تاریخ اورآسیہ ناصر

June 17, 2019

گل دخار…سیمسن جاوید
سابق ایم این اے آسیہ ناصر جو سیاست کے ساتھ ساتھ قومی سطح پر کئی سوشل تنظیمیں بھی چلا رہی ہیں جن میں پاکستان کرسچن فورم (PCS )اور PPI قابل ذکر ہیں ان تنظیموں کا مقصد مستحق مسیحی اسٹوڈنٹس کو اسکالر شپ دینا ہے تاکہ وہ اپنی تعلیم مالی مشکلات کے بغیر جاری رکھ سکیں۔ جس کے ساتھ خاندان اور قوم کا روشن مستقبل وابستہ ہے اور اس کے ساتھ ان کا مقصد مسیحی کمیونٹی کو اپ لفٹ کرنا بھی ہے۔ اپنے اس مقصد کی تکمیل کے لئے وہ ملک ملک دورے کر رہی ہیں تاکہ اپنے اس منصوبے کے لیے فنڈز جمع کئے جا سکیں۔ امریکہ اور کوریا کے دورے کے بعد وہ لندن پہنچیں تو جون باسکو نے اْن کے اعزاز میں آلائنس آف پاکستانی کرسچن آرگنائزیشن (APCO UK) کے تعاون سے سلائو میں ایک تقریب کا اہتمام کیا جس میں APCO کی ایگزیکٹو کمیٹی ممبران کے علاوہ انگلینڈ میں مقیم مسیحیوں کی اہم شخصیات کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ بحییثت صدر پی سی پی سی، میرا شمار بھی میزبانوں میں تھا۔ لہٰذا میں نیو کاسل سے بائے روڈ دوپہرکو روانہ ہوا۔ کیونکہ نیو کاسل سے لندن تک تقریباً پانچ گھنٹے کا سفر ہے۔ یوں تو آسیہ ناصر کی آمد انگلینڈ میں اکثر رہتی ہے مگر میری ملاقات تقریباً آسیہ ناصر سے 9 سال بعد ہونے جارہی تھی۔ میں تقریباً پچھلے 30 سالوں سے باقاعدہ شعبہ صحافت سے منسلک ہوں اور ان کے والد جناب رفیق گل کوئٹہ کے مشہور اور ذہین سیاست دان تھے۔ جداگانہ انتخابات کا دور تھا اور وہ ایم این اے اور ایم پی اے کے الیکشن لڑا کرتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئٹہ میں خاندانی سیاست کی وجہ سے وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ میں اور میری ٹیم میگزین اور اخبار کے ذریعے الیکشن میں حصے لینے والے سب امیدواروں کو کوریج دیا کرتے تھے۔ ایک ہی صوبے اور ایک ہی شہر سے تعلق ہونے کے علاوہ گل فیملی سے ہمارے خاندانی مراسم بھی ہیں۔ آسیہ ناصر سینٹ فرانسس گرائمر سکول میں انگلش لٹریچر پڑھایا کرتی تھیں۔ انگلش لٹریچر سے سیاست تک کا سفر ایک بڑا حیران کن معجزہ تھا۔ پاکستان میں کسی مسیحی کا مسلم مذہبی جماعتوں کا ممبر ہونا انتہائی ناممکن سی بات تھی۔ مگر
محترمہ جمعیت علماء اسلام ف گروپ کی ٹکٹ سے منارٹیز کی مخصوص نشست پر سلیکٹ ہوئیں۔ وہ2002ء سے 2018ء مسلسل قومی اسمبلی کی رکن رہیں۔ انہیں اسمبلی کو بحیثیت اسپیکر ایک دن چلانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ان کی نڈر سیاست کی بدولت ہم انہیں خبروں، انٹرویوز اور اشتہارات سے خصوصی کوریج دیا کرتے تھے۔ نیو کاسل سے سلائو تک کے سفر میں میرا ذہن ماضی کے گرداب میں ہچکولے کھاتا رہا۔ 2002ء میں اقلیتوں کے مخلوط طرز انتخابات کا انعقاد ہوا۔ تمام سیاسی جماعتوں نے اقلیتوں سے تعلق رکھنے والوں کے نام الیکشن کمیشنر کی طرف سے مقررہ الیکشن کمشنر آفس میں جمع کروادیے۔ آخر لمحوں تک محترمہ آسیہ ناصر کا نام سننے میں نہیں آرہا تھا۔ پھر اچانک آسیہ ناصر کے جمعیت علماء اسلام کی طرف سے ایم این اے منتخب ہونے کی خبر نے تمام مسیحی کمیونٹی کو حیران کر دیا۔ گوکہ ان کا تعلق ایک مذہبی جماعت سے تھا اس کے باوجود انہوں نے اقلیتوں، خصوصاً مسیحیوں کیساتھ ہونی والی زیادتیوں کے خلاف بھرپور آواز بلند کی۔ شہباز بھٹی کی شہادت کے موقع پر انہوں نے اسمبلی میں پرزور احتجاج ریکارڈ کروایا۔ اب جب کہ وہ اسمبلی کی رکن نہیںہیں تو اقلیتیں ان کی کمی شدت سے محسوس کر رہی ہیں۔ بہت سے لوگ انہیں مسیحیوں کی شیرنی کے خطاب سے بھی نوازتے ہیں۔ ان سے روبرو ملاقات کر کے اور ان کی نئی خدمات کو سن کر اور ان کے کاموں کی ویڈیوز دیکھ کر ہمت بندھی کہ یقیناً وہ اچھا کام کر رہی ہیں۔ ان کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ وہ چرچ کو اور عام آدمی کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کر رہی ہیں جس میں انہیں کافی حد تک کامیابی ہوئی ہے۔ آخر میں اپنا کالم نیک تمناؤں کے ساتھ ختم کرتا ہوںاور قارئین کو یہ احساس دلانے کی چھوٹی سی سعی کر رہا ہوں کہ برائے مہربانی صحافت کو سمجھنے کی کوشش کیا کریں کیونکہ ایک صحافی کسی کو خوش یا ناراض کرنے کے لئے کبھی نہیں لکھتا بلکہ وہ سچ لکھتا ہے اور اس کا مقصد حقائق کو سامنے لانا ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ ایک صحافی جس دن اپنوں کو خوش کرنے کے لیے لکھے گا۔ اسی دن صحافت کی موت واقع ہوجائے گی۔