وزیراعظم پاکستان کا ٹور اور برطانوی کشمیری

May 17, 2019

فکر فردا … راجہ اکبردادخان
توقع کی جاتی ہے کہ وزیراعظم کے دورہ برطانیہ کے دوران جہاں تک ملاقاتوں کا معاملہ ہے۔ تین نسلوں سے آباد اس 10-15لاکھ کمیونٹی کو ایڈجسٹ کیا جائےگا۔ روایت تو یہی ہے کہ ہائی کمیشن یاترا کرنے والوں کو ہی بالعموم ایسی ملاقاتوں کیلئے چنا جاتا ہے۔ جبکہ زرمبادلہ بھیجنے والی کمیونٹی پی آئی اے سے سفر کرنے والی کمیونٹی ہر لمحہ پاکستان زندہ باد کہنے والے کمیونٹی کے افراد بہت کم ایسی حکومتی ایکٹیویٹیز میںمدعو کئے جاتے ہیں۔ یہ تاریخ ہے اس دفعہ اگر معاملات طے کرنیوالے اس حوالے سے عوام دوست رویے اختیار کرتے ہیں تو یہ مقامی سطح پر ایک اچھی ’’تبدیلی‘‘ ہوگی۔ کشمیری خاندان 1970ء کی دھائی کے مڈل سے عمران خان کیمپ میں موجود چلے آرہے ہیں اور جتنا عروج عمران خان کو بحیثیت کرکٹر ملا اسی تناسب سے انکی مقبولیت یہاں بھی اوپر اٹھی اور اونچی سطح کی وہ مقبولیت آج بھی بحیثیت وزیراعظم پاکستان لوگوں کے دلوں میں رچی بسی ہے۔ خان صاحب اس کمیونٹی کے درمیان اچھے برے تمام اوقات سے آگاہ رہے۔ وہ کمیونٹی کی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کردار سے بھی آگاہ ہیں اور یہ کوئی چند ہفتوں یا مہینوں پر پھیلی سفارتی کارکردگی کا نتیجہ نہیں کہ آج بین الاقوامی فورمز پر کشمیر کو حل طلب معاملہ مانا جارہا ہے۔ بلکہ ان صبرآزما برسوں پر محیط کوششوں نے برطانوی سیاستدانوں کو اس مسئلہ کی اہمیت اور حل کرنےکی ضرورت کیلئے قائل کیا ہے۔ اس کمیونٹی سے انٹرایکشن اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ لوگ زرمبادلہ کا ایک بڑا سورس ہیں۔ اور کوئی جائے نہ جائے میرپور والے پی آئی اے ہی سے سفر کرتے ہیں۔ اگر یہاںپاکستانی بنکوں کی زیادہ شاخیں ہوں یا چھوٹے بوتھ قائم ہوں تو یہ تمام سرمایہ سرکاری ذرائع سے پاکستانی معیشت کا حصہ بن جائے۔ مگر ایسا نہیںہے پی آئی اے کبھی یہ شکایت نہیںکرسکی کہ اسکے برطانوی جہاز خالی جاتے اور واپس آتے ہیں۔ پیسہ ہر کسی کو عزیز ہے مگر جب بات پاکستان کی بہتری کیلئے پراجیکٹس مثلاً پانی کے ڈیم، قدرتی آفات کی تباہ کاریوں میںمدد، آزاد کشمیر میںعزیز و اقارب کی دیکھ بھال کیلئے اس کمیونٹی کی کوششیں اور جب کبھی ملک کو کسی دوسرے حوالہ سے مدد کی ضرورت سامنے آئی ہے اس کمیونٹی کا بے مثال جذبۂ ایثار سامنے آتا رہا ہے۔ حالیہ ڈیم فنڈ حوالہ سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے بھی کشمیری کمیونٹی کی بھرپور مالی معاونت کا اعتراف کیا ہے۔ اس کمیونٹی کو سنٹر سٹیج رکھتے ہوئے ریاست کے اندر سیاحت کے حوالے سے پیش رفت کی جاسکتی ہے۔ ’’سیاحت سپاٹس‘‘ پرموٹ کرنے سے زیادہ سے زیادہ یورپین فیملیز بچوں کی چھٹیوں کے دوران وہان وقت گزار کر اپنوں سے مل بھی لیں گی اور سیاحت بھی ہوجائے گی۔ زرمبادلہ کی شکل میں رقوم پاکستان بھیجنے، کشمیر پر آواز بلند کئے رکھنے اور استحکام پاکستان کی ہر کوشش کے ساتھ کھڑے ہونے کے علاوہ علم نہیںبرطانوی کمیونٹیز ملک کیلئے مزید کیا کرسکتی ہیں؟ وہ ملک اس کمیونٹی کو ’’ون ونڈو‘‘ سلوشنز اگر فراہم کردے۔ بیرون ملک آباد لوگوں کو آگر متحرک سفارتخانے مل جائیں اور وطن واپسی پر ’’ون ونڈو‘‘ آپشن کے ذریعہ لوگوں کی باعزت واپسی اور روانگی وجود میںآجائے، ملک کے ساتھ اس طرح یہ قربتیں مزید مضبوط ہوکر ایک پراعتماد اور مستحکم پاکستان کی بنیادیں رکھ دیں گی۔ ان حقائق کو قدرے تفصیل سے بیان کرنا، پاکستان اور کمیونٹی کے مفاد میںہے۔ بدقسمتی سے یہ مطالبات دھرانے پڑ رہے ہیں، برطانیہ میںخان صاحب کے لاکھوں مداحوںکیلئے انکا بحیثیت وزیراعظم پاکستان یہاںآنا ایک نہایت خوشگوار موقع ہوگا۔ کائونٹی کرکٹ سے جڑے کئی کرکٹرز اور ایڈمنسٹریٹرز کی بھی ایک طویل لسٹ ان سے ملاقات کی متمنی ہوگی۔ کئی حریفوں اور کئی ساتھیوں کے ساتھ ملاقاتیں ماضی کے کئی اہم لمحات اپنے درمیان کھینچ لائیں گی۔ توقع ہے کرکٹ کے اعلیٰ ترین حکام بھی ان سے ملیں گے۔ شنید ہے کہ وہ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان میچ بھی دیکھیں گے۔ حالات نے جس طرح بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ میگا پرسنیلٹی عمران خان کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے چنا ہے یہ کسی سکرپٹ کا حصہ نہیں لگتا۔ پرانی پارٹیوں کی موجودوی میںجس طرح یہ انتخاب ہوا اسمیں سیاسی حکمت کم اور رضائے ایزدی زیادہ نظر آتی ہے کیونکہ اگر عمران خان لایا جاتا تو وہ کسی ایک فرنٹ پر بھی لانے والوں کو مطمئن نہ کرپاتا۔ یہ درست تھا کہ اسکے ساتھ ایک بھرپور انداز میںجڑا ہجوم تھا کیونکہ وہ حکومت میں کبھی نہیں۔ لہذا بیوروکریسی کے اندر اسکی کوئی حمایت نہ تھی اور نہ ہی اسے درمیانہ درجہ کی سیاسی جماعتوں کی حمایت تھی۔ دونوں بڑی جماعتیں اکٹھی ہوکر اسکے لئے مسائل پیدا کرسکتی تھیں۔ ایسا بھی نہ ہوسکا، کوئی ثبوت نہیں کہ کسی ہوائی مخلوق نے انہیں اتحاد کرنے سے روک دیا یا جیسا کہ اب ظاہر ہورہا ہے کہ ملک کو درپیش چیلنجز اتنے بڑے تھے کہ حالات نے یہ فیصلہ کرلیا کہ اسی دیانتدار مگر اناڑی لیڈر پر ہی بوجھ ڈال دیتے ہیں اور کشتی سمندر میں دھکیل دیتے ہیں۔ آج کا پاکستان اس کشتی کی طرح ہے صرف دو باتیں یقین سے کہی جاسکتی ہیں ایک یہ کہ ملاح باجرأت اور قسمت کا دھنی ہے اور دوسری یہ کہ پوری قوم اس سفر میں بخیریت منزل پر پہنچنے کی خواہشمند ہے۔ لہذا سفر کے دوران کسی بغاوت کے نہایت کم مواقع ہیں۔ اسے حالات کی سازش کہ کہیئے یا عمران خان کیلئے 92کا ورلڈ کپ جیتنے والے حالات۔ انگلینڈ آرام سے کامیابی کی طرف بڑھ رہا تھا اور اسی طرح دو دہائیاں قبل یہ ملک بھی ایک متوازن جمہوریت تھا کہ حالات نے طویل سوچ و بچار کے بعد ایک نئے کھلاڑی کو آزمانے کا سوچ لیا کیونکہ کرپشن، منی لانڈرنگ، بین الاقوامی قرضوں کے بوجھ اور معیشت کی خراب مجموعی صورتحال کی وکٹیں نہیں گر رہی تھیں اور ملک ہاتھ سے نکل رہا تھا۔ جس طرح ایک اہم موقع پر مشتاق احمد کو گیند دےکر اپنے لئے کامیابی کی راہیں نکال لیں، اسی طرح حالات عمران کو لاکر ملکی معاشی اور سیاسی استحکام کی راہیں بنا رہے ہیں۔ بحیثیت ملک عوام کیلئے حکومت سے تعاون کے بغیر کوئی آپشن نہیں۔ ملاح کے بقول دو سال بعد حالات میں بہتریاں ابھرنی شروع ہوجائیں گی جنکی بنیادیں مضبوط ہونگی اور یہاں سے بخیریت منزل پر پہنچنے کیلئے مزید کئی مددگار بھی آن ملیںگے۔ وزیراعظم کی ہمہ جہت شخصیت جسمیں ایک میگا پاپولر سیاستدان، تاریخ کرکٹ کا ایک چمکتا ستارہ مضبوط ارادوں کو مکمل کرنے والا انسان اور ایک مضبوط پاکستان میںیقین کرنے والا فرد سبھی ایک جگہ جمع ہیں۔ پاکستان کو اپنے اس اثاثہ کو پاکستان کی معاشی پروفائل اوپر اٹھانے کیلئے دنیا بھر میں ایکسپورٹ کرنا چاہئے۔ جس دن ہمارے یہ وزیراعظم پاکستان کی مالی امداد کے حوالہ سے یورپ، آسٹریلیا، امریکہ کے مالی اداروں اور افراد کے پاس پہنچ گئے تو چند سو بلین ڈالر اکٹھا کرنا ناممکن نہ ہوگا۔ اللہ پاکستان کو اچھے لوگوں کے درمیان محفوظ رکھے۔