ڈاکٹر محمد علی صدیقی، اعجاز احمد اعجاز اور میاں عباس شریف کی یادمیں!

January 17, 2013

یہ معمہ آج تک کسی کی سمجھ میں نہیں آیا اور آئندہ بھی نہ آسکے گا کہ جو لوگ ہمارے ساتھ زندگی گزراتے ہیں، ہنستے ہیں، روتے ہیں، دو ستیاں کرتے ہیں، ناراض ہوتے ہیں، وہ ایک دن اچانک خاموش کیوں ہوجاتے ہیں۔ وہ ہماری کسی بات پر خوش ہوتے ہیں نہ ناراض ہوتے ہیں، نہ ہنستے ہیں نہ روتے ہیں، بس سفید کفن کا لباس اوڑھے گہری غار نما قبر میں اتر جاتے ہیں بلکہ اس غار میں ہم انہیں خود دھکیلتے ہیں اور غار کو بھاری پتھروں سے بند کر دیتے ہیں اس کے بعد قبر پر پھول بکھرا کر اور اگر بتیاں جلا کر ہم واپس اپنے گھروں میں چلے آتے ہیں۔ جہاں ہم نے ایک بار پھر اپنی روٹین کی زندگی کا آغاز کرنا ہوتا ہے ہم آئندہ ان کی آواز سن سکتے ہیں نہ انہیں دیکھ سکتے ہیں، نہ ان سے لڑ سکتے ہیں، نہ انہیں منا سکتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ جو کچھ بھی ہے ہماری سمجھ سے باہر ہے، گزشتہ چند ہفتوں کے دوران میرے تین پیارے مجھ سے ہمیشہ کے لئے بچھڑ گئے اور اسی راستے پر چل دیئے جس راستے پر ایک دن ہم سب نے بھی چلنا ہے۔ ان بچھڑنے والوں میں ڈاکٹر محمد علی صدیقی، اعجاز احمد اعجاز اور عباس شریف شامل ہیں، محمد علی صدیقی صف اول کے نقاد، اعجاز احمد اعجاز شاعر اور عباس شریف ایک درویش صفت انسان تھے!
محمد علی صدیقی سے میرے تعلق کی ابتداء 1972ء کے کسی مہینے میں ہوئی تھی میں امریکہ میں دو سال گزار کر واپس پاکستان آیا تو میں نے احمد ندیم قاسمی کے ”فنون“ میں سفرنامہ ”شوق آوارگی“ کے عنوان کے تحت قسط وار لکھنا شروع کیا، ان دنوں محمد علی صدیقی ”ڈان“ میں ”ایریل“ کے قلمی نام سے کالم لکھا کرتے تھے، میری حیرت اور خوشی کی انتہا نہ رہی جب دوسری یا تیسری قسط شائع ہونے پر محمد علی صدیقی نے اپنے ”ڈان“ کے کالم میں اسے ”جدید سفرنامے“ کا آغار قرار دیا، میری ان سے کوئی ذاتی شناسائی نہیں تھی، انہی دنوں سلیم الرحمن ”پاکستان ٹائمز“ میں ادبی کالم لکھا کرتے تھے، انہوں نے بھی فنون میں ”شوق آوارگی“ کی چند قسطیں پڑھنے کے بعد اس کی بھرپور تحسین کی، ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھاکہ کسی کتاب کی اشاعت سے پہلے ہی اس کے مصنف کو یہ ریسپانس ملا ہو،ان دو اہم اور بڑے نقادوں کی اس داد نے میرے قلم کی حوصلہ افزائی کی اور اپنی تمام ترسست روی کے باوجود یہ کتاب مکمل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ میں ان دونوں شخصیتوں کو اپنا محسن سمجھتا ہوں، اس کے بعد کراچی میں بھائی محمد علی سے ایک ملاقات ہوئی اور پھر یہ سلسلہ آخری سانس تک جاری رہا۔ محمد علی صدیقی ترقی پسند نقاد تھے تاہم ان میں ترقی پسند مصنفین کے ابتدائی دور والی جارحیت نہیں تھی، ان کے لئے متن یقینا اہم تھا لیکن وہ یہ بھی دیکھتے تھے کہ جو مضمون باندھا جا رہا ہے، وہ ادبی معیاروں پر کہاں تک پورا اترتا ہے، صدیقی بھائی سے میری کئی ملاقاتیں دوحہ قطر میں منعقد ہونے والی سالانہ ایوارڈز کی تقسیم اور عالمی مشاعرہ کے دوران بھی ہوئیں، پاکستان سے جس مصنف کو ایوارڈ کا مستحق قرار دیا جاتا تھا، محمد علی صدیقی اس کے فن پر ایک دقیع مقالہ پڑھتے تھے اور یہ سلسلہ سالہا سال سے جاری تھا تاہم اس سال جب مجھے ادب کا لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ ملا تو فنڈ کی کمی کی وجہ سے منتظمین نے یہ ذمہ داری ڈاکٹر خورشید رضوی کے سپرد کی، جنہوں نے مشاعرے میں شرکت کیلئے دوحہ آنا ہی تھا اور یوں جہاں مجھے ڈاکٹر خورشید رضوی ایسے اسکالر کے حرف ستائش کے پھول میرے دامن میں گرے، وہاں میں محمد علی صدیقی ایسے نقاد اور اپنے بہترین دوست کی دید سے محروم بھی رہا۔ محمد علی صدیقی بے پناہ صاحب مطالعہ ہونے کے علاوہ بہت میرے اور پاکستان کے بہترین دوست بھی تھے، وہ ان ترقی پسند نقادوں میں سے تھے جنہوں نے اقبال کی عظمت کو کھلے دل سے تسلیم کیا اور انہیں بھرپور خراج عقیدت پیش کیا، ان کی رحلت سے کراچی ہی نہیں پوری اردو دنیا ایک بڑے نقاد اور دانشور سے محروم ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو ہمیشہ روشن رکھے!
گزشتہ ماہ میں اپنے ایک اور عزیز دوست سے محروم ہوگیا، یہ اعجاز احمد اعجاز تھا جو لندن میں مقیم تھا، اس کے والدنے اسے ایم اے او کالج لاہور میں تعلیم کے حصول کے لئے بھیجا تھا اور یوں وہ فرسٹ ایئر اور سکینڈ ایئر میں میرا کلاس فیلو تھا، احسان شاہد ان دنوں لندن سے لاہور آیا ہوا تھا، منصور آفاق نے لندن سے اس کے انتقال کی خبر فون پر سنائی تو ہم دونوں سکتے میں آگئے، وہ ایک عجیب و غریب کردار تھا بلکہ سچ پوچھیں تو خاکہ لکھنے کے لئے اس سے بہتر اور کوئی شخصیت مجھے نظر نہیں آتی اور یہ کام میں آئندہ کسی کالم میں کروں گا۔ وہ لندن میں ٹیکسی چلاتا تھا اور فارغ وقت میں ادب کے علاوہ مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھتا رہتا تھا اور یوں سائنس سے لے کر تاریخ، جغرافیے اور تاریخ جغرافیے سے ادب تک اس کی معلومات بہت سے لوگوں سے بہت زیادہ تھیں، تاہم اسے وہ ادبی محفلیں میسر نہ آسکیں جو اس کے ذوق شعر کوپوری طرح نکھار پاتیں ۔ یہی وجہ ہے کہ فرفر شعر کہنے والا اعجاز احمد اعجاز اچھی خاصی غزل میں کوئی بے جوڑ شعر بھی ٹانک دیتا تھا، وہ بے انتہا معصوم اور سادہ لوح شخص تھا، اس کے کچھ شرارتی دوست اسے یقین دلانے میں لگے رہتے کہ وہ میر، غالب اور اقبال کے پائے کا شاعر ہے، میں اسے سمجھانے کی کوشش کرتا کہ ان کی باتوں پر یقین نہ کرو، یہ سب تم سے مذاق کرتے ہیں لیکن میری اس بات کو مذاق سمجھتا تھا چنانچہ اکثر اس ”مذاق“ پر جھنجھلا جاتا تھا۔ وہ لندن کے ایک ریڈیو کی صدا کار کی آواز پر عاشق ہوگیا اور اسے دیکھے یا ملے بغیر پورا دیوان اس پر لکھ ڈالا۔ وہ ایک پارسا شخص تھا مگر خواہ مخواہخود کو گنہگار ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہتا تھا، اسے اپنی اولاد میں سے اپنے بیٹے فراز سے بے پناہ محبت تھی۔ وہ اندرون ملک اور بیرون ملک کے شاعروں میں اسے اپنے ساتھ رکھتا اور مشاعروں کے اختتام پر وہ اپنا انگوٹھا فضا میں لہر اتے ہوئے اسے کہتا”ڈیڈ، یو ہیو سٹولن دی شو“ اعجاز بہت مہمان نواز بھی تھا اس کے گھر کے دروازے بیرون ملک سے آئے ہوئے ا س کے دوستوں کے لئے کھلے رہتے تھے اور امینہ بھابھی اپنی عمر بھر کی علالت کے باوجود اعجاز سے بھی زیادہ مہمانوں کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کرتیں۔ اعجاز کے والد قیام پاکستان سے پہلے ہی عدی امین کے ملک میں قیام پذیر تھے اور یوں وہ پیدائشی پاکستانی نہیں تھا لیکن ہم پیدائشی پاکستانیوں سے ز یادہ پاکستانی تھا۔ برادرم حیدر طبا طبائی فارسی ادب کے بڑے شناور ہیں، کا معاملہ بھی اعجاز سے ملتا جلتا ہے۔ وہ انڈین ہیں لیکن پاکستان سے ان کی محبت غیر مشروط ہے آخر میں اعجاز کے تین اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
کوئی چراغ تو آندھی سے بچ ہی نکلے گا
جلادئیے ہیں بہت سے دئیے ہوا کے لئے
ہم ہیں دریا محبتوں کے حضور
ہم تو خاموشیوں سے بہتے ہیں
میری زلفوں میں چاندی آگئی ہے
تیری زلفوں کا سونا کیا کروں میں؟
اعجاز کی ایک پنجابی نظم ”جہناں پیتیاں شراباں، او سُتے پئے نیں“(جنہوں نے شرابیں پی ہیں وہ پرے سوئے پڑے ہیں) اس کی سپر ہٹ نظم تھی جس کی فرمائش ہر مشاعرے میں ہوتی تھی۔ اللہ تعالیٰ میرے اس دوست، عمدہ شاعر اور خوبصورت انسان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔
اور اس ماہ ایک دکھ مجھے عباس شریف کے ا نتقال کی صورت میں ملا۔ عباس شریف، میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے چھوٹے بھائی تھے چنانچہ یہ دونوں بھائی ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ میاں برادران جب ابتلاکے دنوں میں جدہ میں جلا وطنی کے دن گزاررہے تھے میں ان سے ملنے ان کے گھر گیا تو وہاں سات دن قیام کے دوران عباس شریف صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، وہ درویشی کی مجسم تصویر تھے۔ چہرے پر گھنی داڑھی، سادہ لباس اور امارت سے بے نیازی، میاں نواز شریف ،میاں شہباز شریف اور ان کے تمام خاندان کے افراد اور میں ایک دائرے میں قالین پر بیٹھے کھانا کھارہے تھے جبکہ میاں محمد شریف وہیل چیئر پر تھے، ان کی اہلیہ ان کے برابر کرسی پر بیٹھی تھیں اور عباس شریف اپنے والدین کے پاس مودب کھڑے انہیں سرو کرنے میں مشغول تھے۔ ان کی ساری زندگی عبادت کرتے، والدین کی خدمت کرتے اور غریبوں میں دولت بانٹتے گزری۔ انہیں بلیوں اور کبوتروں سے بہت محبت تھی۔ جدہ میں میں میں نے ان کے اردگرد بلیاں ہی بلیاں دیکھیں تو پوچھا”آپ نے اتنی بلیاں کیوں پالی ہوئی ہیں؟“ ہنس کر بولے”بلیاں کیوں نہ پالوں، آخر بلینرہوں“ اس روز مجھے ان کی شخصیت میں موجود حس ظرافت کی خوشبو بہت بھلی لگی۔ ایک دفعہ عباس شریف کبوتروں کیلئے رہائشی پنجرہ بنوا رہے تھے جب انہوں نے گرمیوں کی دوپہر میں دھوپ کی شدت میں مزدوروں کو کام کرتے دیکھا تو انہیں روک دیا ان کیلئے ائیر کنڈیشنڈ کمرہ کھلوایا اور کہا ”تم لوگ ابھی آرام کرو، باقی کام شام کو مکمل کرلینا“ مگر دوسری طرف خود اڈیالہ جیل میں آگ برساتی گرمی میں ننگے فرش پر لیٹے رہتے تھے۔ میاں عباس شریف اللہ والے تھے، مجھے یقین ہے کہ اللہ نے ان کیلئے جنت کا سب سے خوبصورت گوشہ منتخب کیا ہوگا۔