یہ وقت ہے پاکستانی ثقافت کےجنم لینے کا

April 25, 2019

شاید پھر آموں کا موسم آرہا ہے۔

کوئل کی کوکو صبح سویرے بلکہ منہ اندھیرے جگا دیتی ہے۔ کوئل اپنے محبوب کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے اسلام آباد آپہنچی ہے۔ نجانے اُس کے محبوب کو کس نے لاپتا کیا ہے۔ میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے ہوسٹل کے ایک کشادہ کمرے میں نیشنل بک فائونڈیشن کا مہمان ہوں۔ جناح ہال اور لیاقت ہال آمنے سامنے ہیں۔ جناح اور لیاقت دونوں کو ہم نے دیوار پر بلکہ دیوار سے لگا رکھا ہے۔ دلوں میں نواز، زرداری اور عمران بستے ہیں۔

کتاب میلے بڑی محبت سے سجائے جاتے ہیں۔ بہت خوشی ہوتی ہے جب وہاں مائیں، بہنیں، بیٹیاں، شیر خوار بچے، وہیل چیئرز والے اسٹال در اسٹال اپنی محبوب کتاب کی تلاش میں دائیں بائیں دیکھے بغیر چل رہے ہوتے ہیں۔ بہت سے خاندان ایسے ہیں جو اِن میلوں کے لئے الگ سے بجٹ رکھتے ہیں۔ بچے بچیاں اپنی جیب خرچ بچا کر اِن دنوں کا انتظار کرتے ہیں۔ صرف اسلام آباد، راولپنڈی سے نہیں آزاد جموں و کشمیر، کے پی، فاٹا اور پنجاب کے قریبی اضلاع سے ادب کے دلدادگان کشاں کشاں پاک چین دوستی مرکز پہنچتے ہیں، جس کی تولیت سی ڈی اے کے سپرد ہے، اِس لئے برا حال ہے۔ اُوپر جانے والی برقی سیڑھی ساکت ہے، اُترنے والی رواں دواں ہے۔ پھر بھی ستر اسی سالہ بزرگ حضرات و خواتین سیڑھیاں چڑھ رہے ہیں۔ زیادہ تر پروگرام پہلی منزل پر ہو رہے ہیں۔

اچھی بات ہے ہم اپنے جانے والوں کو یاد رکھتے ہیں۔ ایک بھرپور نشست ’’نہیں فراز تو لوگوں کو یاد آتا ہے‘‘، قلم کو لوگوں کی امانت کہنے والے احمد فراز کی یاد میں ہے۔ شبلی فراز اور سعدی فراز موجود ہیں۔ مسعود مفتی منفرد افسانہ نگار صدارت کر رہے ہیں۔ فراز کے چاہنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ڈاکٹر پروفیسر نذیر تبسم فراز کے ہم نشینوں میں سے ہیں۔ فراز کے شگفتہ واقعات سنا رہے ہیں۔ مسعود مفتی فراز کو دل اور دماغ کا شاعر کہہ کر یہ افسوس کر رہے ہیں کہ اُن کی دل کی شاعری تو یاد کی جاتی ہے مگر دماغ کی شاعری سے رفتہ رفتہ گریز بڑھ رہا ہے۔

ہرچند قدم پر کوئی اجنبی پاکستانی عقیدت سے ملتا ہے۔ ہم آپ کو بچپن سے پڑھ رہے ہیں۔ بہت سے ہم عصر بزرگ بھی ’جنگ‘ کے نصف صدی سے زیادہ عرصے سے قاری ہیں۔ اپنی کتابیں بھی عنایت کرتے ہیں۔ سیلفی کا دَور ہے، اِس لئے ہاتھ لمبا کرکے ایک سیلفی بھی۔ یہ میلے بچھڑے ہوئوں کا ملاپ بھی کروا دیتے ہیں۔ آج کے رومیو جولیٹ میلوں کو مقامِ ملاقات کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

رفتگاں میں مشتاق احمد یوسفی، ڈاکٹر سلیم اختر، خالدہ حسین، فہمیدہ ریاض، الطاف فاطمہ، سجاد بابر اور ڈاکٹر عطش درّانی کو یاد کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے انتقال کی خبر میلے سے ایک روز پہلے ہی آئی۔ وہ بھی رفتگاں کی کہکشاں کے ستارے بن گئے۔ میں عرض کر رہا ہوں کہ رفتگاں کو یاد رکھنا بہت اچھا ہے لیکن جو اہلِ علم زندہ ہیں، صاحبِ فراش ہیں، اُن سے بھی مل لیا کریں۔ وہ سخت تنہا محسوس کرتے ہیں۔ مجھے صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی گفتگو نے پہلی بار متاثر کیا۔ سب سے پہلے تو یہ کہ اُنہوں نے ڈاکٹر جمیل جالبی کی یاد سے بات کا آغاز کیا، پھر کتاب کے حوالے سے پوری تاریخ پر نظر ڈالی۔ قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن کے وزیر شفقت محمود تو اپنی تقریر میں کتاب کے ناپید ہونے کا اعلان کر رہے تھے۔ مجھے عرفان صدیقی یاد آرہے ہیں، ادب و تحقیق و قومی زبان و قائداعظم سے متعلقہ اداروں کی اُنہوں نے ایک وزارت میں شیرازہ بندی کی، جس سے یہ سب فعال ہو گئے۔ میاں محمد نواز شریف نے اکادمی ادبیات پاکستان کو 50کروڑ کی گرانٹ بھی دے دی تھی، عرفان صدیقی خود صاحبِ کتاب تھے۔ اُن کی تحریر میں کتابوں کی خوشبو رچی بسی ہوتی تھی۔ کتاب میلے کی روایت کو بھی اُنہوں نے آگے بڑھایا۔ عطاء الحق قاسمی بھی میلے میں لطافت بکھیر دیتے تھے۔ صدرِ مملکت نے اپنی گفتگو سے محفل کو کشتِ زعفران بھی بنایا اور اپنی ماں کی دُعائوں کے حوالے سے کتاب سے اپنا گہرا رشتہ بیان کر رہے تھے۔ توقع تھی کہ وہ کسی گرانٹ کا اعلان بھی کریں گے۔ لیکن بسا آرزو کہ خاک شدہ۔

عرفان صدیقی اِس افتتاحی اجلاس کے بعد کے دنوں میں بھی کتابیں دیکھتے دکھائی دیتے تھے۔ شفقت محمود یا کوئی اور حاضر سروس وزیر کسی دن نظر نہ آئے۔ کسی اور سیاسی پارٹی کے لیڈر بھی کہیں نہ دیکھے گئے۔ یہ حکمراں طبقہ کتاب سے کیوں گریزاں ہے، نہ ہی کوئی اینکر پرسن آیا۔ کتابوں کی دنیا سلامت ہے۔ اختر رضا سلیمی درست اُردو املا کے لئے سافٹ ویئر بنا رہے ہیں۔ یہ سافٹ ویئر خود کار انداز میں املا درست کرنے پر قادر ہوگا۔ اُنہیں کوئی سرکاری ادارہ یا کمرشل کمپنی سہارا دے دے تو گیسوئے اُردو کو ایک اور شانہ مل جائے گا۔ اِس نشست میں مَیں نے میر خلیل الرحمٰن مرحوم، احمد جمیل مرزا، مطلوب الحسن سید کو یاد کیا، جن کی بدولت اُردو کو برقی خوش نویسی میسر آئی۔ یہ اُردو کی تاریخ میں سب سے بڑی پیش رفت ہے۔

کتاب میلہ پنجاب، سندھ، کے پی، بلوچستان، جنوبی پنجاب، فاٹا، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان، سب کو قریب لے آتا ہے۔ مادری زبانیں گھل مل جاتی ہیں۔ ثقافتیں گلے لگتی ہیں۔ پاکستانی ثقافت جنم لیتی ہے۔ کتاب میلے اور ادبی کانفرنسیں جہاں بہت سے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں وہیں تشنگی بھی بڑھا دیتی ہیں۔ ایک وقت میں ہزاروں مسائل کو سمیٹنے کی کوشش میں نکات زیادہ اور لمحات کم ہو جاتے ہیں۔ شرکائے بحث یا کلیدی گفتگو کرنے والوں کو تین چار منٹ سے بھی کم وقت دیا جاتا ہے۔ محبوب ظفر مستقل سرگوشی کرتے رہتے ہیں۔ اگر پروگرام کم رکھے جائیں، موضوع کو زیادہ وقت دیا جائے، شرکا تیاری کرکے آئیں، اُن کی تحریریں بعد میں کتابی شکل میں شائع کی جائیں، ریکارڈنگ کی جائے، وہ آنے والے طالب علموں اور محققین کے بھی کام آسکتی ہیں۔ جدید نظم پر کشور ناہید کی زیر صدارت اچھی خاصی گفتگو ہوئی۔ وہ اب بھی اِسی طرح بلند حوصلہ اور دبنگ ہیں۔ اُن سے لاہور میں ماہنامہ ’دوست‘ کے دفتر میں پہلی ملاقات یاد آ رہی ہے اور یہ شعر:

مدتوں بعد ملے تھے جن سے

اُن نگاہوں میں بلاوا نہ ملا

اِس میلے میں سب سے قیمتی متاع کشور ناہید ہی تھیں۔ ادبی رسائل کی صورتحال میں مخزن، فنون، اوراق، تخلیق، سیپ، نقاط، ادبیات کا تذکرہ رہا۔ عکسی مفتی نے اپنی تحریر ’ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ستار بجائو‘ سے کتاب خوانی کی محفل لوٹ لی۔ جنرل ضیاء الحق کی حکمرانی کا یہ کمال ہے کہ ہر میلے میں اُن کا منفی ذکر کسی نہ کسی حوالے سے ہو جاتا ہے۔ کوئی اور حکمراں کم ہی لائقِ ذکر ٹھہرتا ہے۔ اب کے بجٹ کم ہے۔ اِس لئے اہلِ قلم چوراہوں پر کم ہی لٹکے۔ کتاب زندہ ہے، اِس میلے سے اور زندہ ہو گئی۔ میں بھی کتابوں سے لدا پھندا اسلام آباد سے واپس کراچی پہنچا ہوں۔ قومی یکجہتی کے لئے پی آئی اے والے ہمیں اسلام آباد سے کوئٹے کے راستے کراچی لائے۔ بلوچستان کی مہک پھر ہمارے دلوں میں اُتری۔