علامہ سیاستدانوں کو امتحان میں ڈال گئے

January 21, 2013

متنازع علامہ طاہرالقادری لانگ مارچ لے کر اسلام آباد آئے اور مزید متنازع ہو کر واپس بھی چلے گئے مگر جاتے جاتے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ایک امتحان چھوڑ گئے۔ خود تو علامہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا نہیں اترتے مگر حکومت سے اپنے کئے گئے معاہدہ میں یہ شرط منوا گئے کہ آئندہ انتخابات سے پہلے الیکشن کمیشن اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر الیکشن لڑنے والا آئین میں درج کڑی شرائط پر پورا اترے جس کے لیے کمیشن کے پاس جانچ پرتال کے لیے 30 دن ہوں گے۔ اب عوام کی نظریں سیاسی جماعتوں اور الیکشن کمیشن پر ہیں کہ آیا وہ اِن آئینی شرائط جن کو ماضی میں یکسر نظر انداز کیا جاتا رہا ،کے مکمل نفاذ کے لیے کوشش کریں گے یا پہلے کی طرح چور اچکوں، لٹیروں، بنک سے قرضے لے کرمعاف کروانے والوں، جعلی ڈگری ہولڈرز، دہری شہریت رکھنے والوں، ٹیکس چوروں، ملک و قوم کی دولت لوٹنے والوں، شرابیوں، زانیوں وغیرہ کو اپنی سیاسی مصلحت کے لیے پھر اسمبلیوں میں لا بٹھائیں گے تا کہ ملک و قوم کو اُسی طرح لوٹا جاتا رہے جس طرح ماضی میں لوٹا جاتا رہا اور جس کا بدترین مظاہرہ ہم نے اس موجودہ فراڈ جمہوری دور میں دیکھا۔علامہ کی اصل سازش کا تو ابھی تک پتہ چل نہ سکا۔ ہو سکتا ہے اُن کا یہ شو امریکا و برطانیہ کی طرف سے ایک روشن خیال مُلا کو پاکستان پر مسلط کرنے کی پہلی قسط ہو۔ کچھ لوگ یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ علامہ صدر آصف علی زرداری کا کھیل کھیل رہے تھے ۔ کہا یہ بھی جا رہا تھا کہ علامہ اسٹیبلشمنٹ کے گھوڑے کے طور پر میدان میں اتارے گئے ۔ سو جتنے منہ اتنی باتیں۔ مگر جو علامہ حکومت سے منوا گئے اگر اُس پرخلوص نیت سے عمل کیا جائے تو پاکستان کی سیاست میں بہت بہتری آ سکتی ہے۔
مجھے ڈر ہے کہ مختلف حیلے بہانوں سے حکومت اور سیاسی جماعتیں اِن انتخابی اصلاحات کے راستے کی رکاوٹ بنیں گی کیوں کہ اس سے ان سیاسی جماعتوں میں موجود بدکردار اور کرپٹ مگر با اثر افراد کو انتخابی عمل سے باہر کیا جا سکتا ہے۔ فرض کریں اگر ٹیکس قوانین کے خلاف ورزی کرنے والے قانون شکنوں اور ٹیکس چوروں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکا جاتا ہے تو پھر موجودہ پارلیمنٹ میں تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کو کئی سو ممبران کی قربانی دینی ہو گی۔ کیا ایسا کیا جائے گا؟ مجھے کوئی زیادہ امید نہیں مگر اس نوعیت کی صفائی کیے بغیر اور سیاسی پارٹیوں کی اس سلسلے میں قربانی دیے بغیر پاکستان کی قسمت نہیں بدل سکتی۔ یہاں تو حال یہ ہے کہ جعلی ڈگری والوں کو دوبارہ ٹکٹ دے کر اسمبلیوں کے لیے منتخب کیا جاتا ہے ، دوہری شہریت والوں کوپارلیمنٹ سے نکلنے پر مشیر بنا دیا جاتا ہے، جس پر کرپشن کا جتنا بڑا الزام لگے اُس کو اتنا ہی بڑا حکومتی عہدہ دیا جاتا ہے۔ آئین کہتا ہے کہ کوئی ایسا شخص جس کی بیوی بچوں میں سے کسی نے بنک سے لیا گیا قرض واپس نہ کیا ہو تو وہ الیکشن نہیں لڑ سکتا مگر یوسف رضا گیلانی کی بیگم صاحبہ کے بنک ڈیفالٹر ہونے کے باوجود وہ نہ صرف الیکشن لڑے اور جیتے بلکہ اُن کو وزیر اعظم بھی بنا دیا گیا۔ گیلانی صاحب کا تو یہ بھی کمال تھا کہ کرپشن کی بنیاد انہوں نے جیل بھی کاٹی مگرکرپشن کے کیس میں اُن کی بریت نیب کے تعاون سے اُس وقت ہوئی جب وہ خود وزیراعظم تھے۔ اپنے اختیارات کے زور پر اپنے آپ کو بھی دھلوا دیا اور اپنی بیگم صاحبہ کو بھی بنک کیس میں کلین چٹ دلوائی مگر سب کچھ کرنے کے باوجود اپنے کیے پر پھر بھی بے آبرو ہی ہو کر وزیراعظم ہاؤس سے نکلنا پڑا۔جمشید دستی کو جعلی ڈگری کی وجہ سے اسمبلی رکنیت سے استعفٰی دینا پڑا مگرسب کچھ بھلا کر دستی کو دوبارہ پارٹی ٹکٹ دے دیا گیا اور وہ دوبارہ پہلے سے زیادہ ووٹ لے کر منتخب بھی ہو گئے۔ اس کے بعد تو کچھ اور جعلی ڈگری والوں کو بھی دوبارہ ٹکٹ دے کر منتخب کرایا گیا گویا کہ بڑے فخر کی بات ہو۔
اس سارے گندے کھیل میں اگر ایک طرف سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کا کردار رہا تودوسری طرف الیکشن کمیشن نے بھی اپنی ذمہ داری کو پورا نہیں کیا۔ آئین و قانون کے تحت الیکشن کمیشن کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کی وہ یقینی بنائے کہ آئینی شرائط کے مطابق کسی دس نمبریے اور نوسرباز کو پارلیمنٹ میں داخل نہ ہونے دیا جائے مگر اب تک تو ایسا نہ ہو سکا۔آج ہمارے پاس ایک با اختیار اور آزاد الیکشن کمیشن ہے جس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایک ایسی چھلنی کا کردار ادا کرے گا کہ گندے افراد کو انتخاب لڑنے سے روکا جا سکے۔ انتخابات کی شفافیت محض یہ نہیں کہ ووٹوں کے دوران دھاندلی کو روکا جائے بلکہ اصل امتحان یہ ہے کہ آئین کے مطابق صاف ستھرے لوگوں کو ہی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے۔ اگر ایسا ہوگا تو جو سیاسی جماعت چاہے مرضی الیکشن جیت کر حکومت بنائے کم از کم یہ اطمینان تو ہو گا کہ کوئی چور اچکا ہمارا حکمران نہیں۔ جو خود کرپٹ نہیں ہو گا وہ دوسروں کو بھی کرپشن نہیں کرنے دے گا۔ جو خود ٹیکس چوری نہیں کرے گا وہ دوسروں کو بھی ایسا نہیں کرنے دے گا۔ جو خود بنک ڈیفالٹر نہیں ہو گا وہ دوسروں کو عوام کا بنکوں میں رکھا گیا پیسہ لوٹنے کی اجازت نہیں دے گا۔معلوم نہیں علامہ لانگ مارچ سے اپنے اصل اہداف حاصل کر سکنے میں کامیاب ہوئے یاناکام مگر جو معاہدہ عوام کے سامنے آیا اُس پر اگر عمل کیا گیا تو ملک و قوم کے لیے خیر ہی خیر ہو گی۔