’’ہمدرد نونہال‘‘ اور مسعود احمد برکاتی

May 26, 2019

’’نونہال‘‘ کم عُمر بچّے کو کہتے ہیں۔ پاکستان کی شناخت بننے والے ایک ’’ہم در دمسیحا‘‘نے جب پچاس کے عشرے میں’’ہمدرد نونہال‘‘ کے عنوان سے بچّوں کے رسالے کا اجراء کیا ،تو جس شخصیت کو مدیر کے طور پر منتخب کیا ،وہ مسعود احمد برکاتی تھے۔ جس دن سے ’’ہمدرد نونہال ‘‘ کا اجراء ہوا،اُس دن سے مسعود احمد برکاتی تا اختتامِ حیات (2017ء) رسالے سے بہ طور مدیر وابستہ رہے اور وابستگی کی یہ مدّت چھے عشروںسے زایدبنتی ہے،وہ بھی اس صُورت کہ کسی ایک شمارے کا بھی ناغہ نہیں۔اس قدر طویل مدّت تک بچّوں کے ایک انتہائی معیاری رسالے کے مدیر کی حیثیت سے کام کرنا ادبی دنیا کا شاید ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ ’’ہمدردِ قوم ‘‘ حکیم محمّدسعید ایک ہیرا تو تھے ہی ، اسی کے ساتھ وہ ایک جوہری بھی تھے کہ اُن کی عقابی نگاہوں نے فوری بھانپ لیا تھاکہ مسعود احمد برکاتی کی شکل میں ایک ہیرا موجود ہے ،چناں چہ اُنہوں نے ’’ہمدرد نونہال‘‘ کی ادارت مسعود احمد برکاتی کے ذمّے لگا کر مستقبل کے معماروں کی کردار سازی کا اہم ترین فریضہ ایک صاحبِ کردار شخص کو مستقل بنیادوں پر سونپ دیا۔ یوں ہمدرد نونہال اور مسعود احمد برکاتی’’لازم و ملزوم‘‘ قرار پائے۔حکیم محمّد سعید کے قوم کے لیے دیکھے گئے کئی حسین خوابوں میں سے ایک خواب ، قوم کے نونہالوں کی ذہنی تربیت کے لیے بچّوں کے ایک رسالے کا اجراء بھی تھا۔ مقصد نیک تھا،سو منزل کیوں نہ ملتی۔ رسالے کا اجراء ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے ’’ہمدرد نونہال‘‘ بچّوں کا پسندیدہ رسالہ قرار پایا۔اس کے لیے نہ صرف بہترین ادیبوں، شاعروں کی خدمات حاصل کی گئیں،بلکہ خود رسالے کے مدیر کے طور پر مسعود احمد برکاتی نے بھی تحریروں کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہ تحریر کبھی کہانی کی شکل میں ہوتی، تو کبھی اداریے کی، اور ہر تحریر مقصدیت پر مبنی اور وہ مقصد کیا ہوتا؟اپنے وطن، تہذیب وثقافت اور روایات کا احترام۔خام،کچّے اورناپختہ ذہن نونہالوں کو احترام و محبت کی یہ باتیں اس قدر سلیقے سے سکھائی جاتیں کہ وہ محسوس کرتے کہ گویا یہی باتیں مقصدِ حیات ہیں۔

مسعواحمد برکاتی ریاست راجستھان، ٹونک،بھارت میں 1933ء میں پیدا ہوئے۔دادا حکیم سیّد برکات احمد ریاست کے ایک مشہور طبیب اور جیّد عالم ِ دین تھے،جن کے شاگردوں کی تعداد سیکڑوں میں شمار کی جاتی ہے۔والد مولانا حکیم محمّد احمد تھے۔ یوں طِب کی تعلیم خاندان کا ایک مخصوص امتیاز تھا۔ ٹونک کا شمار ہندوستان کی مشہور ریاستوں میں کیا جاتا تھا۔ وہاں سے تعلق رکھنے والے حافظ محمودخان شیرانی ادب میںایک نام وَر محقّق کے طور پرشناخت رکھتے ہیں۔ ’’پنجاب میں اُردو‘‘ اُن کا ایک بڑا تحقیقی کام ہے۔ اُن ہی کے صاحب زادے اختر شیرانی اُردو شاعری میں اپنی منفرد آواز کی بہ دولت ہر صاحبِ ذوق کے دل میں گھر کر چکے ہیں۔مسعود احمد برکاتی نے عُمر کے دو برس بھی پورے نہ کیے تھے کہ والد چل بسے۔ تاہم ،معاشی طور پر یوں خُوش حالی تھی کہ ٹونک میں اپنی زمینیں ، نوکر چاکرتھے۔تعلیمی دَور شروع ہوا، تو اُردو ، فارسی، عربی اور طِب کی ابتدائی تعلیم دارالعلوم خلیلیہ سے حاصل کی۔انگریزی تعلیم کا معاملہ کچھ یوں رہا کہ گھر ہی پر ایک استاد انگریزی قواعد سکھانے کے لیے مامور کیے گئے۔یوں لکھنے پڑھنے سے یک گونہ قرار ملنے لگا۔اسکول ہی کا زمانہ تھا کہ اپنے دادا کے نام پر ’’البرکات‘‘ نامی قلمی رسالہ نکالا۔1947ء میں تقسیم ِ ہند کا واقعہ ہوا۔ مسعود احمد برکاتی نے اپنی والدہ سے کہا کہ وہ پاکستان جانا چاہتے ہیں۔ تاہم ، والدہ اُس وقت آمادہ نہ ہوئیں۔ کچھ وقت بعد اُنہوں نے دوبارہ یہی بات کہی اور اب لہجے میں تیقّن تھا کہ کسی طرح بھی سہی، پاکستان جا کر رہوں گا۔ اس مرتبہ والدہ زیادہ مزاحمت نہ کر سکیں۔اُن کے ذہن میں البتہ یہ بات تھی کہ لڑکپن کا زمانہ ہے ،لہٰذا ضد کر رہا ہے کہ نیا مُلک دیکھنا ہے، کچھ وقت گزارنے کے بعد واپس آ جائے گا۔یوںقیامِ پاکستان کے بعد1948ءمیںتنِ تنہا ہجرت کی اور اپنے چچا کے پاس حیدرآباد،سندھ چلے آئے۔ماں اپنے بیٹے کے لیے منی آرڈر بھیجتی رہیں،یوںنئی مملکت میں زیادہ دُشواری کا سامنا نہ رہا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد منجھلے بھائی اختر احمد برکاتی نے بھی پاکستان کے لیے رخت ِسفر باندھا ااور اپنے چھوٹے بھائی کے پاس آ گئے۔ایک ڈیڑھ برس تک تو منی آرڈر کا سلسلہ جاری رہا،مگر پابندی لگنے کے بعد یہ صُورت برقرار نہ رہی۔والدہ نے بہت جتن کر کے ہندوستان سے کسی نہ کسی طرح پیسے بھجوانے کا سلسلہ جاری رکھا،لیکن یہ کوئی مستقل ذریعہ نہ تھا۔اسی اثناء مسعود احمد برکاتی کے پاس پڑوس سے ایک صاحب آئے ، جو اسی محلّے میں ایک دودھ فروش کے بیٹے کو ٹیوشن پڑھاتے تھے،وہ کچھ ماہ کے لیے ہندوستان جا رہے تھے۔انہوں نے مسعود احمد برکاتی سے کہا کہ’’ میری عدم موجودگی میں تم بچّے کو ٹیوشن پڑھادو، اس طرح تمہارا جیب خرچ بھی نکل آئے گا اور مصروفیت بھی ہو جائے گی۔‘‘ برکاتی صاحب تیار ہو گئے اور چھے روپے ماہانہ پر ٹیوشن پڑھانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔کئی ماہ بعد وہ صاحب واپس آئے ، مگر دودھ فروش نے کہا کہ میرا بیٹا کہتا ہے کہ نئے ماسٹر جی ہی سے پڑھوںگا۔ اس طرح کچھ معاشی الجھن رفع ہو گئی ۔ٹیوشن سے یہ اُمید بندھی کہ اگر تھوڑی سی تَگ و دَو کی جائے ، تو مزید ٹیوشنز حاصل کرنے میں کوئی خاص پریشانی نہ ہو گی۔ کسی کے مشورے پر شاہی بازار پہنچ کر مختلف دکانوں پر گئے کہ’’ مَیں ٹیوشن پڑھاسکتا ہوں۔‘‘ ایک دکان دار نے کہا کہ ’’مجھے قرآنِ پاک پڑھا دیجیے ۔‘‘یوںبیس روپے ماہوار کی بنیاد پر یہ ٹیوشن بھی شروع کر دی ۔لگ بھگ تین برس کا عرصہ یہاں گزارنے کے بعد جام شورو ،سندھ آ گئے اور پی ڈبلیو ڈی میںساٹھ روپے ماہانہ کی عارضی اسامی پر ملازمت شروع کر دی ۔ یہاں سے 1951ء میں مستقل طور پر پاکستان کے اوّلین دارالحکومت ،کراچی میں سکونت اختیار کر لی۔ابتدائی دنوں میں تو اوروں کی دیکھا دیکھی ایک جھونپڑی ڈال کر رہنا شروع کیا،لیکن کچھ وقت بعد جب دارالحکومت کے حالات سے کچھ واقفیت ہو چلی ، توایک دُکان دار سے ،جواپنی دُکان رات دس بجے بند کر دیا کرتا تھا،درخواست کی کہ اُنہیں صرف رات کے رات رہنے کی اجازت دے دی جائے۔ دُکان دار کافی فراخ دل واقع ہواتھا،اُس نے دیکھا کہ ایک شریف اور پڑھا لکھا نوجوان اتنے ملتجیانہ انداز میں درخواست کر رہا ہے، تو اُس نے دریا دلی کا ثبوت دیتے ہوئے دکان میں رہنے کی اجازت دے دی۔یوں مسعود احمد برکاتی نے شب گزاری کے لیے دُکان کا استعمال شروع کیا اوراس طرح ایک عارضی ٹھکانہ میسّر آگیا۔پڑھنے لکھنے کاشوق تو بچپن ہی سے تھا۔سوچا کہ اب لکھنے لکھانے کا آغاز کیا جائے۔یوں پاکستان میںپہلا مضمون ’’اشتراکیت کیا ہے؟‘‘ تحریر کیا اور اسے انجمن ترقّی اُردو کے تحت شایع ہونے والے بابائے اُردو کے ماہانہ رسالے ’’معاشیات‘‘ کے لیے روانہ کر دیا۔ پرچے کے مُدیر محمد احمد سبزواری تھے۔ اُنہیں مضمون پسند آیا اوراُس زمانے کے رواج کے مطابق اُن کی طرف سے مسعود احمد برکاتی کو کارڈ موصول ہوا، جس میں مضمون کی پسندیدگی کے علاوہ اُس کے اگلے شمارے میں شایع ہونے کی اطلاع اور مزید لکھنے کی درخواست بھی شامل تھی۔ یوں مسعود احمد برکاتی نے بابائے اُردو کے پرچے کے لیے قلمی تعاون کا سلسلہ شروع کر دیا۔’’اشتراکیت اور مذہب‘‘، ’’طبقاتی نظام‘‘ اور اسی قسم کے دیگرمضامین اُن کا موضوع ہوتے ۔ بابائے اُردو نے ایک دن محمّد احمد سبزواری سے کہا کہ مجھے مسعود احمد برکاتی سے ملاقات کرنی ہے ،لہٰذا اُنہیں میرے دفتر مدعو کر لیں۔ یوںمحمّد احمد سبزواری کے کہنے پر انہوں نے بابائے اُردو سے ملاقات بھی کی ۔وہ اُنہیں کوئی معمّر انسان سمجھ رہے تھے۔ تاہم، جب دیکھا کہ اُن کے پرچے میں لکھنے والا ایک نوجوان ہے، تو بے حد خوش ہوئے۔

اُن ہی دنوں طبّیہ کالج کے ایک حکیم نے مسعود احمد برکاتی کو کراچی میں دیکھا۔ تقسیم سے پیش تراُن ہی حکیم کے مسعود احمد برکاتی کے خاندان سے مراسم بھی رہے تھے۔ دل چسپ بات یہ تھی کہ ان ہی حکیم سے طبّیہ کالج،دہلی میں حکیم محمّد سعید نے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔انہوں نے مسعود احمد برکاتی سے کہا کہ ’’ میں تمہیں حکیم محمّد سعید سے ملوا دیتا ہوں۔‘‘یہ وہی زمانہ تھا کہ جب حکیم محمّد سعید نے کراچی میں سخت تَگ و دَو اور محنت کے بعد ’’ادارۂ ہمدرد‘‘ کی بنیاد رکھی تھی اور اسے چلتے ہوئے محض چند ہی برس ہوئے تھے۔حکیم محمّد سعید ، مسعود احمد برکاتی کو اپنے گھر لے آئے۔یہاں ایک کمرے میں اُن کی اَن گِنت کتابیں بے ترتیب پڑی تھیں۔ حکیم صاحب نے اُن سے کہا کہ آپ ان تمام کتابوں کو فی الحال ترتیب دینے کا کام انجام دیں۔ خود حکیم محمّد سعید اُن دنوں ادارے کے فروغ میں اس قدر منہمک تھے کہ کب صُبح سے شام ہوتی اور کس طرح اگلے دن کا آغاز ہوتا ، معلوم ہی نہ ہوتا۔ ’’ادارۂ ہمدرد‘‘ قومی اُفق پر نئی مملکت کے ساتھ ساتھ جگمگا رہا تھا۔ حکیم صاحب بیک وقت کئی محاذوں پر مصروفِ عمل تھے۔ کبھی مطب میں،تو کبھی تجربہ گاہ میں،کبھی ادارے کے لیے مختلف وفود سے ملاقاتیں، تو کبھی بیرونِ ملک دورہ اور کبھی کسی ادارے میں تقریر۔یوں اُن کی زندگی کا ایک ایک پَل کسی نہ کسی کام میں مصروف گزرتا تھا۔ ایک دن انہیں کسی جگہ تقریر کے لیے مدعو کیا گیا۔وقت کی کمی کے باعث انہوں نے اپنے ایک معاون سے کہا کہ تقریر کے لیے چند نکات تحریر کر دیں۔ اچانک اُنہیں خیال آیا کہ کیوںنہ مسعود احمد برکاتی سے بھی ایسے ہی چند تحریر ی نکات حاصل کر لیے جائیں۔جب دونوں نکات سامنے آئے ، تو حکیم محمّد سعید کو مسعود احمد برکاتی کے تحریر کیےگئے نکات نے بے حد متاثّر کیا اور یوںمسعود احمد برکاتی ’’ادارۂ ہمدرد‘‘ کا حصّہ بن گئے۔ حکیم صاحب نے اُن کی تحریری اور علمی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اپنے ادارے کے تحت شایع ہونے والے پرچوں کی نگرانی کا کام بھی سونپ دیا۔1953ء میں حکیم محمّد سعید کو خیال آیا کہ بچّوں کی تعلیم و تربیت کے لیے پرچے کا اجراء ضروری ہے۔یوں ’’ہمدرد نونہال‘‘ کی داغ بیل ڈالی گئی۔وہ اس پرچے کو ہر لحاظ سے معیاری اور بچّوں کی ذہنی تربیت کا ایک مستقل سلسلہ بنانا چاہتے تھے۔اُن کے پیشِ نظر یہ بات تھی کہ قوم کے نوجوانوںکی اصلاح کے ساتھ نونہالوں کی تربیت بھی ازحد ضروری ہے۔وہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ بچّوں کی اگر صحیح خطوط پر رہنمائی کی جائے ، تو وہ آگے چل کر قوم کا سرمایہ ثابت ہوںگے اور اُن کے نزدیک اس کا سب سے اچھا ذریعہ یہ تھا کہ ایک معیاری ماہانہ رسالے کا اجراء کیا جائے۔چناں چہ اس اہم ترین مقصد کے لیے اُن کی نظرِ انتخاب جس شخص پر ٹھہری ،وہ مسعود احمد برکاتی تھے۔یوں مسعود احمد برکاتی ’’ہمدرد نونہال‘‘ کے مُدیر کے طور پر ’’ادارۂ ہمدرد‘‘ سے مستقل بنیادوںپروابستہ ہو گئے۔ اب ہمہ وقت مصروفیت کی زندگی تھی۔ ’’ہمدرد نونہال‘‘ کو بہتر سے بہتر انداز میں چلانے کے لیے رات دن کوششیںکی جانے لگیں ۔اچھے سے اچھے قلم کاروںسے قلمی تعاون کی درخواست کی گئی۔رسالے کے متن کے ساتھ اُس کو صُوری طور پر دل کش بنانے پر بھی خاص توجّہ مرکوز کی گئی۔مسعود احمد برکاتی تو اس رسالے کو بچّوں کا مثالی اور بہترین رسالہ بنانے پر جی جان سے لگے ہوئے ہی تھے،مگرخود حکیم محمّد سعید بھی اپنی روزو شب کی مصروفیات کے باوجودبھی ’’ہمدرد نونہال‘‘ سے لمحہ بھر غافل نہ تھے۔ یوں دو متحرّک ،فعال اور زِیرک انسانوں کی مسلسل کوششوںکا ثمر سامنے آنے لگا ۔ ابھی اس کے اجراء کو ایک سال بھی نہ ہوا تھا کہ ’’ہمدرد نونہال‘‘ پاکستان میں بچّوں کا سب سے معیاری رسالہ قرار دیا جانے لگا۔ یہ خلوص سے کی جانے والی محنتوں کا صلہ تھا کہ رسالے کا نام خاص و عام کی زبان پر آگیا۔

پچاس کا نصف عشرہ تھا کہ مسعود احمد برکاتی کی زندگی نے ایک نیا موڑ لیااوروہ نکاح کے بندھن میں بندھ گئے۔ مصروفیات اب دوچند ہو چلیں۔ تاہم، محنت پر ایقان رکھنے والے مسعود احمد برکاتی نے دفتری اور گھریلو زندگی میں توازن قائم رکھا ۔وقت کچھ اور آگے بڑھا اور اب اُن کی زندگی میں بچّے بھی شامل ہو گئے،مگر یہ سب کچھ ’’ہمدرد نونہال‘‘ کے مُدیر کو رسالے سے رتّی برابر بھی غفلت کی طرف مائل نہ کر سکا،بلکہ ’’ہمدرد نونہال‘‘ کا ہر آنے والا شمارہ پچھلے سے بہتر نظر آتا۔ پھر تو برس پر برس اور عشروں پر عشرے گزرتے چلے گئے ، ’’ہمدرد نونہال‘‘ اپنی طفولیّت، لڑکپن، نوجوانی، جوانی، ادھیڑ عُمری اور پھر پیرانہ سالی میں داخل ہونے کے باوجود ’’نونہال کا نونہال ‘‘ ہی رہا۔17اکتوبر 1998 ء کو ’’مسیحائے قوم‘‘ اور ’’ہمہ وقت بیدار‘‘حکیم محمّد سعید کو دہشت گردوں نے ہمیشہ کی نیند سُلا کر گرچہ حکمت و دانائی کا قتل کرنا چاہا۔ تاہم، حکیم محمّدسعید کی شہادت کے بعد اُن کی صاحب زادی ،سعدیہ راشد نے باپ کی متانت،لیاقت اور سعادت کے اُس سفر کو جاری رکھا،جس نے پاکستان میں’’ادارۂ ہمدرد‘‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ سعدیہ راشدکی رہنمائی اور مسعود احمد برکاتی کی ادارت میں ’’ہمدرد نونہال‘‘ کا سفر بھی پوری استقامت سے جاری رہا۔ اس اثناء مسعود احمد برکاتی کی تصنیف و تالیف و تراجم کا سلسلہ بھی رُکنے نہ پایا۔

بچّوں کے لیے تحریروں کا سلسلہ اُردو ادب میں اتنا قدیم تو نہیں ہے کہ جتنا خود اُردو ادب،لیکن اس سلسلے میں ابتدائی طور پر تحریروں کا سلسلہ بیسویں صدی کی ابتدا سے شروع ہوا۔ ’’پیسہ اخبار‘‘ کے مولوی محبوب عالم نے مئی 1902 ءمیں ’’بچّوں کا اخبار‘‘ کے نام سے لاہور سے اخبار شایع کرنا شروع کیا۔ یہ باتصویر اخبار اپنی نوعیت کا برّ ِصغیر کا پہلا اخبار تھا ، جو بچّوں کی تعلیم و تربیت کی غرض سے شایع کیا گیا۔ اس کے قلمی معاونین میں منشی دیا نرائن نگم،شیخ عبدالقادر،منشی محمد الدّین فوق،مولوی محب حُسین وغیرہ شامل تھے۔ ’’بچّوں کا اخبار‘‘ کے بعد بچّوں ہی کے لیے جو رسالہ سامنے آیا وہ ’’پھول‘‘ تھا۔ اکتوبر 1909ءمیںسامنے آنے والے اس رسالے کو بھی بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس رسالے کو مولوی ممتاز علی نے جاری کیا۔ یہ امتیاز علی تاج کے والد تھے۔ ان دونوں پرچوں کے بعد تو بچّوں کے لیے بہت سے رسائل و جراید کا اجراء ہوا۔ ’’تعلیم و تربیت‘‘،’’کھلونا‘‘، ’’بچّوں کی دنیا‘‘، ’’بھائی جان‘‘ وغیرہ اسی سلسلے کی کڑی تھے۔ تاہم ،’’ہمدرد نونہال‘‘ کی انفرادیت یہ رہی کہ اس کی ادارت ابتدا ہی سے مسعود احمد برکاتی کے پاس رہی اورو ہی تادَمِ آخر اس کے مُدیر رہے ۔ ادارت کا یہ سفر چھے دَہائیوں سے زاید پر مشتمل رہا۔ اگر’’ بچّوں کا اخبار‘‘کے صفحات پر اُس دَور کے نام وَر شاعر اور ادیب نظر آتے رہے تو ’’ہمدرد نونہال‘‘ بھی اپنے وقت کے بڑے شاعروں اور ادیبوں کی نگارشات سے اپنے پرچے کو سجاتا رہا۔ مسعود احمد برکاتی نے اس بات کا خاص التزام رکھا کہ وقت کے بڑے شاعر اور ادیب بچّوں کے لیے بھی کچھ نہ کچھ تحریر کرتے رہیں۔یوں ’’ہمدرد نونہال‘‘ میں صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم،اشرف صبوحی، میرزا ادیب،محشر بدایونی، شاعر لکھنوی،ماہر القادری،شان الحق حقی، وحیدہ نسیم ،محمد احمد سبز واری کا گاہے گاہے قلمی تعاون شامل رہا۔ ’’ہمدرد نونہال‘‘ نے ابتدا ہی سے بچّوں کے اندر تہذیب و تربیت اور علم کی جستجو بیدار کرنے کا سلسلہ قائم کیا۔ ’’جاگو جگاؤ‘‘حکیم محمّد سعید کی تحریر سے سجی محض ایک صفحے پر مشتمل عبارت ہوتی۔اسے تحریر کی بہ جائے اگر ’’تحریک‘‘ قرار دیا جائے، تو بے جا نہ ہوگا۔ حکیم صاحب اُس مختصر سی عبارت میں قوم کے نونہالوں کو انتہائی سادہ اور دل کش انداز میں کوئی نہ کوئی پیغام دیتے۔ ’’جاگو جگاؤ‘‘کی ترکیب خود ایک پیغام سے کم نہ تھی۔ ’’پہلی بات‘‘مسعود احمد برکاتی کی نونہالوں سے گفتگو کا صفحہ ہوتا،جس میں وہ بے تکلفّی اور بزرگانہ شفقت کے ساتھ بچّوں سے باتیں کرتے۔ ’’معلومات ِعامّہ‘‘، ’’اخبارِ نونہال‘‘،’’نونہال ادیب‘‘(ننّھے لکھنے والے)،’’نونہال مصوّر‘‘ اور ’’نونہال لغت‘‘(مشکل الفاظ، معنی)جیسے مُفید اور عُمدہ سلسلے بچّوں میںلکھنے پڑھنے کا شوق پروان چڑھاتے۔ خاص طور پر آخری صفحہ، جس میں مشکل الفاظ اور اُن کے معنی درج کیے جاتے،نونہالوں کی تعلیم اور اُن میںعلم سے جستجو بیدار کرنے کا نہایت کارآمد سلسلہ تھا۔غرض ’’ہمدرد نونہال ‘‘ کو پڑھ پڑھ کر کتنے ہی بچّے آگے چل کر نام وَر شاعر اور ادیب بنے۔یوں ’’ہمدرد نونہال‘‘ نے اپنے عشروں کے سفر میں ’’تخلیقی شاہراہ ‘‘کو اس قدر وسعت اور کشادگی عطا کی کہ اَن گنت بچّے مسعود احمد برکاتی کی ’’ہمدردانہ رہنمائی‘‘ میں جادۂ تخلیق پر کھنچے چلے آئے۔ بلاشبہ یہ ایک بڑی قومی خدمت تھی۔ ممتاز مزاح نگار، مشتاق احمد یوسفی نے اُن کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا تھا’’جس طرح ہمدرد فاؤنڈیشن پاکستان کے لیے وقف ہے، اسی طرح مسعود برکاتی بچّوں کے لیے وقف ہیں۔‘‘

مسعود احمد برکاتی کی تصانیف و تالیفات و تراجم میں ’’دو مسافر دو مُلک‘‘(اُردو میں بچّوں کا پہلا سفرنامہ)،مونٹی کرسٹو کا نواب‘‘(الیگزینڈر ڈوما کا ترجمہ)،’’ہزاروں خواہشیں ایسی‘‘(چارلس ڈکنس کے ناول کا ترجمہ)،’’تین بندوقچی‘‘(تھری مسکیٹئرز کا ترجمہ)،’’پیاری سی پہاڑی لڑکی‘‘(ترجمہ ناول)،’’جوہر قابل‘‘(مولانا محمد علی جوہر کی کہانی اور کارنامے)، ’’چور پکڑو‘‘(مجموعۂ مضامین)، ’’صحت کی الف بے‘‘،’’انکل حکیم محمّد سعید‘‘ (ترتیب)،’’وہ بھی کیا دن تھے‘‘(از : حکیم محمّد سعید ترتیب)،’’صحت کے ننانوے نقطے‘‘(مختصر کتاب)، ’’حکیم محمّد سعید کے طِبّی مشورے‘‘(ترتیب)،’’ایک کھلا راز‘‘(مجموعۂ مضامین)، ’’سعید پارے‘‘(ترتیب)،’’مرد ِ درویش (ترتیب) حکیم عبدالحمید کی عظمت فکر و عمل کے چند گوشے‘‘،’’فرہنگِ اصطلاحاتِ طب‘‘(نظرِ ثانی و ترمیم و اضافہ)، ’’غذائیں، دوائیں‘‘،’’سعید سپون‘‘(سندھی ترجمہ)مسعود برکاتی/ محبوب بلوچ،’’Profile of a Humanitarian ‘‘(شریک ِمصنّف)شامل ہیں۔ بچّوں کے لیے وقف رہنے والے مسعود احمد برکاتی 10 دسمبر 2017 ء کو (85 سال کی عُمر میں)کراچی میں انتقال کر گئے۔

مسعود احمد برکاتی کے برادر بزرگ ،حکیم محموداحمد برکاتی بھی ایک صاحبِ علم انسان تھے۔ طِب کے ساتھ تصنیف و تالیف ایک مستقل کارِ حیات رہا۔ انہوں نے چالیس کے لگ بھگ کتابیں تحریر کیں۔ اُن کے ایک صاحب زادے ڈاکٹر سہیل برکاتی نے میرین بیالوجی میں پی ایچ ڈی کیا ۔سائنس کے ساتھ ادب بھی اُن کی دل چسپی کا ایک محور ہے۔ ’’مقالاتِ برکاتی‘‘ کے نام سے انہوں نے اپنے والد کے مقالات کو حال ہی میں مرتّب بھی کیا ہے۔