وزیراعظم کے دورہ ایران پر کوئی منفی اثرات رونما نہیں ہونگے، شاہ محمود

April 21, 2019

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ “ میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گفتگو کرتے ہوئے کہاہےکہ وزیراعظم کے دورہ ایران پر کوئی منفی اثرات رونما نہیں ہوں گے، تحریک انصاف کے رہنما علی نواز اعوان نےکہا کہ صدارتی نظام کسی کی ذاتی رائے یا خواہش تو ہوسکتی ہے مگر پارٹی کی خواہش نہیں ہے،پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما چوہدری منظورنے کہا کہ تجربات کی بنیاد پر ہم نے ملک کو دو لخت کردیا اگر یہ پھر نیا تجربہ کرنا چاہ رہے ہیں تو کیا پھر ملک توڑنا چاہ رہے ہیں۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ایران ہمارا پڑوسی ہے اور ہم اس کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں جب بھی کوئی دشواری پیش آئی ہے ہم نے ان کے ساتھ تعاون کیا ہے جب ان کے کچھ سپاہی یرغمال کرلئے گئے تھے تو پاکستان نے مکمل تعاون کیااور بازیاب کراکر ان کے حوالے کئے اب جو واقعہ ہمارے ساتھ رونماہوا ہے جو قابل مذمت بھی ہے جس کی ذمہ داری بی آر اے نے تسلیم کرلی ہے اور ہم نے ان کے کیمپس کی نشاندہی کردی ہے اور جس طرح ہم نے ان کے ساتھ تعاون کیا ہے اور امید ہے وہ بھی ہماری تشویش کو دور کریں۔تحریک انصاف کے رہنما علی نواز اعوان نے کہا کہ صدارتی نظام کسی کی ذاتی رائے یا خواہش تو ہوسکتی ہے مگر پارٹی کی خواہش نہیں ہے ہم لوکل گورنمنٹ کو پاور نہیں دے سکتے بنا نہیں سکے چلا نہیں سکے ان چیزوں کے برے اثرات آتے ہیں تو اس طرح کی باتیں ہوتی ہیں آ ئین سازی تمام جماعتوں نے مل کر بنایا ہے ہمیں اس پر عملدرآمد کرانا چاہئے صدارتی نظام کی بحث1973ء سے پہلے تو ہوسکتی تھی اگر کوئی جماعت صدارتی نظام کی حمایت کرتی ہے تو اپنے منشور میں شامل کرکے آئندہ انتخابات میں عوام کے پاس چلی جائے میں آپ کو صاف صاف کہہ رہا ہوں کے ہماری جماعت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ٹیکنو کریٹ ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں مختلف سرکاری ادارے نقصان میں چل رہے ہیں اگر آئین کی حدود میں رہتے ہوئے آپ ان کو لگاسکتے ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے تحریک انصاف کو ووٹ تبدیلی کے لئے ملا ہے اور ہم نے کاکردگی دکھانی ہے ۔پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما چوہدری منظورنے کہا کہ وزیر قانون بنیادی آدمی ہوتا ہے جس نے کوئی بھی ترمیم یا بات کرنی ہوتی ہے انہوں نے ایک راستہ دکھا دیا ہے عمران خان کی خواہش بھی آپ نے سنوا دی ہے اور ان کے گورنر نے بھی کہہ دیا ہے اب سوال یہ ہے کہ کیوں لانا چاہ رہے ہیں پہلے ٹیکنو کریٹ کی حکومت سن رہے تھے اب وہ بھی آگئی ہے پی ٹی آئی اب کہاں نظر آتی ہے۔تینوں آمروں نے مارشل لگانے کے باعث پہلے لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کرائے پھر صدر بنے۔ اگر آپ نے صدارتی نظام لانا ہے تو صدارتی نظام کی بنیاد پر اسمبلی میں لے کر آئیں پھر آئین میں ترمیم کریں اور بنیادی ڈھانچہ تبدیل کریں۔ تجربات کی بنیاد پر ہم نے ملک کو دو لخت کردیا اگر یہ پھر نیا تجربہ کرنا چاہ رہے ہیں تو کیا پھر ملک توڑنا چاہ رہے ہیں ،عمران خان کو چاہئے تھا کہ وہ اس بات کو تسلیم کرتے کہ میں 9 ماہ میں کارکردگی نہیں دے سکا اور ناکام ہوا ہوں۔پروگرام کے میزبان شہزاد اقبال نےاپنے تجزیئے میں کہا کہ پہلے صدارتی نظام کا شوشہ صرف سوشل میڈیا تک محدود تھاحکومت اور حزب اختلاف یک زبان ہوکر اس کی مخالفت کررہی تھی مگر اب کچھ سیاسی اور حکومتی لوگوں نے بھی اس حوالے سے بیانات دینا شروع کردیئے ہیں ۔گورنر کے پی کے شاہ فرمان نے صدارتی نظام کی حمایت کردی ہے اور صدارتی نظام کے فوائد اور پارلیمانی نظام کے نقائص بیان کررہے ہیں لیکن پاکستان میں صدارتی نظام کیوں ضروری ہے۔