ایک وزیر سے گفتگو

April 05, 2019

’’ایک شعر ہے

اس نے پی لی بھی ہو اور نشے میں نہ ہو ایسا ممکن تو ہے

وہ حکومت میں ہو اور اقتدار کے نشے میں نہ ہو ایسا ممکن نہیں

یہ آپ کا خیال ہے‘‘

’’اقتدار کا نشہ ہوتا ہے مگر ہمارے تو سارے نشے اقتدار میں آتے ہی ہرن ہو گئے ہیں۔ کہتے ہیں جب اسحاق ڈار وزیر خزانہ تھے تو ہمارے ریزرو 19بلین ڈالر تھے۔ پتا نہیں یہ ریزرو وہ اپنے ساتھ لے گئے یا چوہے کھا گئے۔ ہمیں تو جب حکومت ملی تو ہمارے ریزرو ساڑھے سات بلین ڈالر تھے۔ عمران خان نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے دوست ممالک کے دورے کئے اور بڑی محنت اور کوشش سے اپنے ریزرو تقریباً 16بلین ڈالر تک پہنچائے۔ اسحاق ڈار نے روپے کی قدر کو مصنوعی طریقے سے کھڑا کر رکھا تھا، جیسے ہی ڈالر کی قیمت بڑھنے لگتی حکومت اسٹیٹ بینک سے ڈالر نکال کر مارکیٹ میں ڈال دیتی۔ سو مارکیٹ کچھ عرصے کیلئے دھوکے میں آ جاتی تھی مگر معیشت میں ایسی فریب کاری ملک کے مستقبل کیلئے بہت خوفناک ثابت ہوتی ہے۔‘‘

’’چلئے تسلیم کر لیا کہ جب آپ کو حکومت ملی تو خزانہ بالکل خالی تھا مگر عمران خان نے جو مختلف ممالک سے امداد جمع کی تھی، وہ کیا ہوئی۔ پیٹرول کی قیمت میں یکلخت اتنا اضافہ کرنے کی ضرورت کیوں پڑی‘‘

’’بھارت نے جو پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی اور جس کا ابھی تک خطرہ موجود ہے، معاشی بحران میں اُس کا بھی خاصا حصہ ہے۔ اب بھی مسلسل ہمارے ہوائی جہاز فضا میں چوبیس گھنٹے موجود رہتے ہیں۔ تقریباً 2ارب کا پیٹرول روزانہ خرچ ہوتا ہے۔ یہ اس جنگ کا ایک معمولی سا خرچہ ہے۔ بھارت نے ستمبر سے اپنی فوجوں کی نقل و حرکت شروع کر رکھی ہے۔ جواباً ہم بھی پوری طرح تیار ہیں اس لئے اسے ہر میدان میں منہ کی کھانا پڑی ہے۔ سو ہم ہر لمحہ حالتِ جنگ میں ہیں اور ایسی صورتحال میں تھوری بہت مہنگائی تو ہونا تھی۔ ان شاء اللہ جلد کنٹرول میں آ جائے گی۔ نون لیگ کے دور میں بھی کئی دفعہ پیٹرول کی قیمت بڑھی اور کچھ عرصہ بعد کم بھی ہوئی۔ حالات و واقعات کے تحت چلنا پڑتا ہے۔‘‘

’’اچھا یہ بتائیں پنجاب پولیس کو درست کرنے پر کوئی خرچ نہیں ہونا تھا اسے کیوں ٹھیک نہیں کیا جا رہا جبکہ آپ لوگ ہی خیبر پختونخوا کی پولیس کو ایک نئی طرح کی پولیس میں بدل چکے ہیں۔‘‘

’’پنجاب میں دراصل ہم اپنی اتحادی پارٹیوں کے ہاتھوں بلیک میل ہو رہے ہیں۔‘‘

’’اور مرکز میں؟ سنا ہے وہاں کسی وزیر کی ہر تھانے کے ایس ایچ او کے ساتھ گہری محبت ہے۔ تھانیداروں سے یہ تعلق اسے اپنے بزرگوں سے ورثے میں ملا ہے۔‘‘

’’یہ سراسر الزام ہے۔ اسلام آباد پولیس کے آئی جی عامر ذوالفقار ہیں، اس سے زیادہ ایماندار آفیسر پیدا ہی نہیں ہوا۔‘‘

’’بے شک عامر ذوالفقار کے دامن پر کوئی داغ نہیں مگر یہ کام تو ان سے بالا بالا ہو رہا ہے اور وہ ویسے بھی آج کل عمرے پر گئے ہوئے ہیں۔‘‘

’’اسلام آباد پولیس بہت بہتر ہو چکی ہے۔‘‘

’’ایف بی آر کو کیا ہوا ہے۔‘‘

’’ایف بی آر کو گرا کر پھر سے بنانا پڑے گا، اس میں 95فیصد افسران کی آمدنی اور اثاثوں میں تفاوت ہے۔‘‘

’’تو نیب والے انہیں گرفتار کیوں نہیں کرتے۔‘‘

’’نیب میں صرف 21سو لوگ کام کرتے ہیں وہ کس کس کو گرفتار کریں۔ ظالموں نے پورے معاشرے کو کرپٹ کرد یا ہے۔‘‘

’’سنا ہے نیب نے پلی بارگینگ میں کسی پاکستانی سے 25بلین ڈالر مانگے ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ دنیا بھر میں اُس کے اثاثے 100بلین ڈالر کے ہیں۔‘‘

’’میں نے تو نہیں سنا‘‘

’’عمران خان کی ٹیم پر بہت اعتراض کئے جا رہےہیں ‘‘

’’بکواس۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جیسی تجربہ کار شخصیت ہے، امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن جن کے لب و لہجے کی اسیر ہو گئی تھیں۔ وزیر داخلہ عمران خان خود ہیں۔ وزیر خزانہ اسد عمر ہیں جو خود بھی ایک بڑے ماہرِ معاشیات ہیں انہوں نے اپنے ساتھ بڑے بڑے ماہرینِ معاشیات کی ایک ٹیم بھی جمع کر رکھی ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری ہیں جو خود میڈیا پرسن ہیں۔ اینکر بھی رہے، پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی دونوں حکومتوں نے اُن کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا۔ وزیر تعلیم شفقت محمود ہیں جو خود بیورو کریٹ رہے ہیں اور مسلسل غریب اور امیر کیلئے یکساں نظام تعلیم لانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ وزیر ریلوے شیخ رشید ہیں جو پہلے آٹھ بار وزیر رہ چکے ہیں۔ وزیر مذہبی امور نور الحق قادری جیسی شخصیت ہیں وہ بھی پہلے وزیر رہ چکے ہیں اور معاملات کو سمجھنے اور انہیں سلجھانے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔‘‘

’’ٹیم کے مین بائولر تو عثمان بزدار ہیں، اُن کے متعلق کیا خیال ہے آپ کا؟‘‘

’’پنجاب میں جس طرح کرپشن اور وی آئی پی کلچر کا خاتمہ عثمان بزدار نے کیا ہے وہ اس سے پہلے کوئی وزیراعلیٰ نہیں کر سکا۔‘‘

’’آپ نے ٹی وی کبھی نہیں دیکھا، اخبارات کے کالم کبھی نہیں پڑھے۔ کوئی بھی اینکر یا کالم نگار ایسا نہیں جو آپ کے خلاف نہ بول رہا ہو۔ آپ لوگوں کے ہمدرد لکھنے والے بھی آپ کے خلاف ہو چکے ہیں۔‘‘

’’ٹھیک ہو جائیں گے۔جیسے جیسے معاشی معاملات میں بہتری آئے گی۔‘‘

’’معاشی معاملات کب ٹھیک ہوں گے؟‘‘

’’جیسے ہی سرمایہ کاری شروع ہو گی۔‘‘

’’سرمایہ کاری کب شروع ہو گی؟‘‘

’’جیسے ہی اُس کا بنیادی کام مکمل ہو گا۔‘‘

’’بنیادی کام کب مکمل ہو گا؟‘‘

’’دیکھئے امید کا دامن مت چھوڑیئے۔ عمران خان کا زندگی میں اور کوئی ٹارگٹ نہیں ہے۔ نئے پاکستان کے سوا۔ اسے دولت کی ضرورت ہے نہ شہرت کی، وزیراعظم بننے سے پہلے قدرت نے اسے ہر چیز سے نواز رکھا تھا۔ وہ دن رات پاکستان کی بہتری کیلئے کام کر رہے ہیں۔ ان شاء اللہ ان کے کام کی بدولت پاکستان بہت جلد ایک معاشی طاقت میں تبدیل ہوگا، کچھ سخت دن ہیں مگر یہ جلد گزر جائیں گے۔‘‘

’’لیکن لوگ کہتے ہیں کچھ ہوتا دکھائی ہی نہیں دے رہا‘‘

’’لوگوں کو دکھائی دے رہا ہے۔ جنہیں دکھائی نہیں دے رہا، وہ دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔‘‘