خود فریبی سی خود فریبی ہے!

May 08, 2019

اب تو بہت سے معتبر ذرائع سے یہ بات ثابت ہوتی نظر آتی ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے تمام کلیدی رہنماؤں کو عقیدے کی حد تک یقین تھا اور عوام کو بھی یہی یقین دلایا گیا تھا کہ جب شریف خاندان اور دوسرے کچھ سیاسی رہنماؤں کی لوٹی ہوئی دولت واپس آجائے گی تو نہ صرف پاکستان کے قرضے ادا ہو جائیں گے بلکہ ملکی معیشت کے بھی وارے نیارے ہو جائیں گے۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ سب کچھ الیکشن جیتنے کے لئے پروپیگنڈہ کیا گیا اور درونِ خانہ یہ معلوم تھا کہ یہ محض نعرہ زنی ہے لیکن اب پتہ چل رہا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف اور اُن کے حامی طاقتور حلقے حقیقتاً یہ سمجھتے تھے کہ لوٹی ہوئی دولت کے واپس لانے سے پاکستان چین اور ہندوستان کی طرح تیز تر ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔ یہ خود فریبی کی انتہا ہے اور حقیقی دنیا سے دوری کی انتہائی منفی مثال۔ ایسی ہی خود فریبیاں ملکوں کے تنزل کا باعث بنتی ہیں۔ یہ تقریباً ویسی ہی خود فریبی تھی جیسے ایک دہائی پیشتر جہاد کے ذریعے وسط ایشیا تک کو فتح کرنا یا اپنا سیاسی اثر و رسوخ قائم کرنا تھا۔ اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ ہماری خود فریبی ہمیں اُس بد حالی تک لے آئی ہے جہاں ہم کھڑے ہیں۔

اب پہلے کچھ زمینی حقائق کا جائزہ لے لیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت اتنی بڑی ہے (زیادہ تر زیر زمین) کہ اِس میں دو تین بلین ڈالروں کا آجانا یا نکل جانا اونٹ کے مُنہ میں زیرے کے مترادف ہے اور اگر کچھ سیاستدان کئی دہائیوں میں دو چار ارب باہر لے بھی گئے ہوں تو اُس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوگا۔ ابھی تک جو کچھ سامنے آیا ہے وہ تو یہ ہے کہ چند سیاستدانوں کے پاس یورپ اور امریکہ میں چند مہنگے فلیٹ یا مکان ہیں اور شاید کچھ بینک بیلنس بھی ہوگا۔ اب اگر اُن چند مکانوں کو بیچ کر رقم پاکستان آ بھی جائے تو کیا اُس سے پاکستان کی بہت بڑی معیشت کو کوئی سہارا مل سکتا ہے؟ ایسا سمجھنا نادانی اور خود فریبی ہوگا۔

یہ بات اپنی جگہ درست کہ پچھلے تیس چالیس سالوں میں پاکستان میں کثیر مقدار میں دولت پیدا ہوئی ہے اور لاکھوں لوگ کروڑ پتی اور ارب پتی بن چکے۔ اِس دولت کی جھلک نیچے تک دیکھی جا سکتی ہے کہ جن گھروں میں سائیکل خریدنا بھی کار دارد تھا اب وہاں کاریں کھڑی نظر آتی ہیں۔ نئی دولت کی ریل پیل میں سیاستدانوں نے بھی ہاتھ رنگے ہیں لیکن لاکھوں کی تعداد میں ابھرنے والے نئے دولت مند طبقے میں سیاستدان بہت ہی معمولی حصہ ہیں۔ یہ بھی زیر نظر رہے کہ بہت سے سیاسی خاندانوں کے پاس تیس سال پہلے بھی کافی دولت موجود تھی۔ اُس کے باوجود اگر لاہور شہر کے ہی امیر طبقے کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ 99فیصد نئے امیر صنعتکار، تاجر، ریاستی مشینری کے کل پرزے، وکلاء، جج صاحبان جیسے لوگ ہیں: لاہور کے ممبرانِ قومی و صوبائی اسمبلی امیروں کے حاشیے پر کھڑے ہوں گے یا اُن کے حاشیہ بردار نظر آئیں گے۔ اِس لئے اگر پورے پاکستان کے تمام سیاسی خاندانوں کی تمام دولت بھی چھین لی جائے تو بھی ملکی معیشت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ ان سیاستدانوں کا بنیادی گناہ بری گورننس اور مستعد نظام قائم کرنے میں نا کامی ہے۔

شریف خاندان اور دوسرے سیاسی خانوادوں کا اصل قصور یہ نہیں کہ اُنہوں نے لندن میں چند فلیٹ خرید لئے بلکہ یہ ہے کہ اُنہوں نے غلط نظریات کی حمایت کی، انتہا پسندی کو روکنے کی بھرپور کوشش نہیں کی اور سب سے بڑی یہ غلطی کہ نئے امیر طبقات سے ٹیکس وصول نہیں کئے۔ اگر اِس بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ بوجہ انتہا پسندی کو روکنا اُن کے بس کی بات نہ تھی تو دولت اور آمدنیوں پر ٹیکس وصول نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ہر ملک کا نظام اسی طرح کے ٹیکسوں کی وصولی سے چلتا ہے لیکن ہمارے سیاستدان نئے امیر طبقے کی نمائندگی کرتے ہوئے، اُن سے ٹیکس وصولی سے اجتناب کرتے ہوئے، سارا بوجھ غریب عوام پر ڈالتے رہے لیکن غریب عوام سے بالواسطہ ٹیکسوں کی ایک حد ہوتی ہے، جس کو پہلے ہی پار کیا جا چکا ہے۔ سیاسی حکمرانوں کا اصلی اور ’وڈا‘ گناہ یہ ہے کہ بجائے امیروں سے ٹیکس لے کر غریبوں کو صحت اور تعلیم کی سہولتیں فراہم کرنے وہ اِس سے اُلٹ ایجنڈے پر کام کرتے رہے: غریبوں سے ٹیکس لے کر امیروں کو سبسڈیاں دیتے رہے۔ بلا تفریق اِس حمام میں تمام سیاستدان ننگے ہیں اور اُس میں پی ٹی آئی کا جھنڈا لے کر چلنے والے بھی۔

چونکہ غلط سمت میں چلنے والے نظام میں سب سیاستدان شامل تھے اِس لئے اُن حالات میں ملکی معیشت کے اصل روگ کا پتہ چلانے میں کسی کو کوئی دلچسپی نہ تھی اور جو بھی نظریہ بننا تھا، اُس کی بنیاد خود فریبی کا ہونا ناگزیر تھا۔ جب انسان حقیقت کا سامنا نہیں کرنا چاہتا (یا نہیں کر سکتا) تو وہ ماورائی خیالات میں پناہ ڈھونڈتا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی خود فریبی بھی ایسا ہی ماورائی نظریہ تھا، جس کی ناکامی نوشتہ دیوار تھی۔ اب اگر سیاستدانوں سے مفروضہ دولت واپس لانے کی ناگزیر ناکامی کے بعد انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سے چھ بلین ڈالر ادھار لے بھی لئے جائیں تو بھی مسئلہ وہیں کا وہیں رہے گا۔ المیہ یہ ہے کہ گزشتہ حکومتوں کے بر عکس موجودہ حکومت ہر پہلو سے خود فریبی کا شکار ہے اور چاہتی ہے کہ عوام بھی خوابوں میں رہنا شروع کردیں لیکن ایسا کیسے ہو جبکہ مہنگائی بچوں کے دودھ اور بوڑھوں کی دوائیوں کی فراہمی کو ناممکن بنا رہی ہے!