پختونخوا کا خود ساختہ چاند ؟

June 09, 2019

یہ طالب علم قوم پرست فکر و نظر کا حامی ہے، مجھ کم علم و کج فہم کے سامنے ان گنت لسانی و قومیتی ایشو آئے لیکن ان تمام میں سب سے مضحکہ خیز چاند پر تسلط کا بعض پختونوں کا دعویٰ ہے ۔کبھی کبھی سوچتا ہوں کیا ہم پختون روبوٹ ہیں جنہیں کبھی نام نہاد مجاہد بنایا جاتاہے تو کبھی طالبان اور یاپھر چاند کا ٹھیکیدار۔ قبل اس کے رویت ہلا ل کو نزاعی بنانے کے اصل حقائق پر بات کی جائے،ہم قبل ازیں اس موقف پر کہ وفاق پختونوں کی شہادتوں کو نہیں مانتا ، پر اظہار خیال کرنا چاہیں گے۔ہم جب اس حوالے سے حقائق دیکھتے ہیں تو صاف نظر آتاہے کہ سب سے زیادہ خود پختون اس خود ساختہ چاند پر یقین نہیں کرتے ،اس عید پر آپ دیکھیں کہ پختونخوا حکومت نے اسے سرکاری چغہ بھی پہنایا لیکن پختونخوا کے اکثر یتی علاقوں نے اسے قبول نہیں کیا۔یہاں تک کہ دارالحکومت پشاور میں بھی مکمل عید نہیں منائی جاسکی، سوات، بونیر،ہزارہ،ملاکنڈ ودیگر علاقوں نے پوپلزئی صاحب کے اعلان کو درخور اعتنا ہی نہیں سمجھا،کیا یہ مضحکہ خیز امر نہیں کہ بنوں میں تو عید ہے اور اس کے پڑوس ڈیرہ اسماعیل خان میں روزہ،کوہاٹ میں جزوی عید تھی، میں نے ایک دوست کو عید پر مبارک باد کیلئے فون کیا ،بتارہے تھے کہ رات ایک بجے چاند کی اطلاع آئی۔اپنے گائوں درملک میں بات ہورہی تھی ، بتایا گیا کہ رات دو بجے سحری کیلئے اعلان کیا گیا جس کے فوری بعد عید کی نوید سنائی گئی۔یعنی جب شہادتیں سرِ شام ہی ملنا شروع ہوگئی تھیں تو فوری اعلان کیوں نہیں کیا گیا۔کہیں ایسا تو نہیں کہ فتوی ٰ صادر کرنے والوں کو بھی ان شہادتوں پر یقین نہیں تھااور وہ سعودیہ سے چاند نظر آنے کی اطلاع کا انتظارکررہے تھے؟۔ ہمارے گائوں اور مضافات میں عید تھی اور تحصیل اور قریبی علاقوں میں عیدنہیں تھی ،یعنی پوپلزئی صاحب کے فرمان کے بعد بھی مولوی صاحبان باہم متحد نہ تھے۔اگر مسئلہ پختونوں کاتھا تو پھر تو یہ تمام پختون تھے ،عید یا روزہ ایک کیوں نہ تھا،ظاہر ہے جو عید کا فتویٰ دے رہے تھے اور جو روزے کا، دونوں مولانا صاحبان ہی تھے ،اب کچھ لوگوں نے ایک گروپ کے مولویوں کی مانی ،کچھ نے دوسرے کی۔یعنی تنازع کے فریق زبان و قومیت نہیں ،دیگر ہیں۔پھر پختونوں کے دوسرے صوبے بلوچستان جسے پشتون جنوبی پختونخوا بھی کہتے ہیں اُنہوں نے بھی پختونخوا کے چاند کو قبول نہیں کیا۔ کیوں؟ جب پچھلے ماہ پوپلزئی صاحب نےرمضان کے چاند کا اعلان فرمایا۔تو اگلے دن کراچی میں میرے ایک دوست نے مجھے فون کیا ،اور کہا دیکھیں یہ لوگ پختونوں کی شہادت کو قبول نہیں کرتے۔میں نے استفسار کیا ،کیا آپ کاآج روزہ ہے ،کہنے لگےنہیں،میں نےعرض کیا کہ پھر تو آپ نے بھی پختونوں کی شہادت کو قبول نہیں۔باالفاظ دیگر دنیا میں آبادی کے لحاظ سے پختونوں کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی پختونوں نے وفاق کے ساتھ روزہ رکھا اور اسی طرح عید منائی۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ موقف اپنےبطن ہی میں باطل ہے کہ وفاق پختونوں کی شہادت کو قبول نہیں کرتا،بلکہ 80فیصد سے زائد پاکستانی پختون بھی اس شہادت کو اپنے عمل سے ردکرتے ہیں اور کرتے رہے ہیں۔اس کی وجہ ظاہر و باہر ہے کہ چاندکی شہادت لسانی،نسلی،قومیتی مسئلہ ہے ہی نہیں،لیکن اسے ایک منصوبے کے تحت بالکل اسی طرح پختونوں کا مسئلہ بنادیا گیا ہے جس طرح نام نہاد افغان جہاد کو پختونوں کا جہاد بنایا گیا تھا ،اگر پختون ذرا سوچ لیتے کہ کوئی انہیں استعمال تو نہیں کررہا،تو پختونوں کو اپنے اس عمل کا خراج اپنے 40لاکھ بھائیوں کے قتل کی صورت میںنہ ادا کرنا پڑتا،یا آج وہ سوچیں کہ محرم سمیت چاند تو ہر ماہ نکلتاہے اور مرکزی رویت ہلا ل کمیٹی ہی اس کا اعلان کرتی ہے ،پوپلزئی صاحب باقی دس مہینے کیوں مرکزی رویت ہلا ل کمیٹی کی رویت کو تسلیم کرتے ہیں اور پھر رمضان اور شوال میں عَلم بغاوت کے ساتھ برآمد ہوتے ہیں۔راقم اس پر بات نہیں کرتا کہ کس کا چاند درست ہے کس کو گرہن لگ چکاہے،گناہ وثواب انہی ہر دو پر ہے،ہم کہناصرف یہ چاہتے ہیں کہ یہ قطعی قومیت کا مسئلہ نہیں ۔واقفان حال کے بیانات سے بھی یہی لگتاہے کہ یہ قومیتی مسئلہ نہیں ہے ۔ چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمٰن نے کہا ہے کہ دو عیدیں آج کی بات نہیں یہ سلسلہ قیام پاکستان سے چلا آرہا ہے۔ فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت کے آج عید منانے سے جگ ہنسائی ہوئی،حکومتیں مسلک اور مقامی لڑائیوں میں نہیں پڑتیں،یعنی یہ مسئلہ قیام پاکستان سے چلا آرہا ہے،اور فواد چوہدری صاحب کاکہناہے کہ پختونخوا حکومت کا عید کااعلان اس لڑائی میں گویا ایک مسلک کی حمایت ہے،چونکہ حکومتیں مسلک کی لڑائیوں میں نہیں پڑتیںاس لئے پختونخوا حکومت کو بھی اس لڑائی میں نہیں پڑنا چاہئے تھا۔ بہرکیف خداکرے کہ آئندہ ماہ وسال میں یہ مسئلہ حل ہوجائے تاکہ پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی نہ ہو اور عوام میں انتشار بھی نہ پھیلے۔اگر اس سلسلےمیں سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی تو سادہ لوح عوام یوں ہی استعمال ہوتے رہیں گے اور حضرت اقبال خداکے حضور یوں ملتمس ۔

خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں

کہ درویشی بھی عیاری ہے سلطانی بھی عیاری