نعمت یا تاریخ کا طوق

April 03, 2019

انسانی زندگی اور تاریخ میں رحمت اور زحمت کا عجیب و غریب تصور ہے: یہ طے کرنا مشکل ہے کہ کونسی چیز رحمت ہے یا زحمت ۔ مثلاً میں اپنی زندگی کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ اگر بچپن میں مجھے پولیو نہ ہوتا تو میں اپنے باقی چار بھائیوں کی طرح ایک کسان کی زندگی گزار رہا ہوتا۔ اپنے بھائیوں کی تقلید میں میں بھی یہی سوچتا کہ ہمارے پاس کافی زمین ہے اور کھیتی باڑی کر کے اچھی خاصی زندگی گزر جائے گی۔ لیکن چونکہ میں پولیو کی وجہ سے کھیتی باڑی کرنے کے قابل نہ تھا، اس لئے مجھے پڑھائی لکھائی کی طرف متوجہ ہونا پڑا۔ یہی حال قوموں کا بھی ہے جو کہ اپنے موجود وسائل کو خوش فہمی میں نعمت سمجھتی ہیں لیکن اصل میں ان کے گلے میں تاریخ کا طوق پڑا ہوا ہے، جو کسی بھی طرح اتارے نہیں اترتا۔ پاکستان کو زرعی وسائل سے مالا مال سمجھنے والی اکثریت کو یہ شائبہ تک نہیں ہے کہ ان کی یہی ذہنی کیفیت مُلک کو پس ماندہ رکھنے کی بنیادی وجہ ہے۔ تاریخی حقائق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مشین اور صنعتی انقلابات کے بعد کوئی ایک قوم بھی زرعی وسائل پر انحصار کرتے ہوئے ترقی نہیں کر سکی اور نہ ہی کر سکتی ہے۔ زرعی پیداواری ڈھنگ، اٹھارہویں صدی تک ثمر آور تھا لیکن اس کے بعد جو قومیں اس انداز پیداوار میں آگے اور امیر ترین تھیں، وہ غلام اور غریب بن گئیں۔

آجکل بنگلہ دیش کے پاکستان کو معاشی ترقی میں پیچھے چھوڑ جانے کا کافی ذکر ہوتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بنگلہ دیش میں بدعنوانیاں بھی پاکستان سے کم نہیں اور اس کی حکومت بھی نا اہلی کا ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے لیکن پھر بھی وہ فی کس آمدنی میں پاکستان سے آگے نکل گیا۔ صرف چالیس سال پہلے بنگلہ دیش میں فی کس آمدنی پاکستان کا 61فیصد تھی۔ اس سے ایک بات تو یہ ثابت ہوتی ہے کہ اخلاقیات کے دعویداروں کے نظریے کے بالکل اُلٹ ترقی پذیر ممالک میں بدعنوانیاں یا کرپشن معاشی ترقی کے لئے کوئی بنیادی رکاوٹ نہیں ہیں اور دوسرے حکومتوں کی کارکردگی کا بھی پورے سماج کی مادی ترقی میں بنیادی کردار نہیں ہے۔ اس سے یہ مفروضہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ معاشی ترقی پورے سماج کی اجتماعی سوچ کی عکاس ہوتی ہے۔

بنگلہ دیش کا جب تک زیادہ تر انحصار زرعی وسائل پر تھا وہ پاکستان سے غریب تر تھا، مغربی پاکستان میں قابل کاشت زمین کا رقبہ اور دوسرے عوامل کی بنا پر پیداوار زیادہ ہوتی تھی۔ اب صنعتی اور تجارتی نظام کے نفوذ کے بعد زمین کے رقبے اور زرعی وسائل کی موجودگی معاشی ترقی کے لئے بنیادی عناصر نہیں ہیں اس لئے بنگلہ دیش نے صنعتی ترقی، بالخصوص گارمنٹس انڈسٹری، کے ذریعے ترقی کرتے ہوئے پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا۔ چونکہ بنگلہ دیشی سماج میں یہ اجتماعی آگاہی تھی کہ زمین کے محدود ہونے کی بنا پر وہ زرعی ترقی کے ذریعے آگے نہیں بڑھ سکتے، اس لئے انہوں نے صنعتی وسائل کو بڑھانے کی کوشش کی بلکہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ تھا۔ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے میرے پاس پولیو کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا۔ پاکستان میرے چار بھائیوں کی مانند ہے جو سمجھتے تھے کہ ان کے پاس اچھا گزارہ کرنے کے لئے زرعی وسائل موجود ہیں۔

اٹھارہویں بلکہ انیسویں صدی کے درمیانی عرصہ تک چین اور ہندوستان دنیا کے امیر ترین ممالک تھے۔ دنیا کی امیر ترین قوم کا سہرا چین کی پیشانی پر آویزاں تھا۔ اس دور کے معاشی پیداوار کے اعداد و شمار اور چارٹ دیکھیں تو یورپی قوموں کا کہیں وجود نظر نہیں آتا۔ 1820میں چین کی قومی پیداوار 350بلین ڈالر سے زیادہ تھی جبکہ برطانیہ 50بلین کے قریب تھا، گویا چین کی معیشت برطانیہ سے سات گنا بڑی تھی لیکن 1930تک، تقریباً ایک سو سال میں دونوں ملکوں کی قومی پیداوار تقریباً ایک دوسرے کے مساوی، 200بلین تک تھی۔ سو برسوں کے صنعتی انقلاب نے پانسہ پلٹتے ہوئے چین کی قومی پیداوار نصف کر دی تھی اور برطانیہ کی چار گنا بڑھا دی تھی۔ اس کے جواب میں کچھ ناقدین کہیں گے کہ برطانیہ کی قبضہ گیری نے بنیادی کردار ادا کیا لیکن ہمارا خیال ہے کہ ایسا اس لئے ہوا کہ برطانیہ اور یورپ میں صنعتی انقلاب نے جس برتر جدید ذہنی استطاعت کو جنم دیا تھا، اُس سے قبضہ گیری ممکن ہو سکی۔ تاریخ کا طویل المیعاد رجحان یہی رہا ہے کہ ذہنی سطح پر ترقی یافتہ قومیں پسماندہ سوچ میں گرفتاروں پر حکومت کرتی رہی ہیں۔ عموماً شہروں کو دیہات پر برتری حاصل ہوتی ہے۔ صنعتی انقلاب کے بعد برطانیہ اور یورپی ممالک شہر تھے جبکہ ہندوستان اور چین دیہات۔

بنگلہ دیش اور دنیا کے طویل سیاق و سباق کا تفصیل میں اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ پاکستانی سماج میں یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ ہم کس طرح اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے فکری گرداب میں گرفتار ہیں۔ ہم آج بھی پاکستان کو زرعی معاشرہ سمجھتے ہیں اور اسی پیداواری ڈھنگ میں بہتری لا کر ترقی کرنا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اٹھارہویں صدی کے صنعتی انقلاب کے بعد معیشت کا زرعی ہونا ہمارے گلے کا طوق بن گیا تھا، جسے ہم نے آج بھی فخر سے زیب تن کیا ہوا ہے۔ ہمیں اس طوق کو اُتار کر اپنے آپ کو صنعتی پیداواری دور میں داخل ہونے کی کوشش کرنا چاہئے۔ جب سے چین نے صنعتی انقلاب کو گلے لگایا ہے وہ دنیا میں اپنی تاریخی برتری کے بہت قریب پہنچ چکا ہے۔ ہندوستان بھی اسی کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔ ہمیں بھی صنعتی دور میں داخل ہونے کے لئے بہت بڑے فکری انقلاب کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ریاست کے کلیدی ادارے اور نظریہ ساز گروہ دو صدی پرانے نظام کی بقا کے لئے دھونس اور دھاندلی تک کے استعمال کو مقدس فریضہ سمجھتے ہیں۔ جدید فکری نظام کی صرف اس لئے ضرورت نہیں ہے کہ اس میں انسانی آزادیوں کا دائرہ وسیع ہو جاتا ہے بلکہ یہ اس لئے ناگزیر ہے کہ اس کے بغیر کسی بھی طرح کی ترقی ناممکن ہے۔