اگر الیکشن…!

January 17, 2013

پاکستان میں بہت کچھ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے مثلاً اٹھارہ جنوری کو وزیراعظم ہاؤس میں راجہ پرویز اشرف کے بیٹے شاہ رخ کی دعوت ولیمہ ہو رہی ہے،اس پہلی مثال کے بعد وزیراعظم ہاؤس کو شادی گھر کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکے گا۔ اس سے شیخ رشید احمد اور عمران خان بھی مستفید ہوسکتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایوان صدر میں بھی ایک شادی کی تقریب ہوئی تھی یہ تقریب سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کی تھی، شادی کی ایک اور تقریب کو ایوان صدر سے روک دیا گیا تھا اسی طرح ایک اور شادی ہی کو ایوان صدر سے روک دیا گیا۔ پاکستان میں یہ سب کچھ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ اقتدار کے بڑے ایوانوں میں شادی کی تقریبات بھی ہورہی ہیں اور شادیوں کے لئے رشتوں کا تعین بھی ہورہا ہے یعنی ایک ہی وقت میں انہیں میرج سینٹر اور میرج ہال کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ خاتون اسپیکر اور خاتون وزیرخارجہ بنانے والی حکومت کو پہلی مرتبہ ایک بظاہر مخالف صوبائی حکومت الٹے سیدھے مشورے دے رہی ہے بلکہ حکمت عملیاں سمجھا رہی ہے کیونکہ پہلی مرتبہ باری ضائع ہونے کا خوف پیدا ہو گیا ہے۔ یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک وزیراعظم کو سپریم کورٹ سے نااہلی نصیب ہوئی۔ پہلی مرتبہ ایک اور وزیراعظم کی گرفتاری کا حکم نامہ ملا۔پہلی پہلی مرتبہ کی کئی ایک مثالیں ہیں مگر یہاں دوچار کے علاوہ زیادہ مثالیں نہیں دی جاسکتیں۔ پہلی مرتبہ پاکستان کے کسی صدر نے وطن عزیز میں ہوتے ہوئے ایوان صدر سے خود کو طویل عرصے سے دور رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے اسلام آباد کی بجائے کراچی کو مسکن بنارکھا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک لانگ مارچ اسلام آباد پہنچ کر دھرنے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ آج اس دھرنے کا تیسرا دن ہے۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ نے اپنی کابینہ کے اجلاس وفاقی دارالحکومت میں کئے۔ یہ بھی اسی وزیراعلیٰ کا کارنامہ ہے کہ وہ زیادہ وقت اپنے صوبے کے بجائے وفاقی دارالحکومت میں گزارتے رہے جہاں انہوں نے ایک شادی کر رکھی تھی۔ اسلام آباد کی سڑکوں نے یہ منظر پہلی مرتبہ دیکھا کہ ایک صوبے کا وزیراعلیٰ موٹر سائیکل پر ایک خاتون کے ہمراہ گھومتا رہا۔ یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا کہ سخت سردی میں لوگ اپنے پیاروں کی میتیں سامنے رکھ کر احتجاجاً بیٹھے رہے۔ اس احتجاج کے باعث حکومت کو مجبوراً موٹر سائیکل بردار کی وزارت اعلیٰ ختم کرنا پڑی۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ جنگ کے کالم نگار اور قومی اسمبلی کے رکن ایازامیر نے کسی وفاقی وزیر کو” وزیر امور کامیڈی“ قرار دیا ہے۔ میں بھی آج پہلی مرتبہ اس شعر کو اس وضاحت کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ یہ شعر سید صادق حسین کاظمی کا ہے، لوگ اسے اقبال کا شعر تصور کرتے ہیں کہ
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
تادم تحریر اسلام آباد کے پارلیمینٹ ہاؤس کے سامنے ڈی اسکوائر پر عام پاکستانی دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔ طاہر القادری کی قیادت میں دھرنا دینے والوں کا عزم ہے کہ وہ مطالبات کے تسلیم کئے جانے تک اسلام آباد سے کوچ نہیں کریں گے۔ سخت سردی کے باوجود ارادے پختہ ہیں ورنہ اس سے پہلے تو بقول ڈاکٹر خورشید رضوی یہی ہوتا تھا کہ
ہر جبر سے خاموش گزر آئے کہ افسوس
جاں بھی ہمیں درکار تھی عزت کے علاوہ
کھچڑی پک رہی ہے۔ پتہ نہیں گزشتہ رات بلاول ہاؤس کراچی میں کیا کیا مشاورت ہوئی، کونسی حکمت عملی ترتیب پائی۔ اگر دھرنے والوں کو تتربتر کرنے کا پروگرام بنا تو اس کیلئے فورس کم ہے، ہوسکتا ہے کہ حکمران فوج سے کہیں، ہوسکتا ہے کہ جواب آئے کہ سیاسی معاملہ ہے اور فوج سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی۔ آپ نے ڈاکٹر طاہر القادری کے پہلے خطاب کو سنا ہو تو آپ کو پتہ ہوگا کہ انہوں نے اپنے خطاب میں دو اداروں کی مدح سرائی کی ہے ایک سپریم کورٹ آف پاکستان اور دوسرے افواج پاکستان کی۔ قادری صاحب کا موقف اس حد تک درست ہے کہ جو لوگ رات کی سیاہی میں افواج کے سالاروں سے ملتے ہیں وہ دن کی روشنی میں مشاورت سے کیوں ہچکچاتے ہیں۔ دراصل طاہر القادری نے سیاست کے نام نہاد جمہوری چہروں کو بے نقاب کردیا ہے کہ یہ لوگ کس طرح اقتدار حاصل کرتے رہے اور حصول اقتدار کی آرزو میں راتوں کو ملاقاتوں میں ترکیبیں کرتے رہے۔الطاف حسین اور عمران خان کے علاوہ چوہدری شجاعت حسین نے ڈاکٹر قادری کے ایجنڈے کی اخلاقی حمایت کر رکھی ہے، ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کوئی دو عملی طور پر بھی شامل ہو جائے۔ عمران خان نے بھی سات نکاتی ایجنڈا پیش کیا ہے، بہت سے نکات طاہر القادری سے ملتے جلتے ہیں۔ عمران خان نے اپنے کارکنوں کو تیار رہنے کا حکم نامہ بھی جاری کیا ہے اگر وہ اپنے مطالبات کے حق میں سنجیدہ ہوئے تو کود جائیں گے۔
برادرم حفیظ اللہ نیازی نے درست لکھا ہے کہ مارچ کا وقت جلدی یا بدیر نہیں ہوتا۔ طاہر القادری نے پہلی تقریر میں آدھا کام ہونے کا اعلان کیا اور آدھے کام کا عندیہ دیا اگر عمران خان ان کے ساتھ شامل ہوجائیں تو یقینا یہ کام بہت جلد ہوجائے گا ویسے بھی تو عمران خان پچھلے پندرہ سال سے وہی ایجنڈا پیش کر رہے ہیں جو آج طاہر القادری نے پیش کیا ہے اور شاید نہیں یقینا پوری قوم کا بھی یہی ایجنڈا ہے کیونکہ پوری قوم سیاسی اجارہ داریوں سے تنگ آچکی ہے ۔ اب جب کرپشن، بدعنوانی اور بدعہدی میں لپٹا ہوا نظام ہچکولے کھانے لگا ہے تو اس کے ورثا پریشان ہوگئے ہیں ایک بلاول ہاؤس میں جمع ہیں تو دوسروں نے رائے ونڈ کے قریب جاتی عمرہ میں اجلاس بلا لیا ہے۔ جہاں مولانا فضل الرحمن سمیت دیگر خائفین اکٹھے ہوں گے۔سیاست کی بساط پر بکھری ہوئی ساری چالوں کو غور سے دیکھا جائے تو الیکشن نظر نہیں آتے اور اگر الیکشن نہ ہوئے تو کیا ہوگا یہ سوال بڑا اہم ہے۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوگا کہ صدر اور وزیراعظم تبدیل ہوں گے۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوگا کہ عدلیہ پوری طاقت ظاہر کردے گی۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوگا کہ مارشل لاء نہیں آئے گا مگر الیکشن بھی نہیں ہوں گے۔ پہلی مرتبہ لوٹ کھسوٹ کا حساب ہوگا، حساب ایسا کہ سب کو بے نقاب کر دے گا پاکستان کی معیشت درست ہوجائے گی کہ
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے