الیکٹرک گاڑیوں کیلئے الگ سے نئی پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے،آٹو مینوفیکچررز

June 11, 2019

کراچی ( اسٹاف رپورٹر) آٹو مینوفیکچرز نے کہا ہے کہ الیکٹرک گاڑیوں کے نام پرایک بار پھر گاڑیوں کی درآمد کھولنے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے ،تفصیلات کے مطابق مقامی کار ساز صنعت نے الیکٹرک گاڑیوں کے بارے میں مجوزہ پالیسی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے آٹو انڈسٹری ڈیویلپمنٹ پالیسی 2016-21 سے متصادم قرار دیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مجوزہ الیکٹرک وہیکل پالیسی ’’میک اِن پاکستان‘‘ کے برعکس ہے اس طرح یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ یہ پالیسی مفاد پرست افراد کی اختراع ہے۔ امریکا، بھارت، چین اور دیگر ملکوں میں الیکٹرک وہیکل کی پالیسیاں اس طرح وضع کی جاتی ہیں جن سے مقامی مینوفیکچرنگ کو فروغ ملے جبکہ ہماری پالیسی امپورٹ پر انحصار کرتی ہے۔ اس پالیسی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں CBUs کی امپورٹ کو مینوفیکچرنگ کے مقابلے میں ترجیح دی گئی ہے۔ قبل ازیں، آٹو پالیسی 2016-21 کو تیار کرنے میں چار سال کا عرصہ لگا اور اس میں فریقین سے مشاورت لی گئی جن میں سی سی پی، آٹو انڈسٹری اور دیگر ادارے بھی شامل تھے۔آٹو پالیسی میں الیکٹرک وہیکل کی مینوفیکچرنگ بھی شامل ہے اس لیے الیکٹرک گاڑیوں کے لیے الگ سے نئی پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے اور اس کی ضرورت نہیں ہے۔ موجودہ آٹو پالیسی میں مینوفیکچرنگ کو شامل کرنے کے لیے کافی گنجائش موجود ہے جو گرین فیلڈ اسٹیٹس کے زمرے میں نئی کمپنیوں کو دی گئی سہولت ہے۔ اسی طرح موجودہ کمپنیوں کی بھی نئے پلانٹ قائم کرنے میں حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے۔ ذرائع نے کہا کہ مقامی مینوفیکچرنگ کو ہر صورت مقدم رکھنا چاہیے اور حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے مواقع سے فائدہ اٹھا کر مقامی مینوفیکچرنگ کو فروغ دے۔انہوں نے کہا کہ الیکٹرک وہیکل کے 30 فیصد پرزہ جات الیکٹرک (بیٹری، موٹرز، بیٹری مینجمنٹ سسٹم شامل) ہیں جبکہ 70 فیصد پرزہ جات دیگر عام گاڑیوں کی طرح کے ہیں اور اس طرح کے پرزہ جات مقامی سطح پر پہلے ہی تیار کئے جارہے ہیں۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو سی بی یوز کی درآمد پر زور نہیں دینا چاہیے اور اس بات کو فروغ دیا جائے جس سے الیکٹرک گاڑیوں کے 70 فیصد پرزہ جات مقامی طور پر بنائے جائیں تاکہ پاکستان کی مقامی مینوفیکچرنگ کو فائدہ پہنچے۔