ڈاکٹر جمیل جالبی چل بسے!

April 20, 2019

اردو ادب کے نامور ادیب، محقق، نقاد اور مورخ ڈاکٹر جمیل جالبی طویل علالت کے بعد جمعرات کو 90سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 1929میں علی گڑھ کے یوسف زئی گھرانے میں پیدا ہونے والے محمد جمیل خان جنہوں نے ادبی دنیا میں جمیل جالبی کے نام سے شہرت پائی، نے تنقید، تحقیق اور ثقافت پر 40گراں قدر کتابیں تصنیف کیں۔ ان کی بعض کتابوں کے کئی کئی ایڈیشن چھاپے گئے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ ’’تاریخِ ادب اردو‘‘ ہے جس کا بیڑا اردو ادب کی تاریخ تحریری صورت میں لانے کے لئے کئی اداروں اور محققین کی کوششیں ناکام ہونے کے بعد انہوں نے اٹھایا اور تنہا اس کی چار جلدیں مکمل کیں۔ یہ کتاب انہوں نے 1967میں لکھنا شروع کی۔ اس کی ہر جلد تقریباً ایک ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ علی گڑھ، سہارنپور اور میرٹھ سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد1947میں وہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور سندھ یونیورسٹی سے ایل ایل بی، ایم اے (انگریزی)، پی ایچ ڈی اور ڈی لٹ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ محکمہ انکم ٹیکس سے منسلک ہو گئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں کراچی یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا جہاں 1983سے 1987تک انہیں علمی کے علاوہ انتظامی صلاحیتیں بھی نہایت کامیابی سے آزمانے کا موقع ملا۔ ان کے علمی و ادبی کارناموں کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں ستارۂ امتیاز اور ہلالِ پاکستان کے اعزازات سے نوازا۔ بہت سے ممتاز ادیبوں اور نقادوں نے ان کے تخلیقی کام کی دل کھول کر تعریف کی۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی رحلت سے دنیائے اردو ایک عظیم دانشور اور محقق سے محروم ہو گئی ہے۔ انہیں جمعرات ہی کو کراچی میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ نمازِ جنازہ میں ممتاز اہلِ علم و دانش اور مقتدر شخصیات نے شرکت کی۔ ان کے پسماندگان میں بیوہ، دو بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998