دینی سیاسی جماعتوں کا برسرِ اقتدار آنا مُحال ہے

May 26, 2019

عکّاسی :اسرائیل انصاری

حافظِ قرآن، عالمِ دین، معلّم، مبلّغ، محقّق، مصنّف، مقرّر، مترجّم، داعی اور رہنما،کسی ایک شخصیت کے اگر اتنے حوالے ہوں، تو وہ کوئی عام شخص نہیں ہو سکتا۔جی ہاں، وہ ہستی ایوانِ بالا کے رُکن اور مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کے امیر، علاّمہ پروفیسر ساجد میر ہیں۔ مصوّرِ پاکستان، علاّمہ محمد اقبال کی رحلت کے تقریباً 6ماہ بعد 2اکتوبر 1938ء کو اُن کی جائے پیدایش، سیال کوٹ کے ایک مذہبی، علمی اور متموّل گھرانے میں پیدا ہونے والے ساجد میر کا شمار سابق وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف کے دیرینہ اتحادیوں میں ہوتا ہے ۔یہاں تک کہ وہ پاکستان مسلم لیگ (نون) کے ٹکٹ پر 4مرتبہ سینیٹر بھی منتخب ہوچُکے ہیں۔ انہوں نے ایف اے کے بعد سیال کوٹ کے معروف مَرے کالج سے بی اے اور گورنمنٹ کالج، لاہور سے انگلش میں ماسٹرز کیا ۔ بعد ازاں دورانِ تدریس ایم اے، اسلامیات (پرائیویٹ) بھی کیا۔عملی زندگی کاآغاز 1960ء میںجناح اسلامیہ کالج، سیال کوٹ سے بہ طور لیکچرار ہوااور 1975ء سے 1984ء تک نائیجیریا کے ایک عیسائی اکثریتی علاقے میں معلّم کے طور پر بھی فرائض انجام دیے، جہاں ذریعۂ تعلیم بڑی حد تک انگریزی تھا۔ 1980ء کی دہائی کے وسط میں وطن واپسی پر تحقیق و تصنیف کا سلسلہ شروع کیا اور ’’عیسائیت‘‘ نامی کتاب لکھی، جس کا ترجمہ عربی زبان میں بھی ہوا۔ علاّمہ احسان الٰہی ظہیر کی شہادت کے بعد مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے سیکریٹری جنرل مقرّرہوئے، جب کہ 1992ء میں شوریٰ نے انہیں باقاعدہ جمعیت کا امیر منتخب کرلیا اور اب گزشتہ 27برس سے وہ اسی منصب پر فائز ہیں۔ علاّمہ ساجد میر کُہنہ سالی کے باوجود ایک متحرک اور بھرپور زندگی بسر کر رہے ہیں۔ تنظیمی ذمّے داریاں نبھانے کے علاوہ اپنی آبائی مسجد میں باقاعدگی سے نمازِ جمعہ اور ہر سال رمضان المبارک میںتراویح بھی پڑھاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں کراچی آمد کے موقعے پر ہماری ان سے ایک خصوصی نشست ہوئی، جس میں اُنہوں نے اپنے ابتدائی حالاتِ زندگی، اہلِ حدیث مکتبِ فکر ، مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کے اغراض و مقاصد اور موجودہ حالات و واقعات سمیت دیگر امور پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ قارئین کی دِل چسپی کے لیے علاّمہ ساجد میر کی مدبّرانہ گفتگو ذیل میں پیش کی جارہی ہے۔

س :اپنے خاندانی، تعلیمی، دعوتی اور سیاسی پس منظر کے بارے میں مختصراً بتائیں۔

ج: میرا تعلق سیال کوٹ سے ہے، جہاں ہمارا خاندان ایک طویل عرصے سے آباد ہے۔ میرے پَر دادا، حاجی قادر بخش ٹھیکے دار تھے اور اُن کا شمار شہر کی اہم شخصیات میں ہوتا تھا۔ میرے دادا، مولانا محمد ابراہیم میر اُمّتِ مسلمہ کے معروف عالمِ دین تھے ۔ انہوں نے تحریکِ پاکستان میں اہم کردار ادا کیا۔ قبل ازیں، وہ جمعیت علمائے ہند کے نائب صدر رہے۔ انہوں نے کلکتہ سے راس کماری تک (ہندوستان کے طول و عرض میں) قیامِ پاکستان کے حق میں جلسے منعقد کیے، کانفرنسز میں شرکت کی اور تقاریر کیں، جن کا بعد ازاں مجموعہ بھی شایع ہوا۔ علاوہ ازیں، اُس وقت کے ’’زمیندار‘‘ اور’’ کسان‘‘ جیسے ہندوستان کے مشہور اخبارات میں اُن کے پاکستان کے قیام کے حق میں مضامین بھی شایع ہوتے رہے۔ حکومتِ پاکستان نے مولانا محمد ابراہیم میر کی قیامِ پاکستان کے لیے خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں بعد از مرگ طلائی تمغہ دینے کا اعلان کیا، جسے مَیں نے اُس وقت کے وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف سے وصول کیا۔ جہاں تک میرے تعلیمی پس منظر کا تعلق ہے، تو اسکول کی تعلیم کے ساتھ مَیں نے حفظِ قرآن کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ میرا شمار ذہین اور محنتی طلبا میں ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مُجھے پرائمری، مڈل، میٹرک، ایف اے اور بی اے میں اسکالر شپس ملیں۔ چُوں کہ مَیں ابتدا ہی سے سی ایس ایس کرنے کا خواہش مند تھا، اس لیے میٹرک ہی میں مَیں نے مطلوبہ مضامین کا انتخاب کر لیا تھا، لیکن گریجویشن کے دوران میرے خیالات میں تبدیلی واقع ہوئی اور اپنے دادا کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے دینی تعلیم بھی حاصل کرنا شروع کر دی، جو لیکچرر شپ کے دوران بھی جاری رہی۔دینی تعلیم حاصل کرنے کے دوران میرے دل میں عربی میںایم اے کرنے کی خواہش پیدا ہوئی، لیکن انگریزی کی اہمیت اور مانگ کے سبب والد صاحب نے انگریزی میں ماسٹرز کا مشورہ دیا۔اس وقت تو مَیں نے بادلِ نخواستہ اس تجویز پر عمل کیا، لیکن اب جب مُجھے بیرونِ مُلک انگریزی میں اظہارِ خیال میں آسانی محسوس ہوتی ہے، تو والد کے مشورے کی قدر و اہمیت اور افادیت کا احساس ہوتا ہے۔ لیکچرر شپ کے دوران مُجھے نائیجیریا میں پڑھانے کا موقع ملا۔ مَیں جس علاقے میں تعیّنات تھا، وہ جنوب کا عیسائی اکثریتی علاقہ تھا۔ وہاں پادریوںاور دیگر عیسائیوں سے میرے مذاکرے ، مباحثے ہوتے تھے، جس کے نتیجے میں عیسائیت کے بارے میں علم حاصل ہوا اور مَیں نے اس موضوع پر لکھنے کا ارادہ کیا۔ نائیجیریا سے وطن واپسی سے قبل مَیں نے کم و بیش ڈیڑھ ماہ لندن میں قیام کیا اور اس دوران برٹش میوزیم کی مشہورِ زمانہ لائبریری اور چند گِرجا گھروں میں موجود کُتب سے استفادہ کیا۔1985ء میں جب پاکستان واپس آیا، تو معروف عالمِ دین، علاّمہ احسان الٰہی ظہیر نے، جن سے میرے بڑے اچّھے مراسم تھے، میری انگریزی میں مہارت دیکھتے ہوئے مُجھے اپنے ساتھ مل کر مختلف ادیان اور فرقوں پر تحقیقی کُتب تصنیف کرنے کا مشورہ دیا۔ مَیں نے انہیں بتایا کہ چُوں کہ عیسائیت پر میری اچّھی خاصی تیاری ہے، لہٰذا مَیں پہلے پراجیکٹ کے طور پر اسی موضوع پر کام کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے نہ صرف ہامی بھری، بلکہ مُجھے بعض رہنما اصول بھی بتائے۔ اُن کی زندگی ہی میں اس کتاب کا مسوّدہ تیار ہو گیا تھا اور انہوں نے اس کا جائزہ بھی لیا، لیکن کتاب کی طباعت اُن کی رحلت کے بعد ہوئی۔ مَیں نہایت انکسار کے ساتھ یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ اس تصنیف کا شمار عیسائیت کے موضوع پر لکھی گئی اچھی کُتب میں ہوتا ہے۔ اردو میں لکھی گئی اس کتاب کا نام بھی ’’عیسائیت‘‘ ہی ہے۔ علاوہ ازیں، یہ کتاب ’’النّصرانیہ‘‘ کے نام سے عربی زبان میں بھی شایع ہو چُکی ہے۔ مَیں خود اس کتاب کا انگریزی ترجمہ کرنا چاہتا تھا، لیکن مُجھے وقت نہیں ملا اور جو ترجمہ ہوا، وہ مُجھے پسند نہیں آیا۔ گرچہ اس کے علاوہ بھی مختلف دینی موضوعات پر مَیں نے کئی ایک مختصر کتابیں لکھی ہیں اور مختلف دینی پرچوں میں میرے مضامین بھی شایع ہوتے رہے ہیں، لیکن مَیں صرف اس کتاب ہی کو کارِ حیات سمجھتا ہوں۔ تاہم، اب گزشتہ کئی برسوں سے تنظیمی و تبلیغی مصروفیات کی وجہ سے تصنیف و تالیف کے لیے وقت نہیں مل پاتا۔ ہر چند کہ مَیں تصنیف و تالیف کا کام ہی جاری رکھنا چاہتا تھا، لیکن چُوں کہ نائیجیریا جانے سے قبل مَیں نے کچھ عرصہ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے سیکریٹری جنرل کے طور پر فرائض انجام دیے تھے، لہٰذا 1987ء میں علاّمہ احسان الٰہی ظہیر کی شہادت کے بعد جماعت کے ذمّے دار حلقوں نے اصرار کیا کہ مَیں اس کی باگ ڈور سنبھال لوں۔ ذمّے داران کی شدید خواہش پر مَیں نے تنظیمی ذمّے داریاں سنبھالنے کی ہامی بھر لی۔ ابتدا میں مُجھے سیکریٹری جنرل ہی بنایا گیا۔اس وقت جماعت کے دو بڑے دھڑے تھے۔ ایک دھڑا علاّمہ احسان الٰہی ظہیر شہید کے ساتھیوں کا تھا، جس میں زیادہ تر علماء اور نوجوان شامل تھے۔ یہ دھڑا جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کہلاتا تھا اور دوسرا پرانا دھڑا، جس کی قیادت معین الدّین لکھوی کے پاس تھی، مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کہلاتا تھا۔ بعد ازاں، 1991ء میں یہ دونوں دھڑے مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کے نام سے ایک ہو گئے۔ پھر 1992ء میں مُلک بَھر سے تعلق رکھنے والے علماء اور معززین پرمشتمل 500رُکنی شوریٰ نے مُجھے امیر منتخب کیا اور تب سے اب تک ہونے والے جماعت کے ہر الیکشن میں ارکان مجھ ہی پر اعتماد ظاہر کرتے ہیں، حالاں کہ اس عرصے میں مَیں نے دو مرتبہ یہ منصب سنبھالنے سے معذرت بھی کی۔البتہ امید ہے کہ جلد ہی مُجھے اس ذمّے داری سے خلاصی مل جائے گی (مسکراتے ہوئے)۔

س :اہلِ حدیث مکتبِ فکر کا بنیادی فلسفہ کیا ہے۔ نیز، مغرب میں ’’سلفیہ‘‘ کو ایک خاص نقطۂ نظر سے کیوں دیکھا جاتا ہے؟

ج :ہم نے کلمے کی صورت اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حضرت محمد ﷺ کی نبوّت کا اقرار اور ان کی اتّباع و اقتدا کا عہد کیا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسولِ کریم ﷺ کی سُنّت سے براہِ راست رہنمائی حاصل کرنی چاہیے اور اسلامی تعلیمات و احکامات کو کسی مخصوص امام کے زاویۂ نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ البتہ ہم اسلام کے لیے خدمات انجام دینے والے تمام ائمہ، فقہاء اور مجتہدین کی عزّت و تکریم کرتے ہیں۔ اس بات کو شعر ی زبان میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ؎ دُنیا میں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ…مَیں سب کو مانتا ہوں مگر مصطفیٰؐکے بعد۔ اللہ تعالیٰ نے صرف نبی آخر الزماں، حضرت محمد ﷺ کی ہر بات حق و سچ ہونے کی ضمانت دی ہے اور کسی کی نہیں۔ اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر فرد تو قرآن و سُنّت سے براہِ راست رہنمائی حاصل نہیں کر سکتا، لیکن ہم اُن معتبر علمائے کرام سے رجوع کرتے ہیں کہ جو براہِ راست قرآن و سُنّت سے استفادہ کرتے ہوئے رہنمائی کرتے ہیں۔ نظریاتی طور پر تمام مسلمان اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اسلامی احکامات کا اصل و بنیادی منبع کتاب اللہ اور سُنّتِ رسول ﷺہے۔ اسی طرح شاید اہلِ تشیّع کے علاوہ اہلِ سُنّت کے تمام مسالک احادیث کی 6کُتب، صحاحِ ستّہ پر متفق ہیں۔ نیز، تمام مسلمان ہی نظریاتی طور پر صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو احادیث کی معتبر ترین کتاب تسلیم کرتے ہیں، لیکن ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ اعزاز دیا ہے کہ ہم ان کُتب سے براہِ راست رہنمائی حاصل کرتے ہیں اور یہی اہلِ حدیث مکتبِ فکر کا بنیادی فلسفہ ہے۔ اب جہاں تک آپ کے دوسرے سوال کا تعلق ہے، تو اس کا جواب کچھ یوں ہے کہ گرچہ نائن الیون کی واقعیت پر شکوک و شُبہات پائے جاتے ہیں اور اس سلسلے میں بہت سے دلائل بھی موجود ہیں، نیز اس واقعے کے ذمّے داران کے حوالے سے بھی بحث موجود ہے، لیکن مغرب کے نقطۂ نظر سے اس واقعے میں عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کے باشندے ملوّث تھے۔ گرچہ بیش تر عرب باشندے امام احمد بن حنبلؒ کے پیروکار یا مقتدی کہلاتے ہیں، لیکن ان کے زیادہ تر علماء کی سوچ اہلِ حدیث مکتبِ فکر کے قریب ہے، جنہیں سلفی یا راسخ العقیدہ مسلمان یا محمد بن عبدالوہاب کی نسبت سے عُرفِ عام میں وہابی بھی کہا جاتا ہے۔ لہٰذا، نائن الیون کے بعد مغرب میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ چُوں کہ زیادہ تر حملہ آور سعودی عرب سے آئے تھے اور اُن کی فہم کے مطابق اہلِ سعودی عرب سلفی ہیں، تو انہوں نے اسلام کی طرح سلفیت کو بھی دہشت گردی سے جوڑ دیا۔

س :مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟

ج :ہمارا بنیادی مقصد دینِ اسلام کی اشاعت اور کتاب اللہ و سنّتِ نبویﷺ کی روشنی میں دین کی صحیح تعلیمات اُجاگر کرنا اور افراد کو ان کی جانب راغب کرنا ہے۔ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث بنیادی طور پر ایک دعوتی و تبلیغی جماعت ہے اور اس کی رفاہی و سیاسی سرگرمیوں کی حیثیت ثانوی ہے۔

مرکزی جمعیت اہلِ حدیث، سندھ کی قیادت کے ساتھ

س :آپ ایک طویل عرصے سے پاکستان مسلم لیگ (نون) کے اتحادی ہیں۔ آپ نے سابق وزیرِ اعظم، میاں نواز شریف کو بہ طور سیاست دان و حُکم راں کیسا پایا؟

ج :یہ بات دُرست ہے کہ ہمارا میاں نواز شریف سے دیرینہ تعلق ہے ۔ دراصل، ہماری جماعت کے تمام انتظامی و سیاسی فیصلے کوئی فردِ واحد نہیں، بلکہ مجلسِ شوریٰ اور مجلسِ عاملہ کرتی ہے اور میاں نواز شریف کا ساتھ دینے کا فیصلہ بھی مذکورہ مجاز مجالس ہی نے کیا تھا۔ ہماری سیاست کا محور اسلام اور پاکستان ہے۔ وہ پاکستان، جو کلمے کی بنیاد پر وجود میں آیا، تو ہماری مجالسِ شوریٰ و عاملہ نے محسوس کیا کہ مسلم لیگ (نون) ہی وہ جماعت ہے کہ جو ہمارے نظریات سے قریب تر ہے، لہٰذا ہم نے اتحادی کے طور پر اس کا انتخاب کیا۔ اس تعلق میں ایک مرتبہ خلل بھی آیا اور وہ واقعہ کچھ یوں ہے کہ میاں نواز شریف کے دَورِ وزارتِ عظمیٰ میں امامِ حرم شریف، عبداللہ بن سُمیّہ کی پاکستان آمد کے موقعے پر لاہور میں ہم نے ایک کانفرنس منعقد کی۔ اس کانفرنس میں مَیں نے اعلان کیا کہ سود سمیت دیگر اسلامی معاملات میں حکومت ہماری خواہشات کو نظر انداز کر رہی ہے اور اگر حکومتی رویّے میں آیندہ تین ماہ کے دوران تبدیلی نہ آئی، تو ہم اپنا راستہ بدلنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ اگلے روز گورنر ہائوس، لاہور میں امامِ حرم شریف کی دعوت رکھی گئی، جس میں ہمیں بھی مدعو کیا گیا۔ اس دعوت میں میاں صاحب نے کسی کے ذریعے مُجھ تک اپنا یہ پیغام بھجوایا کہ مَیں اپنے کل کے بیان کو ’’گول مول ‘‘ کر دوں، لیکن مَیں نے اُن کے سامنے ہی کہہ دیا کہ ’’مَیں ہر بات سوچ سمجھ ہی کر کرتا ہوں اور اگر کوئی بات کرتا ہوں، تو پھر اُسے واپس نہیں لیتا۔‘‘ میری یہ بات سُن کر میاں صاحب کا چہرہ مزید سُرخ ہو گیا اور وہ خاموش ہو گئے۔ پھر ہم نے بھی اپنے راستے الگ کر لیے۔ مگر جب اُس وقت کے صدر، اسحٰق خان نے فوج کی ایما پر میاں نواز شریف کو اقتدار سے علیحدہ کیا، تو ہم نے دعوت نامے کے بغیر ہی ایک وفد کی صورت اسلام آباد میں واقع چوہدری شجاعت کی رہایش گاہ میں اُن سے ملاقات کی۔ ہم نے میاں نواز شریف سے کہا کہ ’’جب آپ حکومت میں تھے، تو ہم نے آپ سے اتحاد ختم کر لیا تھا، لیکن چُوں کہ ہم سیاست میں فوج کی مداخلت کے خلاف ہیں اور اس وقت آپ اپوزیشن میں ہیں، تو ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ گرچہ ہم ایک چھوٹی جماعت ہیں، مگر ہر پلیٹ فارم پر آپ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہماری یہ بات انہیں پسند آئی اور وہ خوش ہوئے۔ کچھ عرصے بعد میاں نواز شریف نے اعلان کیا کہ وہ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث پاکستان کو سینیٹ میں ایک نشست دیں گے۔ تاہم، اس اعلان میں انہوں نے کسی فرد کا نام نہیں لیا تھا۔ پھر ہماری مجلسِ عاملہ کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں بالاتّفاق یہ طے پایا کہ اگر میاں صاحب اپنے اعلان پر قائم رہتے ہیں، تو جماعت کی طرف سے سینیٹر شپ کے لیے میرا نام تجویز کیا جائے گا۔ تب میاں نواز شریف سابق صدر، ضیاء الحق کی شوریٰ کے رُکن رہنے والے ہمارے ساتھی، میاں فضل حق سے مراسم رکھتے تھے۔ انہوں نے فضل حق صاحب کو اپنی رہایش گاہ پر طلب کر کے کہا کہ ’’سینیٹر شپ دینے کا اعلان مَیں نے آپ کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا تھا، آپ تیاری کریں۔‘‘ یہ سُن کر انہوں نے جواب دیا کہ ’’ہماری مجلسِ عاملہ تو علاّمہ ساجد میر کو نام زَد کر چُکی ہے۔‘‘ میرا نام سُنتے ہی میاں نواز شریف کو گورنر ہائوس، لاہور میں ہونے والی گفتگو یاد آ گئی اور انہوں نے فوراً کہا کہ ’’ساجد میر تو ٹھیک آدمی نہیں ہے۔ اُسے سینیٹر نہیں بننا چاہیے۔‘‘ فضل حق صاحب نے انہیں قائل کرنے کے لیے بتایا کہ ’’مجلسِ عاملہ ساجد میر کو نام زَد کر چُکی ہے اور مَیں اس کے فیصلے سے اختلاف نہیں کر سکتا۔نیز، پہلے ہی بڑی مشکل سے دھڑے بندی ختم ہوئی ہے۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، ذہین اور سمجھ دار آدمی ہے۔ کبھی کبھار معمولی سا اختلاف کرتا ہے، لیکن مجموعی طور پر ایک معقول آدمی ہے۔‘‘ یہ سُن کر انہوں نے بادلِ نخواستہ مُجھے سینیٹر بنانے پر اتفاق کر لیا اور 1994ء سے اب تک مَیں ہی مرکزی جمعیت اہلِ حدیث سے پاکستان مسلم لیگ (نون) کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوتا آ رہا ہوں۔ گرچہ اس وقت میری سینیٹر شپ کی چوتھی مدّت چل رہی ہے، لیکن مَیں نے کبھی بھی اس مقصد کے لیے درخواست نہیں دی۔ جب دوسری مرتبہ آرمی چیف، جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹایا، تو وہ سعودی عرب میں قیام پزیر ہو گئے۔مَیں عُمرے یا کسی اور غرض سے جب بھی سعودی عرب جاتا، تو جدّہ میں واقع سابق وزیرِ اعظم کی رہایش گاہ، سرور پیلس میں اُن سے ضرور ملاقات کرتا۔ اُس وقت سب لوگ یہی کہتے تھے کہ اب وہ پاکستان اور پاکستانی سیاست میں واپس نہیں آئیں گے، لیکن مَیں نے ماضی کے خوش گوار مراسم کی وجہ سے اُن سے ربط و ضبط برقرار رکھا۔اسی طرح بعض افراد سیکوریٹی اداروں کی نگرانی سے ڈرا کر بھی میاں نواز شریف سے ملاقات سے منع کرتے تھے، لیکن مَیں نے کبھی ان باتوں کی پروا نہیں کی۔ میرے مشاہدے کے مطابق میاں نواز شریف ایک بامروّت انسان ہیں اور اپنے ساتھ وفا کرنے والوں کو اس کا صلہ بھی دیتے ہیں۔ اسی طرح ایک حُکم راں کے طور پر اپنی وزارتِ عظمیٰ کے تینوں ادوار میں انہوں نے اپنے تئیں مُلک کی خدمت کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ انہوں نے نِت نئے منصوبوں کا آغاز کیا اور نیک نیّتی کے ساتھ معیشت کو سہارا دیا۔ موجودہ سیاست دانوں کی لاٹ میں میاں نواز شریف ہی وہ واحد سیاست دان ہیں کہ جو اپنے مُلک اور مذہب سے واقعی محبت کرتے ہیں۔ البتہ وزارتِ عظمیٰ کے آخری دَور میں مُجھے اُن سے یہ شکایت رہی ہے کہ دینی شعائر و اقدار کی طرف اُن کی توجّہ زیادہ نہیں رہی اور مَیں نے اُن سے اس بات کا گلہ بھی کیا۔

س :اگر مستقبل میں بھی میاں صاحب کی دینی شعائر سے عدم توجّہی کی روِش برقرار رہی، تو کیا آپ کا اتحاد برقرار رہے گا؟

ج :اتحاد برقرار رکھنے اور ختم کرنے کا فیصلہ مجلسِ شوریٰ کرتی ہے اور وہ جو بھی فیصلہ کرے گی، مُجھے قبول ہو گا۔

س :عمومی تاثر یہ ہے کہ اپنے تیسرے دَورِ وزارتِ عظمیٰ میں بھارت اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے میاں صاحب کا رویّہ لچک دار رہا، کیا ایسا ہی ہے؟

ج :میاں نواز شریف ہر فیصلہ مُلکی مفاد میں کیا کرتے تھے۔ اگر بھارت سے پینگیں بڑھانے کی بات ہے، تو موجودہ حکومت تو اُن سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ موجودہ حکومت نے جس انداز سے گرفتار بھارتی پائلٹ، ابھے نندن کو مطالبے کے بغیر اور غیر مشروط طور پر بھارت کے حوالے کیا، جس پر بھارتی حکومت نے پاکستان کا شکریہ تک ادا کرنا گوارا نہیں کیا، اگر میاں نواز شریف یہ قدم اُٹھاتے، تو اُن پر نہ جانے کیا کیا الزامات عاید کیے جاتے۔ میاں صاحب کشمیر کاز کو قربان کیے بغیر ہی بھارت سے بہتر تعلقات قائم کرنا چاہتے تھے اور بھارت سے تعلقات بہتر کیے بغیر ہماری معیشت دُرست ہو سکتی ہے اور نہ مُلک میں مکمل طور پر امن قائم ہو سکتا ہے۔بنیادی طور پر اس سوچ میں کوئی خامی نہیں اور پھر اسٹیبلشمنٹ سمیت تقریباً ہر سیاسی جماعت یہی سوچ رکھتی ہے اور اس سوچ پر عمل کرتے ہوئے میاں صاحب نے مُلکی مفادات کو پسِ پُشت نہیں ڈالا۔ بد قسمتی سے ہمارے مُلک میں مخالف سیاست دانوں کو بدنام کرنے کے لیے کہانیاں اور افسانے گھڑے جاتے ہیں اور میاں صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہوا۔

س :ماضی میں متعدد مواقع پر مذہبی جماعتوں کے اتحاد یا محاذ بنے، مگر وہ مُلکی سیاست میں کوئی مؤثر کردار ادا نہ کر سکے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ نیز، کیا مستقبل میں اس قسم کا کوئی نیا اتحاد سامنے آ سکتا ہے اور اس کی کام یابی کے کتنے امکانات ہوں گے؟

ج :دراصل، برِصغیر کے مسلمان اسلام سے زبانی یا جذباتی لگائو تو بہت زیادہ رکھتے ہیں، لیکن عملاً ان کا ربط و وابستگی بہت کم ہے اور یہ رجحان نیا نہیں۔ مثال کے طور پر تحریکِ پاکستان کے مخالفین میں بڑے بڑے علماء، مذہبی اور دین دار افراد شامل تھے اور ہندوستان کے مسلمان عطاء اللہ شاہ بخاری جیسے مقرّرین کی تقریریں شوق سے سُنتے تھے، لیکن ووٹ قائد اعظم کو دیتے تھے۔ ابتدا ہی سے اس خطّے کے باشندوں کی یہ سوچ رہی ہے کہ سیاست اور امورِ جہاں بانی کے لیے علماء اور مذہبی جماعتیں اہل نہیں۔ اگر ہم دینی جماعتوں کے اتحاد، متّحدہ مجلسِ عمل کی بات کریں، تو اس نے سابق صدر، پرویز مشرف کے دَور میں صرف خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں کام یابی حاصل کی تھی، کیوں کہ ان صوبوں کے شہری دین پر عمل میں باقی صوبوں کے عوام سے نسبتاً آگے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس مُلک میں دینی مذہبی جماعتوں کا برسرِ اقتدار آنا مشکل ہی نہیں، بلکہ مُحال ہے۔ اس وقت متّحدہ مجلسِ عمل کی شکل میں دینی سیاسی جماعتوں کا ایک محاذ موجود ہے۔ مانا کہ یہ ماضی کی طرح فعال نہیں ہو سکا اور نہ ہی متّحد ہے، لیکن مستقبل میں اس کی بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔

س :سعودی عرب میں ولی عہد، محمد بن سلمان کی حکمتِ عملی اور پالیسیز کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

ج: یہ سعودی عرب کا اندرونی معاملہ ہے اور چُوں کہ وہ ہمارے داخلی معاملات میں دخل نہیں دیتے، تو ہمیں بھی ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

س :مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریکِ آزادی اور جہاد کے بارے میں آپ کا کیا نقطۂ نظر ہے؟

ج: اس وقت کشمیریوں کی چوتھی نسل اپنی آزادی کے لیے قربانیاں دے رہی ہے اور ان کی قربانیاں بے مثال اور قابلِ قدر ہیں۔ کشمیریوں نے معاشی سختیاں اور قید و بند کی صعوبتیں جَھیلیں اور شہادتیں پیش کیں۔ تاہم، مختلف ادوار میں قائم ہونے والی پاکستانی حکومتیں کشمیریوں کے حق میں وہ کردار ادا نہیں کر سکیں، جو انہیں کرنا چاہیے تھا، مگر اس کے باوجود کشمیری باشندے پاکستان سے حیران کُن حد تک محبّت کرتے ہیں اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُن کے جسدِ خاکی پاکستانی پرچم میں لپٹے ہوتے ہیں اور کھیل کے میدانوں میں پاکستان کی فتح پر وہ جَشن مناتے ہیں۔ یعنی پاکستان کی خوشی میں اُن کی خوشی پنہاں ہے۔ تاہم، زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ عالمی سطح پر کشمیریوں کی قربانیوں کو تسلیم نہیں کیا گیا اور اگر وہ مسلمان نہ ہوتے، تو شاید ان کی جدوجہد کا نتیجہ مختلف ہوتا اور وہ آزادی کی منزل پا لیتے۔ یاد رہے کہ جو مشرقی تیمور اور سوڈان میں ہوا، وہ مقبوضہ کشمیر میں بھی ہو سکتا ہے، لیکن شاید کشمیریوں کو اُن کے مسلمان ہونے کی سزا مل رہی ہے۔

س :گزشتہ دنوں سعودی ولی عہد، محمد بن سلمان دورۂ پاکستان پر آئے، تو کہا گیا کہ پاک، سعودی تعلقات کی نئی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

ج :پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ہمیشہ ہی اچّھے رہے ہیں۔ سعودی عرب نے اپنے رویّے اور عمل سے ثابت کیا کہ اس کا تعلق پاکستان کی کسی خاص حکومت یا فرد سے نہیں، بلکہ پاکستان اور پاکستانی عوام سے ہے۔ اس سے قبل بھی سعودی حُکّام پاکستان کا دورہ کرتے رہے ہیں اور مَیں نہیں سمجھتا کہ اس دورے سے پاک، سعودی تعلقات کو کوئی نئی جہت ملی ہے۔

س :مُلک میں مختلف مسالک اور مسلم اُمّہ میں اتحاد کے حوالے سے کیا تجاویز دیں گے؟

ج :جہاں تک علماء اور دینی جماعتوں کا تعلق ہے، تو یہ آپس میں اتحاد کے متمنّی ہیں اور ان کے درمیان ایسا کوئی اختلاف بھی نہیں کہ یہ متّحد نہ ہو سکیں۔ درحقیقت، اسلامی ممالک کے حُکم رانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق کی ضرورت ہے۔ اسلامی ممالک کے حُکم رانوں کو اسلام دشمنوں کے خلاف اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ڈٹ کر ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ دَورِ حاضر میں اُمّتِ مسلمہ کو درپیش سنگین چیلنجز کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔

س :معاشرے سے انتہا پسندی اور عدم برداشت کے خاتمے کے لیے علماء کے کردار کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

ج :علمائے کرام وعظ و تلقین کی حد تک اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور انہیں یہ کردار ادا کرتے رہنا چاہیے۔ ہمارے متفقہ و فروعی مسائل، اختلافی مسائل سے بہت زیادہ ہیں، لیکن بد قسمتی سے ان کا پرچار بہت کم کیا جاتا ہے۔ علمائے کرام کو اپنے منبر سے یا اپنی تقاریر کے ذریعے توحید، سُنّت کی پیروی، قرآن کی عظمت، نماز، روزہ اور حقوق العباد سمیت دیگر متفقہ مسائل کا پرچارکرنا چاہیے۔ نیز، اختلافات کو علمی حد تک اور عوام سے دُور رکھنا چاہیے۔

س :پاک، بھارت تنائو کے خاتمے میں علماء کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟

ج : اس ضمن میں دونوں ممالک کی حکومتیں ہی فیصلہ کُن کردار ادا کر سکتی ہیں۔

س :اُمّتِ مسلمہ اور مغرب میں پُر امن بقائے باہمی پر مبنی تعلقات کے قیام میں کون سے عناصر رُکاوٹ ہیں؟

ج :دُنیا بَھر میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہونے کے بعد اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے پھیلنے والی غلط فہمیاں ہی عالمِ اسلام اور مغرب کے درمیان تعلقات کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ان غلط فہمیوں کو دُور کرنے کے لیے اوّل تو مسلسل مذاکرے اور مکالمے کی ضرورت ہے اور دوم ہمیں سیرتِ نبوی ﷺ کے صلح جوئی، امن، برداشت، حلم اور تحمل جیسے پہلوئوں کو مغرب کے سامنے اُجاگر کرنا چاہیے۔

س :اہلِ حدیث مکتبِ فکر بین المسالک ہم آہنگی کے لیے کیا کردار ادا کر رہا ہے؟

ج: جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایا کہ نظریاتی طور پر تمام مسلمان ہی کتاب و سُنّت پر اتفاق کرتے ہیں، جو دین کا اصل منبع ہیں۔ اگر تمام مسالک اس پر عملاً بھی ایک ہو جائیں، تو کوئی تفرقہ باقی نہیں رہے گا۔

س :پچھلے دنوں اہلِ حدیث مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے درمیان اتحاد کی خبریں گردش کر رہی تھیں۔ اس معاملے میں کتنی پیش رفت ہوئی اور اس سلسلے میں آپ کا کیا کردار ہے؟

ج :جمعیت اہلِ حدیث کے دو بڑے دھڑے تھے، جو 1991ء سے ایک ہو گئے ہیں۔ البتہ چند افراد پر مشتمل بعض ’’اسپلنٹر گروپس‘‘ ہیں، جن کے اپنے اغراض و مقاصد ہیں۔ ان میں بعض تنظیمیں بھی شامل ہیں، جن میں کراچی کی غرباء اہلِ حدیث قابلِ ذکر ہے۔یہ تنظیم قیامِ پاکستان سے پہلے سے قائم ہے۔ ہمارے ان کے ساتھ روابط ہیں اور تعاون کا سلسلہ بھی جاری ہے، لیکن یہ تنظیم مرکزی جمعیت اہلِ حدیث میں ضم ہونے پر آمادہ نہیں اور اپنا علیحدہ تشخّص برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ اسی طرح جماعت الدّعوۃ کی قیادت بھی اہلِ حدیث ہے، لیکن ان کی سوچ بھی ہم سے قدرے مختلف ہے۔ پہلے یہ سیاست کو کُفر قرار دیتی رہی، لیکن بعد میں خود ہی سیاست میں آ گئی یا لائی گئی۔ اس کے علاوہ جمعیت میں کوئی گروہ بندی نہیں۔

س :کیا جماعت الدّعوہ سیاسی میدان میں کام یاب ہو جائے گی؟

ج :اس وقت تو یہ پابندیوں کی زد میں ہے، لہٰذا اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

س :عموماً عربی اور انگریزی میں تعلیم حاصل کرنے والے طبقات میں خاصی دُوری پائی جاتی ہے، لیکن آپ نے ان دونوں ذرایع تعلیم و اظہار میں ایک توازن پیدا کیا۔ اگر یہی توازن مدارس میں بھی پیدا کیا جائے، تو کیا ہم ایسے علماء پیدا نہیں کر سکتے کہ جو دینی و دنیوی علوم ساتھ لے کر چلیں؟

ج :درحقیقت، دینی مدراس تخصّص کے ادارے ہیں اور ان میں دینی تعلیم ہی پر زور دیا جاتا ہے۔ کافی عرصے سے تمام مسالک کے بڑے مدارس کے نصاب میں انگریزی، کمپیوٹر سائنس یا کمپیوٹر نالج اور مطالعۂ پاکستان جیسے مضامین شامل ہیں۔ اب جہاں تک یکساں نظامِ تعلیم کی بات ہے، تو یہ صرف ایک نعرہ ہی ہے۔ اس ضمن میں طویل عرصے سے میٹنگز جاری ہیں اور گزشتہ دِنوں بھی اعلیٰ سطح کی ایک میٹنگ ہوئی تھی۔اس دوران جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے نصاب میں کون سی کمی ہے، جو آپ پوری کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ سیکولر یا دیگر تعلیمی اداروں میں بھی دینی تعلیم رائج کی جائے گی۔ یہ تو آدھا تیتر، آدھا بٹیر والی بات ہوئی۔ یکساں نظامِ تعلیم ایک خوش کُن نعرہ تو ہوسکتا ہے ، لیکن عملاً یہ نقصان دہ ہے۔

س :موجودہ حکومت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

ج :موجودہ حکومت کے بارے میں رائے اُن افراد سے پوچھنی چاہیے، جو کچھ عرصہ قبل تک اس کے شدید حمایتی تھے۔ اب اُن کی رائے بھی بدل چُکی ہے۔ آج سب کا یہی کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت مُلک نہیں چلا پارہی اور وفاقی کابینہ کی تنظیمِ نو تو حکومت کی جانب سے اپنی ناکامی کا کُھلا اعتراف ہے۔

’’اللہ نے بیش بہا نعمتوں سے نوازا، ممتا کی نعمت سے محروم رہا‘‘

ایک سوال کے جواب میں سینیٹر پروفیسر ساجد میرنے بتایا کہ’’ اللہ تعالیٰ نے مُجھے بیش بہا نعمتوں سے نوازا ہے، جس پر مَیں اُس کا شُکر گزار ہوں، لیکن مَیں ممتا جیسی نعمت سے محروم رہا، کیوں کہ میرے ہوش سنبھالنے سے قبل ہی میری والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ جب مَیں سنِ شعور کو پہنچا، تو بڑی بہنوں کی زبانی پتا چلا کہ امّاں مُجھے حافظِ قرآن بنانا چاہتی تھیں۔ سو، مَیں نے والدہ مرحومہ کی دیرینہ خواہش پوری کرنے کے لیے اپنے طور پر قرآن حفظ کرنا شروع کر دیا۔ پھر مُجھے ایک اتالیق کی ضرورت محسوس ہوئی، تو مَیں نے اپنے ماموں، حکیم حافظ عبدالحمید کے سامنے، جو جیّد حافظِ قرآن ہونے کے ساتھ حکمت بھی کیا کرتے تھے، قرآن دُہرانا شروع کیا اور حفظِ قرآن مکمل کیا۔‘‘

’’شہباز! ساری دُنیا بدل گئی، پروفیسر صاحب نہیں بدلے‘‘

سابق وزیرِ اعظم ، میاں نوا ز شریف سے اپنے دیرینہ مراسم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک موقعے پر علا ّمہ ساجد میر کا کہنا تھا کہ’’ 2002ء کے عام انتخابات سے قبل جب مَیں سرور پیلس گیا، تو ملاقات میں میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور میرے علاوہ کوئی چوتھا فرد موجود نہیں تھا۔ تب سابق وزیرِ اعظم کی مجھ سے متعلق غلط فہمی دُور ہو چُکی تھی۔ انہوں نے شہباز شریف سے مخاطب ہوکر کہا کہ ’’شہباز! ساری دُنیا بدل گئی ہے، لیکن یہ پروفیسر صاحب نہیں بدلے۔ یہ اب بھی ہمارے حق میں بیانات دیتے اور مضامین لکھتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ نئی سینیٹ میں بھی یہ موجود ہوں۔‘‘ مَیں نے خاموشی سے ساری باتیں سُنیں اور واپس چلا آیا۔ پاکستان آنے کے بعد مَیں نے میاں صاحب کی یہ خواہش اپنی اہلیہ کے علاوہ کسی کو نہیں بتائی۔ عام انتخابات میں مسلم لیگ (نون) نے پنجاب میں 40سے کچھ زاید نشستیں حاصل کیں ،تو اس کے نام زد کردہ صرف 2افراد ہی سینیٹر بن سکتے تھے۔ جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد نے مُجھے میاں نواز شریف سے رابطہ کرنے کے لیے کہا، تو مَیں نے جواب دیا کہ اُن کی نشستیں ہی اتنی کم ہیں،تو مَیں کس منہ سے بات کروں۔ پھر ایک روز جماعت کے ارکان سے بات چیت کے دوران مُجھ سے اچانک یہ راز فاش ہو گیا کہ جدّہ میں میاں صاحب نے مُجھے سینیٹر بنانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ یہ سُن کر انہوں نے مجھ سے کہا کہ ’’آپ فوراً میاں صاحب سے فون پر رابطہ کریں۔‘‘ اس صُورتِ حال پر مَیں شش و پنج میں پڑ گیا۔ تاہم، چند روز بعد میاں صاحب کو فون پر یاد دہانی کروائی، تو انہوں جَھٹ کہا کہ ’’ مُجھے یاد ہے، سینیٹ میں ہمارے دو بندے ہی ہوں گے۔ ایک آپ اور دوسرے اسحٰق ڈار۔‘‘ اگلی مرتبہ سینیٹ کے انتخابات کے موقعے پر میاں صاحب نے خود فون کر کے مطلع کیا کہ ’’اس مرتبہ ہم نے آپ کے لیے جنرل سیٹ کی بہ جائے علماء/ ٹیکنو کریٹ کی نشست رکھی ہے، آپ تیاری کریں۔‘‘ گرچہ چوتھی مرتبہ سینیٹر بننے سے قبل ہی مَیں میاں صاحب سے یہ کہہ کر سینیٹر شپ سے معذرت کر چُکا تھا کہ وہ میری جگہ جماعت کے کسی اور فرد کو سینیٹ کا ٹکٹ دیں اور مَیں نے چند نام بھی تجویز کر دیے تھے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے مُجھے ہی علماء/ٹیکنو کریٹ کی نشست پر سینیٹ کا ٹکٹ دیا۔‘‘