پیپلز پارٹی اور سیاسی خلا میں امکانات

March 14, 2016

پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کے نیویارک میں دیئے گئے حالیہ انٹرویوز کا بہت باریک بینی سے جائزہ لینا چاہئے ۔ آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ’’ اینٹ سے اینٹ بجانے والے انکے بیان کی غلط تشریح کی گئی ہے حالانکہ اس بیان کا مطلب انتہا پسندی اور دائیں بازو کی سوچ سے لڑائی تھی ۔ اس کا مطلب فوج یا اسٹیبلشمنٹ نہیں تھی کیونکہ عراق ، شام اور لیبیا کے حالات کے بعد پاکستان کسی اندرونی لڑائی کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ ‘‘ان انٹرویوز اور بیانات میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنی پارٹی کے تعلقات کے حوالے سے پوچھے گئے سوالوں پر آصف زرداری نے کہا ہے کہ’’ جب بھی کمانڈ میں تبدیلی آتی ہے ، پالیسیاں تبدیل ہو جاتی ہیں ۔ اس ملک کو پالیسیوں کے تسلسل کی ضرورت ہے ۔ ‘‘ان دونوں باتوں کو بدلتی ہوئی عالمی اور علاقائی صورت حال کے ساتھ ساتھ پاکستان کے غیر مستحکم داخلی حالات کے تناظر میں سمجھنا چاہئے ۔ آصف زرداری سیاست کا گہرا ادراک رکھتے ہیں ۔ وہ وقتی صورت حال ، پروپیگنڈے ، بیانات اور ٹی وی ٹکرز کو مدنظر رکھ کر نہ تو بیانات دیتے ہیں اور نہ ہی پالیسیاں وضع کرتے ہیں ۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح سیاسی عمل کو وسیع تر تاریخی تناظر میں دانشمندی کے ساتھ آگے بڑھانے کے قائل ہیں ۔ ان کے حالیہ بیانات میں پچھلے بیان کی وضاحت بھی ہے اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ تصادم نہ کرنے کا اشارہ بھی موجود ہے کیونکہ وہ بین الاقوامی اور علاقائی صورت حال کے حوالے سے مستقبل کی سیاست کی بات کر رہے ہیں ۔
یہ ٹھیک ہے کہ بھٹو سے لیکر آصف زرداری تک ہزار کوششوں کے باوجود بھی پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی منظور نظر نہیں بن سکی ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آج بھی پیپلز پارٹی ملک کی سب سے بڑی وفاقی اور لبرل سیاسی جماعت ہے ۔ مغربی طاقتیں اس خطے میں جس طرح اپنا کھیل ، کھیل رہی ہیں اور جنوبی ایشیا کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں ، اس میں پاکستان پیپلز پارٹی ملک کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے سب سے زیادہ اہم کردار ادا کر سکتی ہے ۔ یہ حقیقی معنوں میں ایک وفاقی سیاسی جماعت ہے ۔ کسی دوسری سیاسی جماعت کو یہ حیثیت حاصل نہیں ہے ۔ یہ اپنے جوہر میں لبرل پارٹی ہے ، جو ہر قسم کی انتہا پسندی کا سیاسی مقابلہ کر سکتی ہے اورpluralistic معاشرے کے قیام میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے ۔ نائن الیون کے واقعہ کے بعد پاکستان کی دائیں بازو کی جو سیاسی جماعتیں یا غیر سیاسی قوتیں لبرل ازم کا نعرہ لگا رہی ہیں ، وہ پیپلز پارٹی کا متبادل نہیں ہیں ۔ مستقبل کے امکانی حالات میں پیپلز پارٹی ملک کیلئے لبرل ، ڈیمو کریٹک اور فیوچرسٹ پالیسیاں تشکیل دینے کی اہلیت رکھتی ہے ۔
میں آج بھی اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی مسلم لیگ کے ختم ہونے کے بعد پیپلز پارٹی ہی قائداعظم کی مسلم لیگ کی جانشین ہے اور آج بھی وہ پورے ملک میں اپنی پہلے والی پوزیشن بحال کر سکتی ہے ۔ پارٹی قیادت سے زیادہ اس بات کو کون سمجھتا ہو گا کہ اگر کوئی سیاسی جماعت سیاسی بے عملی کا شکار ہو جائے یا عوام میںاسکے بارے میں تاثر ٹھیک نہ رہے تو اسے اپنی سیاسی پوزیشن برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ اس کی جگہ دوسری سیاسی جماعتیں لے لیتی ہیں اور یہ ضروری نہیں ہوتا کہ سیاسی خلاء پر کرنے والی دوسری سیاسی جماعتیں لازمی طور پر انہی سیاسی نظریات کی حامل ہوں ، جو ان سے پہلے والی مقبول سیاسی جماعت کے تھے ۔ اس وقت پاکستان میں بہت سی پرانی سیاسی جماعتیں غیر متعلق ہو رہی ہیں اور ایک سیاسی خلاء پیدا ہو رہا ہے ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو یقیناً اس بات کا بھی ادراک ہو گا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات طے کرنے کیلئے اسے اپنی پہلے والی سیاسی پوزیشن بحال کرنا ہو گی اور ملک میں پیدا ہونے والے نئے سیاسی خلاء کو پر کرنے کیلئے آگے بڑھ کر کام کرنا ہو گا۔ اس ضمن میں پیپلز پارٹی کو نئے حالات میں اپنی تنظیم اورسندھ میں اپنی حکومتی کارکردگی کا ازسر نو جائزہ لینا ہو گا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے عظیم سانحہ کے بعد پیپلز پارٹی کو مرکز میں پانچ سال حکومت کرنے کا موقع ملا اور گزشتہ 8سال سے سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت ہے مگر پیپلز پارٹی وہ ڈیلیور نہیں کر سکی ہے ، جس کی لوگوں کو توقع تھی ۔ سپریم کورٹ نے متعدد مقدمات میں جو فیصلے دیئے ہیں ، ان میں سندھ حکومت پر ایک چارج شیٹ بھی عائد کی گئی ہے ۔ رینجرز نے بھی ایک طرح سے بیڈ گورننس کی چارج شیٹ عائد کی ہے ۔ ممکن ہے کہ معروضی حقائق کچھ اور ہوں لیکن سپریم کورٹ اور رینجرز نے جو تاثر ( Perception ) دیا ہے ، عمومی تاثر بھی یہی ہے کہ سندھ میں میرٹ کی بنیاد پر تبادلے و تقرریاں اور بھرتیاں نہیں ہوتیں ۔ پولیس میں سیاسی مداخلت ہے ۔ ترقیاتی بجٹ کا صحیح استعمال نہیں ہوتا اور مختلف معاملات میں لوگوں کو ریلیف نہیں ملتا ۔ یہ تاثر بھی قائم ہو رہا ہے کہ ایک وفاقی سیاسی جماعت کی بجائے پیپلز پارٹی سندھ کے دیہی علاقوں کی پارٹی بنتی جا رہی ہے ۔ پیپلز پارٹی کو اس تاثرکو بدلنے کیلئے اپنی سیاسی حکمت عملی ازسر نو مرتب کرنا ہو گی ۔
پیپلز پارٹی کو ملک کے دیگر صوبوں اور علاقوں میں اپنی سیاسی پوزیشن کی بحالی کیساتھ ساتھ سندھ کے شہری علاقوں خصوصاً کراچی پر بھی توجہ دینا ہو گی ۔ خود آصف علی زرداری کا کہنا یہ ہے کہ 2040ءمیں کراچی دنیا کا سب سے بڑا شہر ہو گا جبکہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2030ءمیں کراچی دنیا کاسب سے بڑا شہر بن جائے گا ۔ کراچی کی آبادی سندھ کی مجموعی آبادی کا 40 سے 45 فیصد تک ہو گی ۔ کوئی بھی سیاسی جماعت اس وقت تک ملک گیر سیاسی جماعت نہیں بن سکتی ، جب تک کراچی میں اس کی مضبوط پوزیشن نہ ہو ۔ کراچی، حیدرآباد، سکھر، میرپورخاص اورنوابشاہ میں اردو بولنے والے صوبہ سندھ کی نصف آبادی سے زیادہ ہیں۔ وہاں ایک سیاسی خلا پیدا ہو رہا ہے۔ PPP کو شہری سندھ پر توجہ دینی چاہئے اور شہری سندھ کے مسائل اور وہاں سے قیادت نکالنی چاہئے اگرچہ دنیا کی نظریں پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں پر واقع تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ریاستوں پر بھی ہیں لیکن اس سے زیادہ نظریں کراچی پر ہیں کیونکہ کراچی کا سب سے زیادہ اہم تزویراتی محل وقوع ( اسٹرٹیجک لوکیشن ) ہے ۔ معاشی طور پر نہ صرف پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے بلکہ اس خطے کا بھی معاشی حب ہے ۔ اس وقت کراچی میں جو رسہ کشی ہو رہی ہے ، وہ کراچی کی بادشاہت حاصل کرنے کےلئے ہے ۔ یہ شہر پاکستان کو سب سے زیادہ ریونیو دیتا ہے ۔ اس شہر میں سب سے زیادہ چندہ اور سب سے زیادہ بھتہ وصول ہوتا ہے ۔ اس شہر میں سب سے زیادہ فلاحی کام ہوتے ہیں ۔ موجودہ رسہ کشی علاقے اور اردو بولنے والے لوگوں کا ووٹ بانٹنے کےلئے ہے لیکن اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ کراچی صرف اردو بولنے والوں کا شہر نہیں ہے ۔ اگرچہ اردو بولنے والے اکثریت میں ہیں لیکن دیگر زبانیں بولنے والوں کی آبادی بھی ان کے برابر ہے ۔ وہ بھی اس شہر میں نمائندگی چاہتے ہیں ۔
پیپلز پارٹی یہاں پیدا ہونے والے خلاء کو پر کر سکتی ہے ۔ ایک لبرل سیاسی جماعت کی حیثیت سے وہ تمام زبانیں بولنے والے لوگوں ، تمام مذاہب ، تمام فرقوں اور تمام قومی اور نسلی گروہوں اور تمام طبقات کی پارٹی بننے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ کراچی سب سے زیادہ لبرل شہر ہے اور پیپلز پارٹی اپنے لبرل امیج کے ساتھ یہاں اپنے لئے جگہ بنا سکتی ہے ۔ ایم کیو ایم بھی ایک لبرل اور سیکولر پارٹی کے طور پر سامنے آئی تھی ۔ اس نے نہ صرف اردو بولنے والوں بلکہ دیگر زبانیں بولنے والے لوگوں کو بھی اپنی طرف راغب کیااور اس نے ڈیلیور بھی کیا ہے۔ ۔ پیپلز پارٹی کےلئے یہاںدوسری پارٹیوں کی نسبت سب سے زیادہ امکانات موجود ہیں ۔
کراچی کے علاوہ پنجاب ، بلوچستان ، خیبرپختونخوا ، گلگت بلتستان اور کشمیر میں بھی پیپلز پارٹی اور عوام کے درمیان ڈائیلاگ کا ایسا رشتہ موجود ہے ، جو کسی اور سیاسی جماعت کا نہیں ہے اور وہ نئے پیدا ہونے والے سیاسی خلاء کو دوبارہ پر کر سکتی ہے ۔ اپنی سیاسی پوزیشن کو بہتر بنانے کے بعد پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات طے کرنے کی پہلے والی پوزیشن بھی حاصل کر سکتی ہے ۔ سب کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے ، جو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے کہی تھی کہ ’’ پاکستان خشک ایندھن کا گٹھا ہے ، جو بڑی تیزی سے آگ پکڑ سکتا ہے ، یہ میرا گھر ہے ، میرے بچوں کا گھر ہے ، پاکستان کے سب بچوں کا گھر ہے ، جس کیلئے لاتعداد قربانیاں دی گئی ہیں … پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ہماری قوم کے جمہوری ریکارڈ کا مطالعہ آگے بڑھتے ہوئے قدموں اور پیچھے کو دھکیل دینے والے واقعات کی ایک اداس کن داستان ہے ۔ مگر یہ داستان بدل سکتی ہے ۔ ‘‘ اس اداس کن داستان کو بدلنے کےلئے پیپلز پارٹی اب بھی ایک ’’ متعلق ‘‘ ( Relevant ) سیاسی جماعت ہے۔