ایم کیو ایم پاکستان کا دفاتر کھولے جانے کے لئے مطالبہ ویٹو

April 18, 2019

تجزیہ:…مظہر عباس

کراچی :… وزیراعظم عمران خان اور ایم کیو ایم پاکستان کو اپنے معاہدے پر عمل درآمد میں مشکل صورتحال درپیش ہے۔ طاقتور حلقوں جنہوں نے کراچی آپر یشن کی باگ ڈور سنبھال رکھی ہے، وہ ان کے دفاتر ازسر نو کھولے جانے کے مخالف ہیں جس نے صورتحال کو غیر اطمینان بخش بنا دیا ہے۔ ایم کیو ایم-پاکستان 27اپریل کو جلسہ عام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے اپنے وزرأ کی تعریف کئے جانے کے باوجود ایم کیو ایم-پاکستان کا مطالبہ ’’ویٹو‘‘ کردیا گیا۔ باخبر ذرائع نے بتایاکہ وزیراعظم کے حالیہ دورئہ کراچی میں ان حلقوں نے بتا دیا کہ وہ ایم کیو ایم کے پرانے انتظامی و تنظیمی ڈھانچے کی بحالی کے مخالف ہیں جس میں دفاتر کا کھولا جانا اور سیکٹرز یا یونٹس کی تشکیل نو وغیرہ شامل ہیں۔ گیند اب وزیراعظم کے کورٹ میں ہے لیکن جیسا کہ حقیقت ہے سیکٹر، یونٹ دفاتر کھولنے کی اجازت نہیں ہوگی، یہ ماضی میں دہشت گردی مقاصد اور شہر میں ہڑتالیں کرانے کے لئے استعمال ہوتے رہے۔ وزیراعظم کو ان حلقوں کے تحفظات سے آگاہ کردیا گیا ہے۔اس تناظر میں کوئی فیصلہ ہوا تو توقع ہے کہ ایم کیو ایم کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ یہ ایم کیو ایم ہی تک محدود نہیں پی ایس پی، سنی تحریک اور ان جیسی دوسری تنظیموں کو بھی اپنے دفاتر کھولنے کی اجازت نہیں ہوگی، لیکن یقیناً ایم کیو ایم ہی ہدف ہے، حتیٰ کہ نئی شکل میں ایم کیو ایم-پاکستان کو مکمل طورپر شفاف یا قابل قبول قرار دیا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے وزیراعظم نے حیدرآباد یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا۔ وزیراعظم ہائوس میں منعقدہ تقریب میں وزیراعظم نے ایم کیو ایم-پاکستان کے مطالبات پر عمل درآمد کا یقین دلایا۔ درحقیقت انہوں نے اس موقع پر تحریک انصاف اور ایم کیو ایم-پاکستان کے درمیان مستقبل میں انتخابی اتحاد کا بھی امکان ظاہر کیا۔ انہوں نے اپنی کابینہ میں ایم کیو ایم پاکستان کے وزرأ کو ’’نفیس لوگ‘‘ قرار دیا، لیکن چند دنوں میں ہی معاملات ڈرامائی طورپر تبدیل ہوگئے۔ ایم کیو ایم-پاکستان کو آگاہ کردیا گیا کہ دفاتر کھولنے کے لئے ان کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم وہ اپنے منتخب بلدیاتی نمائندوں اور ان کے نمائندوں کے ذریعے سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم-پاکستان کے ایک کلیدی رہنما اور وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم وزیراعظم، ایم کیو ایم-پاکستان اور متعلقہ حلقوں کے درمیان خلاء پرکرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے ہی وزیراعظم کو کراچی کے مسائل حل کرنے کے لئے آئینی اختیار استعمال کرنے کا مشورہ دیا تھا، لیکن آج جو کیفیت ہے لگتا ہے ایم کیو ایم-پاکستان نے تنظیمی نیٹ ورک کی تشکیل نو کا مطالبہ ترک کردیا ہے۔ یہ اس تنظیم کے لئے دھچکہ ہے، ایک طرف تو اسے مالی وسائل کی تنگی کا سامنا ہے تو دوسری طرف سیاسی سرگرمیوں کو خاصا محدود کردیا گیا ہے جبکہ اہم مطالبات بھی نہیں مانے لگے۔ جس پر ایم کیو ایم-پاکستان نے شدید ردعمل بھی ظاہر کیا۔ ملازمتوں میں مہاجروں سے ناانصافی پر حکومت سندھ کی مذمت بھی کی۔ 27اپریل کو مزار قائد کے مقابل جناح گرائونڈ میں جلسہ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ 2018کے عام انتخابات کے بعد ایم کیوایم-پا کستان کی جانب سے اپنی قوت کا پہلا مظاہرہ ہوگا۔ جب وہ 2013 کے مقابلے میں اپنی 70 فیصد نشستیں ہار گئی۔ اب جبکہ طاقتور حلقے یہ باور کرتے ہیں کہ ایم کیوایم-پاکستان کا لندن کی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں رہا۔