قرآن کریم سمجھنے کے چند فوائد

May 17, 2019

تحریر:قاری عبدالرشید…اولڈہم
میرے اساتذہ کرام شیخ محمد صابر و شیخ عبدالسلام اور شیخ عبدالغنی جاجروی رحمہم اللہ جن سےمیں نے قرآن کا ترجمعہ و تفسیر پڑھی ہے۔ وہ اپنے استاد شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان سے وہ اپنے استاد شیخ حسین علی سے وہ شیخ مظہر نانوتوی و شیخ رشید احمد گنگوہی سے وہ شاہ اسحاق سے وہ شاہ عبد العزیز سےاور وہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہم اللہ سے علوم قرآن حاصل فرماتے ہیں۔ دورہ تفسیر قرآن مجید کے دوران اساتذہ نے جو نوٹ لکھوائے ہیں اس کالم میں وہ لکھے جائیں گے۔ اس سے پہلے قرآن کریم میں بیان چھ مضامین آپ پڑھ چکے ہیں۔ اب فوائد پڑھیں فائدہ نمبر1:مضامین قرآن کریم کی ترتیب۔قرآن مجید میں اکثر مضامین کا طریقہ یہ ذکر ہے کہ پہلے تمہید ہوتی ھے۔پھر اصل مضامین یا دعوے ذکر کئے جاتے ہیں۔ پھر لف و نشر مرتب یا غیر مرتب کے طور پر ان مضامین کا اعادہ کیا جاتا ہے۔ یا قصص و واقعات کو ان پر بطور مذکور متفرع کیا جاتا ہے۔ یا ثمرات و نتائج کو اسی طریقہ سے بیان کیا جاتا ہے۔ مضامین کا یہ طریق بیان سورہ مائدہ سے لیکر حوامیم سبعہ (سات سورتیں جو حم سے شروع ہوتی ہیں)کے آخر یعنی سورہ محمد ص تک برابر چلا جاتا ہے۔اس کے بعد بھی کہیں کہیں یہ طرز بیان پایا جاتا ہے۔ فائدہ نمبر 2:خطاب عام؛قرآن مجید میں بعض جگہ خطاب جنس مخلوق کو ہوا کرتا ہے اور انسان، جن اور ملائکہ سب کو (اس میں)شامل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اس کی چند مثالیں پڑھیں۔ ا:سورہ حجر پارہ 14 میں ہے۔ وماانتم لہ بخازنین ۔ انتم ای جنسکم یہاں انتم کا خطاب صرف انسانوں سے ہی مخصوص نہیں بلکہ جنوں اور فرشتوں کو بھی شامل ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں ان (انسانوں ۔جنوں اور فرشتوں )میں سے کسی کے قبضے میں نہیں ہیں ۔ 2:سورہ بنی اسرائیل پارہ 15:میں ہے قل لو انتم تملکون خزائن رحمت ربی۔(الخ) یہاں بھی(انتم ) سے جنس مخلوق مراد ہے۔3:سورہ نمل پارہ 20 میں ہے ماکان لکم ان تنبتوا شجرھا (الخ) یعنی کسی فرد بشر،پیر فقیر، کسی جن اور فرشتے کو قدرت نہیں کہ وہ یہ کھیت یہ باغات اور قسم قسم کے درخت اگا سکے۔ یہ کام کرنا تو قدرت خدا وندی کا ہی کرشمہ ہے۔4:سورہ نمل پارہ 20 میں ہے۔وربک یخلق ما یشآء و یختار ماکان لھم الخیرہ ۔(لھم )ای من جنسھم یعنی ہر چیز کو پیدا کرنے والا بھی اللہ تعالٰی ہے۔ اور پیدا کرنے کے بعد تمام تصرفات و اختیارات اس نے اپنے قبضے میں رکھے ہوئے ہیں ۔لھم کی ضمیر غائب عام ہے۔ یعنی کسی انسان (نبی ہو یا ولی) جن اور فرشتے کو اس نے مختار نہیں بنایا کہ وہ کسی کو نفع یا نقصان (اپنی مرضی سے )پہنچا سکے۔5:سورہ یاسین پارہ 23 میں ہے و ما عملتہ ایدیہم ۔یہاں بھی (ایدیہم ) سے جنس مخلوق مراد ہے۔یعنی مردہ زمین کو زندہ کرنا۔سر سبز و شاداب کھیتیاں پیدا کرنا اور باغات کو پھلدار کرنا یہ سب کچھ اللہ کے اختیار میں ہے۔ یہ کسی انسان۔ فرشتے یا جن کی (حقیقت میں) دستکاری نہیں۔فائدہ نمبر 3:شان نزول؛یہ اپنی جگہ درست ہے کہ نزول قرآن کے وقت کوئی واقعہ پیش آگیا۔ اس کا حکم معلوم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس بارے میں آیتیں نازل ہو گئیں ۔جن سے اس واقعہ کا حکم معلوم ہو گیا۔لیکن ایسی آیتوں کا حل اور ان کی تفسیر اس مخصوص واقعہ پر منحصر نہیں ہوگی۔کیونکہ مشہور قاعدہ ہے۔ العبرت لعموم اللفظ لا لخصوص المعنی۔ اعتبار لفظ کے عموم کا ہوتا ہے نہ کہ خاص معنی کا۔ اگر ایسی آیتوں کو ان واقعات سے مخصوص کر دیا جائے تو اس سے قرآن مجید کو سمجھنے میں کافی دقت پیش آئے گی۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ،اضر الاشیآء فی فہم القرآن شان النزول۔(اس عبارت کا ترجمعہ علماء سمجھ گئے ہوں گے۔ عوام کے لئے اس کا معنی کرنا ضروری نہیں ہے) علاوہ ازیں اکثر واقعات ظنی ہوتے ھیں ۔جو بنی اسرائیلی فطرت کے لوگوں کے مشہور کردہ ہوتے ہیں۔ تفسیر خازن وغیرہ میں ایسے واقعات بکثرت مذکور ہیں۔اس لئے آیات (قرآنی) کا حل شان نزول پر موقوف نہیں۔ بلکہ سیاق و سباق کے پیش نظر آیتوں(کے مشکل مقامات) کو حل کرنا چاہئے۔لیکن اس کا یہ مطلب بھی (ہرگز )نہیں کہ(آیت یا سورت کے)شان نزول کے تمام واقعات قابل رد اور جھوٹے ہیں۔ اور تفسیر میں ان کا ذکر کرنا جائز نہیں(ایسی بات بھی نہیں)فائدہ نمبر 4:دفع عذاب؛ قرآن مجید میں جہاں کہیں بھی عذاب کی دھمکی آئی ہے۔ وہاں اس عذاب سے بچنے کے لئے تین باتیں بیان کی گئی ہیں ۔1:شرک سے بچنا 2:شرک کے علاوہ بھی ظلم نہ کرنا۔3:احسان کرنا یہ تینوں امور یا تو ایک ہی جگہ بیان ہوں گے جیسے سورہ مومنوں ۔ابتداء سورہ نحل۔اور حم شوری کے آخر میں ۔یا متفرق طور پر بیان ہوں گے۔ جیسا کہ سورہ نسآء کی ابتداء سے پانچویں پارے کے پہلے ربع تک امر ثانی (ظلم نہ کرو )کا بیان ہے۔ پھر اعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئا وبالوالدین احسانا۔ سے امر اول (شرک سے بچو)اور امر ثالث (یعنی احسان کرو) بیان کئے گئے ہیں۔