فوج اور پی ٹی ایم

May 01, 2019

افواجِ پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی طرف سے پی ٹی ایم کو غیر ملکی خفیہ ایجنسیوںکا آلہ کار قرار دینے اور اُن سے متعلق ریاست کے پیمانہ صبر کے لبریز ہونے کے اعلان کے بعد اِس موضوع پر بحث زور پکڑ گئی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ مجھ جیسے صحافیوںکے لئے ٹی ٹی پی سے زیادہ مشکل موضوع بن گیا ہے۔ بہت کچھجانتا ہوں، بہت کچھ سوچتا ہوں، بہت کچھ لکھ اور بول سکتا ہوںلیکن بوجوہ بول سکتا ہوں، نہ لکھ سکتا ہوں۔ اِس لئے کچھ نیا لکھنے کے بعد دوبارہ وہی کالم سپرد قلم کرتا ہوںجو 30 جنوری 2019کو اِسی صفحہ پر شائع ہوا تھا۔ ’’دروازے پر دستک دیتی نئی تباہی‘‘ کے زیرِ عنوان تمہیدی گزارشات کے بعد میںنے عرضکیا تھا کہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستانی سیکورٹی فورسز، قوم اور بالخصوص پختون تاریخ کی بدترین آزمائش سے گزرے۔ ہر فرد، ہر ادارے اور ہر طبقے کی آزمائش اتنی سنگین تھی کہ اُسے دوسرے کی آزمائش اور قربانی کا صحیح ادراک اور احساس ہی نہ ہو سکا۔ مثلاً سیکورٹی اداروںکے لئے یہ شاید تاریخ کی طویل اور مشکل ترین جنگ تھی۔ موجودہ فوجی قیادت میںسے شاید ہی کوئی بندہ ایسا ہو کہ جس نے اپنے ساتھیوں کی لاشیں نہ اٹھائی ہوں۔ وزیرستان اور بلوچستان کے بعض محاذوں پر ایک ہی افسر یا جوان کی دو دو، تین تین بار پوسٹنگز آئیں۔ یہ جنگ تاریخ کی مشکل ترین جنگ اِس لئے تھی کہ یہ اپنی سرزمین پر، اپنے ہم وطنوںسے لڑنا پڑی- کچھ کو دونوںسرحدوںپر پہرا دینا پڑ رہا ہے تو کچھ کو ملک کے اندر اِس طرف یا اِس طرف سے مدد لینے والے اپنے ہم وطن اور ہم کلمہ بھائیوںسے برسرِ پیکار رہنا پڑا۔ یہ جنگ اُن لوگوں کے خلاف لڑی گئی کہ جو اپنی جنگ کے لئے اِس مذہب کی آڑ لے رہے تھے جو خود اُن سیکورٹی فورسز کا بھی مذہب ہے اور اُس سے بھی بڑی مشکل یہ تھی کہ جس دشمن کے خلاف یہ جنگ لڑنا پڑی وہ ماضی میںاپنے اور اتحادی بھی رہ چکے تھے- اِسی طرح سیکورٹی فورسز کو ایک ایسی جنگ لڑنا پڑی جس پر ایک لمبے عرصہ تک پوری قوم تو کیا سیاسی جماعتیںبھی یکسو نہیںتھیں- اِسی طرح وہ ایک ایسے دشمن سے لڑرہی تھیںاور اب بھی لڑرہی ہیں کہ جس کے ہمدرد اور سہولت کار ہمارے ہر علاقے، ہر طبقے اور ہر ادارے میںموجود تھے اور ہیں۔ یوںیہ جنگ لڑنے والے جوان اور افسران جذباتی بھی ہیں اور بہت پرجوش بھی۔ وہ فتح کے جذبے سے سرشار ہیں۔ وہ بجا طور پر توقع کرتے ہیں کہ اِس قوم کا ہر فرد اُن کا اور اُن کی آئندہ نسلوں کا احسان مند رہے اور اگر اُس جنگ میں اُن سے کسی غلطی یا تجاوز کا صدور ہوا بھی ہے تو اُس سے درگزر کر کے اُسے ہیرو اور محسن مانا جائے۔

اِسی طرح عوام اور بالخصوص پختون بھی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزرے اور اب بھی گزر رہے ہیں۔ ابتدا میں اُنہیں ریاست کی طرف سے کہا گیا کہ وہ پاکستان کی خاطر اُن عسکریت پسندوں، جو پہلے مجاہدین اور پھر طالبان کہلائے، کو گلے سےلگا لیں۔ پھر ریاست کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے وہ طالبان اُن پختونوں کے گلے پڑ گئے- اُن کے زعما اور جوان اُن لوگوںکے ہاتھوںقتل ہوتے رہے۔ اُن کی معیشت تباہ ہوئی اور اُن کی ثقافتی اقدار تک کو تبدیل کیا گیا۔ لمبے عرصے تک ریاست تماشہ دیکھتی رہی اور یہ لوگ اُن سے لڑتے رہے، اُن کے ہاتھوںلٹتے رہے اور مرتے رہے۔ پھر یہاں بڑی تعداد میں سیکورٹی فورسز کو بھیجا گیا جنہیں اِن لوگوں نے پاکستان کی خاطر ہار پہنائے اور سر آنکھوںپر بٹھایا۔ ابتدا میں اُن کو اُن عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کی اجازت نہتھی یا پھر اُن میںاچھے برے کی تفریق کی جا رہی تھی، جس کی وجہ سے اُن لوگوں کا ڈپریشن یوںبڑھتا رہا کہ وہ دیکھتے کہ وہی عسکریت پسند یہاںحسبِ سابق سرگرم عمل ہے لیکن اُن کے خلاف کارروائی نہیںہو رہی جبکہ اُن کو مارنے کے لئے امریکی اُن کے علاقوں میں ڈرون حملے کررہے ہیں۔ پھر ایک وقت آیا کہ ریاست نے عسکریت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کا فیصلہ کیا اور بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کیا گیا- چنانچہ ایک دن اچانک اُن پختونوں کو گھروںسے نکلنے کا حکم ملا۔ لاکھوںکی تعداد میں یہ لوگ گھربار، کاروبار، فصلیں اور باغات چھوڑکر ہجرت پر مجبور ہوئے۔ وہ جب مہاجر بن گئے تو اُن کے لئے ریاست کی طرف سے کوئی مناسب اور متبادل بندوبست نہیں تھا۔ کراچی سے لے کر پشاور تک وہ ذلیل اور خوار ہوتے رہے کیونکہ یہاںبھی اُنہیں اِس شک کے ساتھ دیکھا جاتا رہا کہ وہ دہشت گرد یا دہشت گردوں کے معاون ہیں۔ کوئی سال مہاجر رہا، کوئی پانچ سال اور کوئی آج بھی مہاجر ہے۔ اُن لوگوں کے ساتھ پولیس اور ریاست کی طرف سے کیا سلوک ہوتا رہا، اُس کی ایک زندہ مثال نقیب اللہ محسود ہیں۔ اُن کی واپسی کے لئے یہ شرط رکھی گئی کہ وہ پاکستان کے ساتھ وفاداری کا دوبارہ حلف اٹھائیںگے اور جان لیوا اسکروٹنی سے گزرنے کے بعد وطن کارڈ کے ذریعے ہی کئی چیک پوسٹوں پر سے گزر کر اپنے علاقوںکو واپس جائیں گے۔ وہ اپنے علاقوں میںواپس پہنچے تو پتہ چلا کہ جنگ اور آپریشنوںکے نتیجے میںسب کچھ تباہ ہو گیا ہے۔ یہ لوگ مطالبے کرتے رہے لیکن حکومتیں دیگر دھندوں میںمصروف رہیں۔ اِس جنگ میں کئی لوگوں کے پیارے بھی لاپتہ ہوگئے۔ اُن لوگوںکے معیشت کے پہلے سے موجود ذرائع تباہ ہو گئے لیکن نئے فراہم نہ ہو سکے۔ بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں نے اُن لوگوں کی ترجمانی کی اور نہ میڈیا نے۔ چنانچہ خود اُن کے اندر سے نوجوانوں کی ایک تحریک اٹھی اور پلک جھپکتے سارے متاثرین اُس کے گرد جمع ہونے لگے- اُن لوگوںکا پورا کیس بحیثیت مجموعی بالکل درست نظر آتا ہے لیکن بدقسمتی سے اُن کے بیانیے میںغصہ بھی ہے اور بعضحوالوںسے تجاوز بھی- جس طرح ریاست کے پاس اُن لوگوںسے متعلق کوئی جامع پالیسی نظر نہیںآتی بلکہ فائر فائٹنگ کرتی نظر آتی ہے، اِس طرح اُن لوگوںکے پاس بھی کوئی جامع منصوبہ عمل نہیں اور وہ صرف واقعات یا حادثات کی بنیاد پر ردعمل کی نفسیات کے تحت جذبات کو مزید بھڑکا رہے ہیں- جس طرح ریاست کا ایک ادارہ اُن سے متعلق کچھ تو دوسرا کچھکررہا ہوتا ہے، اِسی طرح اُن لوگوںکی صفوں میںبھی بعضایسے لوگ گھس آئے ہیںجن کے نعرے تو یہی لیکن ایجنڈے کچھ اور نظر آتے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے یہ دونوں متاثرین اور ہیرو (سیکورٹی فورسز اور متاثرہ پختون) یک جان دو قالب ہوتے لیکن بدقسمتی سے اُن کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کرنے کی سازش ہورہی ہے- المیہ یہ ہے کہ دونوں متاثرہ فریق بہت جذباتی ہیں۔ ہر فریق کی قربانی اتنی زیادہ اور دکھ اتنا گہرا ہے کہ وہ دوسرے فریق کے دکھ اور مجبوریوںکا پوری طرح احساس نہیںکر سکتا، جس کی وجہ سے ایک دوسرے پر قربان ہونے کی بجائے وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہونے جارہے ہیں‘‘۔