گلوکار احمد رشدی کو گذرے 36 برس بیت گئے

April 11, 2019

Your browser doesnt support HTML5 video.

پاکستان کی فلمی موسیقی پر کئی دہائیوں تک راج کرنے والے گلوکار احمد رشدی کو گذرے36 برس بیت گئے۔

پاکستان کے پہلے پاپ سنگر کا اعزاز حاصل کرنے والے معروف فلمی گلوکار احمد رشدی 24 اپریل 1934 کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے ۔وہ 1954 میں حیدر آباد دکن ہجرت کر کے پاکستان آئے اور انہوں نے اپنے فنی کریئر کا آغاز ریڈیو پاکستان کراچی سے شروع کیا۔

احمد رشدی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے 1955 میں دیگر گلوکاروں کے ساتھ مل کر پاکستان کا قومی ترانہ پہلی مرتبہ گایا تھا۔

انہوں نے فلم 'انوکھی کے مقبول عام گانے بندر روڈ سے کیماڑی میری چلی ہے گھوڑا گاڑی سے شہرت حاصل کی تاہم 1961 میں لاہور آنے کے بعد فلم 'سپیرن کے گیت چاند سا مکھڑا گورا بدن، اور اگلے سال فلم 'مہتاب کے گیت گول گپے والا آیا گول گپے لایا نے احمد رشدی کو صف اوّل کا گلوکار بنا دیا۔

اس کے بعد انھوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور پلے بیک سنگنگ میں ان کے انداز کی انفرادیت ہمیشہ قائم رہی۔یوں تو احمد رشدی نے لولی وڈ کے تمام ہیروز کے لئے گیت گائے لیکن چاکلیٹی ہیرو وحید مراد پر ان کی آواز کو موزوں ترین قرار دیا گیا۔

دونوں فنکاروں کے تال میل سے فلم ارمان کا گیت 'اکیلے نہ جانا کو کون بھول سکتا ہے۔ 1963 سے 1977 کا دور احمد رشدی کے عروج کا عہد تھا، اسی عرصے میں انھوں نے فلم 'خاموش رہو کے لئے حبیب جالب کی غزل میں نہیں مانتا گا کر جالب کو بھی پاکستان بھر میں مشہور کر دیا۔اس کے علاوہ اس عرصے میں انھوں نے، کیا ہے جو پیار تو پڑے گا نبھانا، دل کو جلانا ہم نے چھوڑ دیا، کبھی تو تم کو یاد آئیں گے وہ نظارے اور تجھے اپنے دل سے کیسے میں بھلا دوں جیسے یادگار گیت گائے۔

احمدر شدی کو پاکستان کا پہلا پاپ سنگر ہونے اور سب سے زیادہ فلمی نغمے گانے کا اعزاز حاصل ہے۔

گیارہ اپریل 1983 کواحمد رشدی کی رسیلی آواز ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی مگر وہ اپنے گیتوں کے ذریعے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں،ان کی وفات کے بعد حکومت کی جانب سے انہیں ستارہ امتیاز کے اعزاز سے نوازا گیا تھا۔