All the President's men

April 24, 2019

پنجاب یونیورسٹی میں صحافت کے ایک استاد ہوا کرتے تھے، ایک دن وہ کلاس میں لیکچر دے رہے تھے کہ کسی نے پوچھا سر واٹر گیٹ اسکینڈل کیا تھا، اُستاد نے جواب دیا کہ صدر نکسن کے زمانے میں ایک ڈیم کا گیٹ غلطی سے کھول دیا گیا تھا، جس سے کافی تباہی ہوئی اور آخرکار صدر کو مستعفی ہونا پڑا، اِسی لئے اُسے واٹر گیٹ اسکینڈل کہتے ہیں۔ خدا اُن کی قبر کو نور سے بھر دے، اب ایسے استاد رہے نہ شاگرد۔ خود یہ خاکسار زمانہ جاہلیت تک واٹر گیٹ اسکینڈل کی اِسی تشریح کا قائل رہا، وہ تو کئی برس بعد جب All the President's Menنظر سے گزری تو معلوم ہوا کہ واٹر گیٹ دراصل واشنگٹن میں واقع ایک پُرشکوہ عمارت کا نام ہے، جس میں عالیشان دفاتر اور ہوٹل کے کمرے ہیں، اِسی واٹر گیٹ میں امریکہ کی ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کا مرکزی دفتر تھا۔ 16جون 1972کی رات پانچ افراد کو اِس عمارت میں چوری کرنے کے جُرم میں گرفتار کیا گیا، تلاشی کے دوران اِن افراد سے کیمرے، فلموں کے رول اور جاسوسی کے آلات برآمد ہوئے۔ شاید یہ کوئی اتنی بڑی خبر نہ ہوتی مگر گرفتار ہونے والوں میں جیمز میکارڈ نامی شخص شامل تھا، جو صدر نکسن کی تشکیل کردہ کمیٹی برائے صدارتی انتخاب کا سیکورٹی منیجر تھا، صرف یہی نہیں بلکہ گرفتار شدگان میں سے ایک شخص کے پاس ایسی نوٹ بک بھی برآمد ہوئی جس پر وہائٹ ہاؤس سے وابستہ اہم ترین افرد کے رابطہ نمبر درج تھے، جن میں سے ایک نمبر صدر نکسن کے مشیر خاص کا تھا۔ یہاں معاملہ کچھ مشکوک ہو گیا کیونکہ پیشہ ور چوروں کی وہایٹ ہاؤس سے براہ راست تعلق کی کوئی تُک نہیں بنتی تھی، صدر نکسن انتخاب کی دوڑ میں اپنے مخالف امیدوار سے ہر قسم کے جائزوں میں آگے تھا، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ نکسن اپنی انتخابی مہم میں کسی بھی طرح کا منفی ہتھکنڈا اپنائے گا اور پھر مخالف پارٹی کے صدر دفتر میں اپنے سیکورٹی منیجر کی سربراہی میں چوروں کا ایک وفد بھیج کر جاسوسی کروانے کی کوشش کرنا تو پرلے درجے کی حماقت ہوتی۔ مگر یہ حماقت ہوئی اور بالآخر صدر نکسن کو لے ڈوبی۔

واشنگٹن کے دو اخباری رپورٹرز نے اِس خبر پر کام شروع کیا، ایک کا نام باب وڈ ورڈز تھا اور دوسرے کا کارل بیرنسٹین، دونوں واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ تھے۔ اِن رپورٹرز کو نکسن کی صدارتی کمیٹی کے ایک سابق خزانچی نے بتایا کہ وہائٹ ہاؤس میں ہزاروں ڈالر کا فنڈ خفیہ کاموں کے لئے مختص ہے، جس کے تحت ڈیموکریٹک امیدواروں کی جاسوسی کی جاتی ہے، اِن کے خاندان کے افراد کا تعاقب کر کے انہیں ہراساں کیا جاتا ہے، ڈیموکریٹک پارٹی کے سرناموں پر جعلی خطوط بنائے جاتے ہیں، اُن کے جلسوں میں منصوبہ بندی کے تحت ابتری پھیلائی جاتی ہے، اُن کی دستاویزات چوری کی جاتی ہیں، اُن کے نام سے جعلی پریس ریلیز اخبارات کو بھیجی جاتی ہیں اور تو اور اپنے جاسوسوں کو اُن کی تنظیموں میں باقاعدہ بھرتی کروایا جاتا ہے۔ خزانچی کا کہنا تھا کہ صدر نکسن نے اپنی صدارتی کمیٹی کو ایک قسم کی نجی کمپنی کا رنگ دے رکھا تھا تاکہ یوں لگے کہ اِس کا وہائٹ ہاؤس یا سرکار کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں اور یہ صدر کے پرستاروں اور حمایتیوں نے اپنے محبوب قائد کی انتخابی مہم کے لئے بنا رکھی ہے مگر حقیقت میں یہ کمیٹی وہائٹ ہاؤس میں ہی بنی تھی، بھرتی بھی وہیں سے کی گئی اور یہ جوابدہ بھی صرف وہائٹ ہاؤس کو ہی تھی۔ اس ڈرامے میں ایک کردار صدر کے چیف آف اسٹاف ہالڈ مین کا بھی تھا، اکتوبر میں واشنگٹن پوسٹ نے خبر شائع کی کہ واٹر گیٹ چوری میں ہالڈ مین ملوث تھا، اِس خبر کا سیدھا مطلب یہ تھا کہ واٹر گیٹ نکسن کی مرضی سے کیا گیا، وہائٹ ہاؤس نے خبر کی تردید کی، 7نومبر 1972کو صدر نکسن بھاری اکثریت سے دوبارہ امریکہ کا صدر منتخب ہو گیا۔ معاملہ مگر ختم نہیں ہوا۔ واٹر گیٹ کی تحقیقات چلتی رہیں، وفاقی حکومت کی ایک جیوری نے سینکڑوں لوگوں کے انٹرویو لئے، جن میں وہائٹ ہاؤس کے کلیدی عہدے دار بھی شامل تھے، مگر یہ سب کچھ لیپا پوتی ثابت ہوا، جیوری نے دنیا جہان کے سوالات پوچھے مگر یہ سیدھا سوال نہ پوچھا کہ واٹر گیٹ چوری کا حکم اصل میں کس نے دیا تھا، چوری کرنے والوں پر جب فرد جرم عائد کی گئی تو اُنہوں نے یہ راز بھی افشا کیا کہ اُن سے وعدہ کیا گیا تھا کہ جیل کے دوران اُنہیں ہزار ڈالر فی ہفتہ دیا جائے گا اور جیل سے باہر آنے کے بعد بھی اُن کا خیال رکھا جائے گا، سیکورٹی منیجر جیمز میکارڈ نے بیان دیا کہ اِس تمام آپریشن کی منظوری اٹارنی جنرل صاحب نے دی تھی ۔ دھیرے دھیرے رائے عامہ نکسن کے خلاف ہوتی چلی گئی، وہائٹ ہاؤس کے عہدے دار جو صدر کی خوشنودی کے لئے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرتے تھے، اب ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے لگے، کوئی مستعفی ہو گیا، کوئی منظر عام سے ہٹ گیا، وہائٹ ہاؤس کی ترجمان، جس نے واشنگٹن پوسٹ کی خبر پر اخبار کے خلاف مخالفین سے ملی بھگت کا الزام لگایا تھا، نے اخبار سے معافی مانگ لی۔ اِن تمام باتوں کے باوجود بھی شاید نکسن کی صدارت بچ جاتی مگر خود صدر صاحب نے وہائٹ ہاؤس میں جاسوسی کے لئے ریکارڈنگ کا نظام لگوایا تھا، جس کا علم صرف چند قریبی لوگوں کو تھا، واٹر گیٹ کی تحقیقات میں جب یہ ریکارڈنگ ٹیپس مانگی گئیں تو پہلے تو صدر نے دینے سے انکار کر دیا مگر بعد میں سپریم کورٹ کے حکم پر یہ مہیا کرنا پڑیں، یہ ایٹم بم ثابت ہوئیں، اُن سے ثابت ہو گیا کہ نکسن اپنی صدارتی کمیٹی کے تمام معاملات سے نہ صرف باخبر تھا بلکہ اُن کو تحفظ دینے کے لئے بھی تیار تھا، ایک گفتگو میں نکسن نے اپنے چیف آف اسٹاف کو کہا کہ وہ سی آئی اے کو کہے کہ ایف بی آئی واٹر گیٹ تحقیقات ’’قومی سلامتی‘‘ کی آڑ میں روک دے۔ اِس کے بعد دونوں ایوانوں میں نکسن کی حمایت کو شدید دھچکا لگا، اِس کی معزولی کا مطالبہ زور پکڑ گیا، 8اگست 1974کو نکسن نے اپنی صدارت سے استعفی ٰ دے دیا۔

پیارے بچو اِس کہانی سے ہم نے یہ سبق سیکھا کہ بعض اوقات بڑے لوگ صرف دیکھنے میں بڑے لگتے ہیں، حقیقت میں وہ احمق ہوتے ہیں۔ کوئی شخص اگر کسی بڑے عہدے تک پہنچ جائے تو ضروری نہیں کہ وہ اس عہدے کا اہل بھی ہو، وہ قسمت کا دھنی بھی ہو سکتا ہے اور حالات کا احسان مند بھی، اِس سے بھیانک غلطیاں بھی سر زد ہو سکتی ہیں اور حماقتیں بھی، لہٰذا بڑا عہدہ اِس بات کا ثبوت نہیں کہ اُس پر براجمان شخص دانشمندی کا منبع ہے یا اعلیٰ کردار کا حامل لیڈر ہے، جلد یا بدیر انسانوں کا باطن آشکار ہو ہی جاتا ہے، لہٰذا لوگوں کو اُن کے دعوؤں سے نہیں اُن کے اعمال سے جانچیں، عہدوں سے نہیں اُن کے کردار سے پرکھیں، دنیا میں امریکی صدر سے بڑا کوئی عہدہ نہیں اور نکسن سے مقبول کوئی لیڈر نہیں تھا، اگر وہاں حماقت کا ایسا مظاہرہ اور کردار کی ایسی گراوٹ ہو سکتی ہے تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔ دوسرا سبق اِس کہانی کا یہ ہے کہ برے وقت کا کوئی ساتھی نہیں ہوتا، وفاداری اِس دنیا میں نایاب ہے، لوگ صرف عہدے اور طاقت کے وفادار ہوتے ہیں، چاہے وہ شیطان کے پاس ہی کیوں نہ ہو اور تیسرا سبق یہ ہے کہ معاشرے میں بدعنوانی کے آگے بند صرف آزاد صحافت ہی باندھ سکتی ہے جبکہ ہم نے اسی کا گلا گھونٹ رکھا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)