لاتی ہے اور ہمارے ساتھ پکنک پر جاتی ہے تو ہمیں کچھ نہ کچھ لاکر کھلاتی ہے تو کیا ہم وہ تحائف اور اُن کھانا قبول کرسکتے ہیں؟

جواب:آپ کے لئے اپنی بہن سے تحفہ وصول کرنایا اُن کی دعوت قبول کرنا حرام و ناجائزتو نہیں ، مگر احتیاط بہتر ہے، امام محمد بن حسن الشیبانیؒ فرماتے ہیں: ترجمہ:’’ہم اِسی بات کو اختیار کرتے ہیں کہ جب تک ہمیں کسی معین شے کے متعلق اُس کا حرام ہونا واضح نہ ہوجائے (ہمارے لئے اُسے لینا جائز ہے) اور یہی امام ابوحنیفہؒ اور اُن کے اصحاب کا مذہب ہے،(فتاویٰ ہندیہ،ج:5،ص:342) ‘‘۔

چنانچہ بعض فقہائےکرام واہلِ علم حضرات نے ذکر کیا ہے کہ حرام کمائی سے حاصل ہونے والی رقم سے خریدی ہوئی اشیاء مثلاً غلّہ واناج اور دیگر سامان میں حرمت اُس وقت واقع ہوتی ہے، جب عَقد ونقد دونوں اُسی مالِ حرام پر جمع ہوئے ہوں،مثلاً زید کے پاس شراب کی کمائی کے پانچ سو روپے تھے اور اُس نے شراب کی کمائی سے حاصل ہونے والاوہ پانچ سو کا نوٹ کسی دوکاندار کو دکھایا اور کہا کہ اِس نوٹ کے عوض مجھے فلاں شے( مثلاً: پرس ) دےدو،یہ حرام پر عقد کہلایا،پھر جب زید نے وہی پانچ سو کا نوٹ اُسے دے دیا تویہ حرام کا نقد ہوا ،سو جب عقد ونقد دونوں حرام پر ہوئے ہوں تو ایسی صورت میں وہ خریدی ہوئی شے بھی حرام ہوجائے گی اورجب تک عقد ونقد دونوں حرام مال پر جمع نہیں ہوںگے، اُس وقت تک خریدی ہوئی شے میں حرمت واقع نہیں ہوگی اور ہمارے یہاں عام طور پر خریدو فروخت کا جو طریقہ کار ہوتا ہے،اُس میں چونکہ عقد ونقد دونوں جمع نہیں ہوتے،پس حرام کمائی کرنا اور اس سے کوئی چیز خریدنا بلا شبہ فعلِ حرام ہے اور گناہ ہے ،لیکن اس سے وہ خریدی ہوئی حلال چیز حرام نہیں ہوجاتی۔

علامہ ابن عابدین شامیؒ فرماتے ہیں:ترجمہ:’’مختار قول تو یہ ہے کہ حرام مال کے ذریعے خریدی ہوئی اشیاء بھی حرام ہونی چاہئیں، لیکن ہمارے زمانے میں حرام کی کثرت کے پیشِ نظر لوگوں سے حرج ونقصان کو دورکرنے کیلئے فتویٰ امام کرخیؒ کے قول پر ہے(یعنی اگر عقد ونقد جمع نہ ہوں تو حرام مال سے خریدی ہوئی شے کی طرف حرمت سرایت نہیں کرے گی اور وہ شے حلال ہوگی)،(ردالمحتار،جلد5،ص:235) ‘‘۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادریؒ سے سوال ہوا:’’ایک شخص جُوئے باز ہے،جس کا جوئے کے علاوہ کوئی اورپیشہ نہیں ہے یا کوئی طوائف ناچنے گانے والی یا کوئی حرافہ حرام پیشہ بارہویں شریف یا گیارہویں شریف میں آنحضرت ﷺاور حضرت غوث اعظم قدس سرہٗ کی نیاز کرے، اُس کا کھانا شرعا ًجائز ہے یانہیں؟ ‘‘۔اس کے جواب میں آپ لکھتے ہیں:’’جس شخص کا پیشہ خالص حرام کا ہو، اُس سے میل جول نہیں کرنا چاہئے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ترجمہ: ’’اگر شیطان تمہیں نسیان میں ڈال دے، تو پھر یاد آنے کے بعد ہر گز ظالموں کے پاس مت بیٹھو،(الانعام:68)‘‘ ۔ایسے افرادکے ہاں کھانا اگرچہ بہت زیادہ معیوب ہے، مگر صحیح مذہب کے مطابق اُس کا وہ کھانا حرام نہیں ہے،ہاں !اگربعینہٖ وہ کھانا اُسے حرام وجہ سے ملا ہو،مثلاًگانے یا زنا کی اُجرت کے طور پر اُسے اناج دیاگیا اور وہ اناج اُس نے کھانے میں استعمال کیا تو پھر ایسی صورت میں وہ کھانا حرام ہے یا اُسے گانے،ناچ یا زنا کی اُجرت کے طور پررقم دی گئی اور اُس نے اُس رقم سے وہ اناج اِس طرح خریدا کہ خریداری میں عقد ونقد دونوں کو اُسی مالِ حرام پر جمع کردیا ،تواِس صورت میں بھی وہ کھانا حرام ہے، ان دو صورتوں میں وہ کھانا حرام ہے، ورنہ نہیں،(فتاویٰ رضویہ،ج21ص654)‘‘ ۔

سوال:(3)اگر ہم اپنی بہن کو سمجھائیں اور وہ ہماری بات مان جائے تو اُس کے پاس جو حرام کمائی کی بقایا رقم ہے ،وہ اُس کا کیا کرے؟

جواب: کسی شخص کے پاس ایسا مال ہے، جو اُس نے ناجائز اور حرام طریقے سے کمایا ،مثلاً: شراب،سینما، رقص یا فحاشی پر مشتمل وڈیو کیسٹ کی آمدنی جمع کی ہو، پھر اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہوجائے اور وہ اس ناجائز ما ل سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہے، تو وہ اس مال کی ذمے داری سے بچنے کے لیے اسے فُقراء و مساکین پر خرچ کرے اور اس میں ثواب کی نیت نہ کرے، بلکہ یہ نیت کرے کہ وہ اپنے ذمہ سے عہدہ برآ ہورہا ہے۔