بزدار کی تبدیلی؟ افواہیں دم توڑ سکتی ہیں!

April 25, 2019

پنجاب حکومت افواہوں کی زد میں ہے اورایک سے بڑھ کر ایک قیاس آرائی سامنے آرہی ہے، سب سے بڑھ کر سوالیہ تو چوہدری نثار علی خان نے کھڑا کیا ہے جو اچانک متحرک ہوگئے ہیں اور آٹھ ماہ بعد ان کی طرف سے اشارے مل رہے ہیں کہ وہ پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھا سکتے ہیں تاہم یہ حلف اٹھانے کے لئے انہیں کسی سیاسی جماعت کی وابستگی اختیار کرنا ہوگی غالباً وہ آج کل اسی تگ ودو میں ہیں کہ اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کریں اور اس جماعت میں شامل ہوں جو ان کی سیاسی ساکھ کو بحال کرنے میں معاون ثابت ہوسکے۔ جب سے وزیر اعظم عمران خان نے وفاقی کابینہ میں اکھاڑ پچھاڑ کی ہے اور اسد عمر جیسے اپنے با اعتماد ساتھی کو وزارت خزانہ سے ہٹا کر ایک بڑپیغام دیا ہے اس وقت سے پنجاب کے حوالے سے چہ میگوئیوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور یہاں تک کہا جارہا ہے کہ عثمان بزدار کی رخصتی قریب آچکی ہے تاہم ابھی یہ صرف اندازے اور قیاس آرائیاں ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان نے اپنی ایک حالیہ پارٹی میٹنگ میں عثمان بزدار پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ وہ ایک ایماندار اور شریف النفس انسان ہیں ، ان کی حکمرانی پر انہیں کوئی شبہ نہیں اور وہ پنجاب کے لئے بہترین وزیر اعلیٰ ثابت ہوں گے ۔ یہاں لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے تک وزیر اعظم عمران خان اسد عمر کے بارے میں بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے تھے اور انہیں بھی ملک کا بہترین وزیر خزانہ قرار دیتے تھے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ عثمان بزدار بہت سی خفیہ طاقتوں کے مسلسل کئے جانے والے وار سے کیسے بچتے ہیں اور کب تک صرف عمران خان ان کی شرافت اور سادہ لوحی کی بنیاد پر ان کی حمایت کرتے ہیں۔ جہاں تک پنجاب کی پاور گیم کا تعلق ہے تو اس پر کئی طاقتوروں نے نظریں گاڑ رکھی ہیں ۔ یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ چوہدری برادران اور شہباز شریف کے درمیان لندن میں پنجاب کے حوالے سے کوئی کھچڑی پک رہی ہے اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ فی الوقت شریف خاندان چوہدری برادران کو ہر وہ عہدہ دینے کے لئے تیار ہے جس کی وہ خواہش کرتے ہیں ، شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے بے لچک رویہ نے جس طرح شریف برادران اور آصف علی زرداری کو دیوار سے لگا رکھا ہے اس میں یہ ایک بہترراستہ نظر آتا ہے کہ چوہدری برادران سے مل کر موجودہ سیاسی سیٹ اپ میں دراڑ ڈالی جائے ، تاہم یہ اتنا آسان اس لئے نہیں ہے کہ چوہدری برادران کا صرف اقتدار کے لئے شریف برادران سے ملنا ، ان کے سیاسی مستقبل پر بہت بڑا سوالیہ نشان کھڑا کرسکتا ہے ، کیونکہ پنجاب میں ان دونوں خاندانوں کی ایک دوسرے کے خلاف شدید محاذ آرائی کی تاریخ رہی ہے اور مشرف کے دور میں چوہدری پرویز الٰہی نے وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے شریف برادران کو مسلم لیگ توڑ کر جو نقصان پہنچایا اور اس کی یادیں شاید دونوں طرف تازہ ہیں ، پھر عمران خان نے جس طرح عام انتخابات میں نشستوں کے حوالے سے چوہدری برادران کو فری ہینڈ دیا اور تحریک انصاف کے امیدوار کھڑے نہیں کئے ، بعد ازاں پرویز الٰہی کو پنجاب اسمبلی کا اسپیکر بنا کر اور (ق) لیگ کو وفاقی اور صوبائی وزارتیں ان کی عددی اکثریت سے بڑھ کر دینے کے بعد اس کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا کہ چوہدری برادران مزید اقتدار کی خواہش کے لئے عمران خان سے بے وفائی کریں ، ایسا کرنے کی صورت میں انہیں اپنے ووٹرز کے رد عمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جہاں تک چوہدری نثار علی خان کے متحرک ہونے کا تعلق ہے تو یہ اتنا آسان نہیں کہ وہ شریف برادران کے لئے اپنے معاملات طے کرلیں اور انہیں پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے وہاں سے گرین سگنل مل جائے کیونکہ حالت یہ ہے کہ نوازشریف چوہدری نثار علی خان سے ملنا تک نہیں چاہتے اور یہ بڑی حیران کن بات ہے کہ وہ جاتی امرا میں نوازشریف سے ملاقات کی بجائے لندن میں شہباز شریف سے مبینہ طور پر ملاقات کے لئے جارہے ہیں ، اس لئے فی الوقت ایسا نہیں لگتا کہ عثمان بزدار کو کہیں سے کوئی خطرہ ہے، جب تک وہ وزیراعظم عمران خان کی گڈ بکس میں ہیں وزارت اعلیٰ پر براجمان رہیں گے البتہ انہیں اپنی گورننس کے معاملات پر ازسر نو توجہ دینی ہوگی ، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عملاً بیوروکریسی پنجاب پر حکمرانی کر رہی ہے، ملتان کی مثال سب کے سامنے ہے جہاں ڈپٹی کمشنر نے اپنا سکہ جمایا ہواتھا۔ پھر یہ ہوا کہ ڈپٹی کمشنر مدثر ریاض اور اراکین اسمبلی کے تنازعے میں بالآخر اراکین اسمبلی کامیاب ہوگئے اور ڈپٹی کمشنر کا تبادلہ ہوگیا۔

تاہم وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے لئے یہ انتہائی اہمیت کی حامل حکمت عملی ہونی چاہیے کہ وہ پنجاب میں تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کو اہمیت دیں ، ان کے ذریعے عوامی مسائل حل کرائیں اور خاص طور پر پی ٹی آئی کے کارکنوں کو یہ احساس نہ ہونے دیں کہ انہیں بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا ہے ، جیسا کہ آج کل یہ احساس شدت سے پایا جاتا ہے۔ دوسری طرف ارکان اسمبلی بھی عوام کا سامنا نہیں کررہے، یہ صورتحال در حقیقت اچھی گورننس کا تاثر پیدا نہیں ہونے دے رہی اور یوں لگتا ہے کہ جیسے پنجاب میں بیوروکریٹ کا راج ہے اور ٹیکنو کریٹس کی حکومت کام کررہی ہے ، جب تک وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اپنا یہ تاثر نہیں بدلتے اور یہ احساس نہیں دلاتے کہ اصل حکمران عوامی نمائندے ہیں اور ان کے ذریعے وہ پنجاب میں حکومت چلا رہے ہیں اس وقت تک انہیں ایک ایسا وزیراعلیٰ سمجھا جائے گا جو بیوروکریٹس کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنا ہوا ہے۔ خاص طور پر ملتان کے ساتھ ان کا اجنبیوں جیسا سلوک اب بہت بڑا سوالیہ نشان بن چکا ہے،پنجاب کے چار بڑے شہروں کو میٹروپولیٹن کا درجہ دیا گیا ہے لیکن اس میں ملتان شامل نہیں ایک طرف تو یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ملتان میں علیحدہ سیکرٹریٹ قائم کیا جائے گا ، دوسری طرف حالت یہ ہے کہ گوجرانوالہ اور فیصل آباد کو میٹرو پولیٹن شہر قرار دے کر ملتان جیسے بڑے شہر کو نظر انداز کیا گیا ، ایسی صورتحال میں یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار پنجاب خصوصاً جنوبی پنجاب کو ساتھ لے کر چل رہے ہیں، انہیں ایسی گورننس کے معاملات کو از سر نو ترتیب دینا پڑے گا ورنہ وقت کا ریلہ انہیں اپنے ساتھ بہا لے جائے۔