ریلو کٹوں کا دور؟

June 27, 2019

میرے ایک بہت ہی قریبی عزیز آجکل ذہنی طور پر بہت پریشان رہتے ہیں: اُن کو یہ کھد بد لگی رہتی ہے کہ اس وقت پاکستان پر حکومت کرنے والے کون لوگ ہیں۔ ان کا کہنا (غلط یا درست) ہے کہ انہوں نے پورے پاکستان کی تاریخ میں اندرونی اور بیرونی حالات سے اتنے بے خبر، خود پسند اور غلط باتوں پر اڑے رہنے والے لوگ نہیں دیکھے۔ شاید ہمارے عزیز مفت میں ہی پریشان ہو رہے ہوں اور پاکستان کی قسمت میں ایسے ہی حاکم لکھے گئے ہوںیا ساری دنیا میں ایسے لوگ ہی راج گدیوں پر نظر آرہے ہوں۔بہر صورت یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ ان نئے طرز کے حاکموں کا ایک ذہنی خاکہ تیار کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس سلسلے میں سوچ بچار کرتے ہوئے ’ریلو کٹے‘ کی اصطلاح ذہن میں آئی کہ شاید اس سے تصویری خاکہ بنانے کی کوئی صورت نکل آئے۔

’ریلو کٹے‘ کی اصطلاح کچھ عرصے سے کافی استعمال ہونے لگی ہے اور شاید اعلیٰ ترین حاکم بھی اس کا استعمال کرتے رہتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس اصطلاح کو استعمال کرنے والوں میں اکثر لوگ اس کے پس منظر سے نا واقف ہیں۔یہ اصطلاح پنجاب کے دیہی مویشی پالنے والوں کی طرف سے آئی ہے۔ اصل میں یہ ’ہڑیلو کٹے‘ کی بگڑی ہوئی صورت ہے۔ ’ہڑیلو‘ کا مطلب ہے بلوغت کے قریب پہنچنے والا بھینسا۔ عام طور پر بھینسوں کے بڑے ریوڑوں میں اس طرح کے ’کٹے ‘ ہوتے ہیں جن کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوتی کیونکہ وہ نہ تو بڑے ہو کر دودھ دے سکتے ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی اور استعمال ہوتا ہے۔ یہ ’کٹے‘ بھینسوں سے خوش فعلیاں کرتے رہتے ہیں لیکن جب بھینس ماں بننے کے لئے آمادگی ظاہر کر دیتی ہے تو اُس کے لئے الگ سے ایک مخصوص پلا ہوا نسلی بھینسا استعمال کیا جاتا ہے۔ اب آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ ’ہڑیلو کٹے‘ بے کار قسم کے نئے نئے بالغ ہوئے بھینسے ہوتے ہیں۔

یہ اصطلاح اس لئے ذہن میں آئی کہ جب ستر کی دہائی میں تعلیمی اداروں میں نظریاتی سیاست اپنے عروج پر تھی تو دائیں اور بائیں بازو کے منظم گروہ اپنے آپ کو عام طلباء اور طالبات میں قابل قبول بنانے کے لئے ایسے کرداروں کو سامنے لاتے تھے جو شکل و صورت یا اپنی سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے تھوڑے بہت مقبول ہوں:جہانگیر بدر اور حفیظ خان کو انہی خوبیوں کی بنا پر پنجاب یونیورسٹی انتخابات میں صدارتی امیدوار بنایا گیا تھا۔ انتخابی پالیسیاں، نعرے اور پمفلٹ چھاپنے کا کام تو خود اسلامی جمعیت طلباء اور بائیں بازو کی نیشنلسٹ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (این ایس او ) کرتی تھیں لیکن سامنے قابل قبول چہرے پیش کرتی تھیں۔

مطالعہ اور سوچ بچارسے لیس نظریاتی جنگ لڑنے والوں کی تعداد تو محدود ہی تھی (اور ہر جگہ ایسا ہی ہوتا ہے) لیکن ان کے ایما پر الیکشن لڑنے و الوں سے لے کر نیچے تک بہت لوگ تھے جو ان کے ہمدرد تھے اور مار کٹائی میں ان کا ساتھ دیتے تھے۔ ان ہمدردان کے سرکردہ لوگوں سے لے کر نیچے تک اکثریت سیاسی مطالعے اور غور و فکر سے عاری ہوا کرتی تھی۔ غرض یہ کہ یہ سیاسی ’ریلو کٹے‘ تھے جو طلباء سیاست کے ساتھ موج مستیاں کرتے تھے۔ستر کی دہائی میں اس طرح کے سیاسی ’طالب علموں‘ کی ایک بہت بڑی کھیپ تیار ہو چکی تھی۔ اس کھیپ میں سے جاوید ہاشمی اور جہانگیر بدر جیسے چند تو بالغ ہو کر سیاسی بھینسے بن گئے لیکن ’ریلو کٹوں‘ کی اکثریت ادھر ادھر اپنے کاروباروں میں مصروف ہو گئی۔ ادھر ادھر بھٹکتے ہوئے بھی ان ’ریلو کٹوں‘ کا سیاسی ’ٹھرک‘ قائم رہا اور یہ کسی نہ کسی طرح سے پارٹ ٹائم بنیادوں پر سیاسی خوش فعلیوں میں مشغول رہے۔ دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی ناکامی کے بعد یہ گروہ کسی لیڈر کی تلاش میں تھا جو انہیں عمران خان کی شکل میں مل گیا: اگر آپ تحریک انصاف کے بنیادی نظریاتی گروہ کو دیکھیں تو ان میں کچھ تو اسلامی جمعیت طلباء کے سابقہ ممبر اورہمدرد نظر آئیں گے لیکن ان میں اکثریت دائیں بازو کے ’ریلو کٹوں‘ کی ہو گی۔ ساتھ ہی پیپلز پارٹی کے سابق ریلو کٹے بھی نظر آئیں گے۔

اس پہلو کو مزید واضح کرنے کے لئے ایک واقعہ بیان کرتے چلیں۔ اس واقعے کے راوی اس کار کے ڈرائیور ہیں جن میں بڑے لیڈر، ان کی بیگم اور ایک ’ریلو کٹا‘ سفر کر رہے تھے۔ خواتین کے بارے میں کسی مذہبی مسئلے کے بارے میں لیڈر کلاس کے سوال کے جواب میں ’ریلو کٹے‘ نے جوش و خروش سے جواب دیتے ہوئے بہشتی زیور کا حوالہ دیا۔ مذہبی بحث سے اجتناب کی خاطر زیر بحث مسئلے کو بیچ میں نہ لاتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سوال کا جواب قرآن مجید کی سورۃ النساء میں وضاحت کے ساتھ دیا گیا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ باوجود اسلامی نظام کے حامی کے، ’ریلو کٹے‘ نے قرآن مجید کا بھی کبھی مطالعہ نہیں کیا تھا۔ بہشتی زیور بھی نہیں پڑھا ہوگا اور اس کا حوالہ بھی محض اس لئے دیا گیا ہوگا کہ لیڈر کلاس کے اسے پڑھنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس واقعے کے بیان سے یہ بتانا مقصود تھا کہ آنے والے ان ’ریلو کٹوں‘ کا ذہنی معیار کیا تھا اورہے۔

اب آپ موجودہ حکومت کی مختلف شعبوں میں پالیسیوں اور کارکردگی کا جائزہ لیں تو آپ کو صاف نظر آئے گا کہ اس حکومتی گروہ کے سرکردہ لوگوں (ماسوائے چند جو بعد میں شامل ہوئے)کی ذہنی صلاحتیں محدود ہیں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ ’ایماندار‘ ہوں اور ملک کا بھلا چاہتے ہوں لیکن یہ سب کچھ حکومتی ادارے چلانے کے لئے کافی نہیں ہے۔ اب تو یہ محاورہ بھی وزنی محسوس ہوتا ہے کہ ’’عقلمند دشمن نادان دوست سے بہتر ہوتا ہے‘‘۔ اپنے درجنوں’ریلو کٹے ‘دوستوں کی تشفی کے لئے صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ آجکل امریکہ سمیت اکثر ملکوں میں انہی کے بھائی بندوں کی حکومت ہے۔