عمران خان بدل گئے!!

June 27, 2019

وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان بدل گئے ہیں۔ ماضی میں اپنی ہی کہی ہوئی ایک ایک بات سے خان صاحب وزیر اعظم بننے کے پھر رہے ہیں۔ وہ اپنے نہ ختم ہونے والے یو ٹرنز کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بڑے لیڈر ہی یو ٹرنز لیتے ہیں لیکن دوسرے سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ایسے شخص پر کیا اعتبار کیا جائے جو اپنی ہر بات سے پھر جاتا ہے۔ خان صاحب جو ماضی میں جب پی پی پی یا نون لیگ کی حکومتیں براقتدار تھیں، تو ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی تھوڑی سی گراوٹ پر بھی تڑپ اُٹھتے تھے اور کہتے تھے کہ ڈالر ایک روپیہ مہنگا ہونے کا مطلب پاکستان پر سو ارب روپے کے قرض کو بڑھانا ہے، وہ اپنی حکومت کے دوران ڈالر کی نہ رکنے والی تاریخی گراوٹ پر خاموش بلکہ مکمل خاموش ہیں۔ اسے مجرمانہ خاموشی کہیں یا کچھ اور نام دیں لیکن پاکستانی روپے کی قدر میں جس تیزی سے ہر گزرتے دن کے ساتھ خان صاحب کی حکومت کے دوران کمی آ رہی ہے وہ پاکستان کی معیشت کے ساتھ ساتھ کاروبار کی تباہی اور عوام کے لیے انتہائی مایوسی کا سبب بن رہا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دوران اب تک روپے کی ڈالر کے مقابلہ میں قدر میں قریباً 38روپے کی کمی ہو چکی ہے اور صرف آج (بروز منگل) ہی کے دن ڈالر پانچ روپے سے زیادہ مہنگا ہوا۔ خان صاحب کی ماضی میں کہی گئی بات کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت کے دوران صرف روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے تقریباً 4ہزار ارب روپے پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بڑھ چکا ہے۔ آج ایک روپیہ ڈالر مہنگا ہونے سے پاکستان پر قرض کا بوجھ 100ارب روپے بڑھ جاتا ہے۔ اس ظلم پر عمران خان خاموش کیوں ہیں؟

یہ ظلم پاکستان پر اُس آئی ایم ایف کے کہنے پر کیا جا رہا جس کے متعلق خان صاحب نے کہا تھا کہ وہ خودکشی کر لیں گے لیکن آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے۔ خان صاحب آئی ایم ایف پاس گئے بھی اور ایسی شرائط بھی تسلیم کرلیں جن سے نقصان پاکستان اور پاکستان کی معیشت کا ہے۔ جب پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات فائنل ہو رہے تھے تو میں نے ایک خبر دی تھی جس کے مطابق سیکریٹری خزانہ جو اس نوعیت کے مذاکرات کی پاکستان کی طرف سے سربراہی کرتا ہے، ان مذاکرات کے آخری تین روز کی میٹنگ میں شامل نہیں ہوئے کیونکہ اُنہیں کہہ دیا گیا تھا کہ آئی ایم ایف کے وفد سے زیادہ بحث نہ کریں۔ اُسی دوران میں نے اپنی خبر میں ایک اعلیٰ ذرائع کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والا معاہدہ دراصل ایک sell-outمعاہدہ اور پاکستان کی طرف سے مکمل ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہے۔ حال ہی میں مجھے ایک وفاقی وزیر نے بتایا کہ اُس وقت کے سیکرٹری خزانہ کو جب آئی ایم ایف سے بات چیت کرکے اس کوشش سے روک دیا گیا کہ پاکستان کے حق میں شرائط کو منوایا جا سکے تو وہ وزیراعظم عمران خان سے ملے اور بتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ وہ معاملات بھی کھول دیئے گئے ہیں جو تحریک انصاف کے سابق وزیر خزانہ اسد عمر کے وقت آئی ایم ایف سے طے ہو چکے تھے لیکن وزیراعظم سے اس ملاقات کے چند ہی دن بعد سیکرٹری خزانہ یونس ڈھاگہ جنہیں دو ماہ پہلے ہی عمران خان نے اس عہدہ پر تعینات کیا تھا، کو اس عہدہ سے نہ صرف ہٹا دیا گیا بلکہ او ایس ڈی بنا دیا گیا۔ یعنی جو ڈھاگہ نے پاکستان کو آئی ایم ایف کے ظلم سے بچانے کے لیے کیا اُس پر اُن کی تحسین کے بجائے، سزا دی گئی۔ یہ بات میں پہلے بھی لکھ چکا کہ سابق گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ کو بھی اُس وقت نکال کر آئی ایم ایف کے ہی افسر رضا باقر کو اس عہدہ پر تعینات کیا گیا جب آئی ایم ایف اور پاکستان کے مذاکرات فائنل اسٹیج پر تھے۔ یہ تبدیلیاں بھی عمران خان کے حکم سے ہوئیں۔ خان صاحب کی نیت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو، وزیراعظم نے چاہے کبھی ایک پیسہ کی کرپشن بھی نہ کی ہو لیکن وہ اور اُن کی حکومت صرف پاکستانی روپے کے ساتھ ہی جو کھلواڑ کر رہے ہیں اُس نے ہر پاکستانی کو پریشان کر دیا ہے۔ اپنی باتوں اور وعدوں سے پھرنے والے عمران خان کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ کہیں اُن کے یو ٹرنز کاروباری حالات کی خرابی کی وجہ تو نہیں۔ جب آپ روزانہ یو ٹرن لیں گے اور کہیں گے یو ٹرنز تو اچھے ہوتے ہیں اور ایسا کام بڑے رہنما ہی کرتے ہیں تو پھر پیسہ لگانے والا سوچے گا کہ ہم اس حکومت اور اس وزیراعظم پر کیا اعتبار کریں۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)