شعبہ تعلیم... توجہ سے محروم، توجہ کا طالب

July 07, 2019

ڈاکٹر ذکیہ بتول، کراچی

رسول اکرمﷺ نے فرمایا’’علم حاصل کرو ،ماں کی گود سے قبر کی آغوش تک۔‘‘بلاشبہ علم نور ہے اور جہالت ظلمت کہ علم ہی کے ذریعے انسان جہالت کی تاریکیوں سے شعور کی روشنیوں تک کا سفر طےکرتا ہے۔ دیکھا جائے تو انسان اور حیوان میں فرق تعلیم ہی کی بدولت ہے۔ تعلیم ہی کسی قوم یا معاشرے کی ترقّی کی ضامن ٹھہرتی ہے، مگریہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ علم حاصل کرنے کا مطلب اعلیٰ تعلیمی اداروں سے ڈگریاں لینا ہی نہیں،بلکہ اخلاق و آداب کے اعلیٰ درجے پہ فائز ہونا ہے، تاکہ ایک تعلیم یافتہ شخص، ایک صحت مند معاشرے کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ تعلیم وہ زیور ہے، جس سے انسان کا کردار سنورتا ہے۔ یہ ایسی دولت ہے، جو بانٹنے سے مزید بڑھتی اور صدقۂ جاریہ بن جاتی ہے۔مگر اسے ہماری بد قسمتی ہی کہہ لیجیے کہ پاکستان میںسب سے زیادہ نظر انداز کیے جانے والےشعبوں میں سے ایک، شعبۂ تعلیم ہے۔ ہم جس مذہب کے ماننے والے ہیں،اس کی تو پہلی وحی ہی’’اقراء‘‘ (پڑھو)ہے، لیکن افسوس کہ سات دَہائیاں گزرجانے کے باجود آج بھی ہمارے یہاں شعبۂ تعلیم توجّہ کا محتاج ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ دنیا کی تمام ترقّی یافتہ اقوام علم و ہنر کو زینہ بنا کر ہی بامِ عروج تک پہنچی ہیںاور ہم سے آج تک دُہرے تعلیمی نظام ہی کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکا ۔یہاں امیروں کے لیے الگ معیارِ تعلیم ہے اور غریبوں کے لیے ’’پیلے اسکولز‘‘ جہاں فرنیچر پورا ہوتا ہے، نہ اساتذہ کی حاضری۔چلیں، شہروں میں تو سرکاری اسکولز کا حال پھر کچھ بہتر ہے، لیکن گاؤں، دیہات کے کچھ اسکولز تو باڑوں کا منظر پیش کرتے ہیں، جہاں طلبہ کے ساتھ گائیں، بکریاں، بھینسیںاور مُرغیاں تک نظر آتی ہیں۔ہمارے اپنے گائوں جائیوان، ضلع جھنگ ،سینٹر ل پنجاب میں 1914ء میں ایک پرائمری اسکول قائم کیا گیا تھا، ایک صدی گزرنے کے بعد آج بھی وہ پرائمری اسکو ل ہی ہے، یعنی اُسے اَپ گریڈ کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی گئی ۔ یہ بھی تو ہمارےہی مُلک کا حصّہ ہے، یہاں کے بچّے بھی علم حاصل کرنے کے اُتنے ہی حق دار ہیں، جتنے امیروں کے بچّے، لیکن انہیں اتنی سہولت تک میّسر نہیں کہ وہ گاؤں کے اسکول سےکم از کم میٹرک ہی کرلیں۔

دوسرا المیہ یہ ہے کہ ہم نے مُلک کے لیے کوئی اقتصادی ،معاشی ، علمی اور تحقیقی منصوبہ بندی نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ شہروں کے اسکولز، کالجز اور یونی وَرسٹیز میں جوطریقۂ تعلیم رائج ہے،وہ صحیح معنوں میں قابل، صلاحیّت، ہنر مند نوجوان تیار کرنے میں ناکام ہے۔لیکن صاحبِ اقتدار آنکھوں پر ’’سب اچھا ہے‘‘ کی عینک لگائے بیٹھےہیں،جب کہ عملی طور پرپاکستان کا کم وبیش ہر شعبہ تنزّلی کا شکار ہے۔ وقت کی اہمیت کے پیشِ نظر ہمیں اپنے ملک کی معاشی ،اقتصادی ، سماجی اور معاشرتی ترقّی کے لیے اسکولز، کالجز اور یونی وَرسٹیز میں مروّجہ طریقۂ تدریس کو حقیقی معنوں میں تبدیل کرنا ہوگا۔اس میں تحقیق ، جدید نظامِ تعلیم اور نِت نئی تعمیری ترغیبات شامل کرنی ہوں گی کہ یہ تعلیم اور جدید ٹیکنالوجی ہی کا کمال ہے کہ دنیا کے بیش تر ممالک اپنی ملکی معیشت کو بہتر سے بہترین بناچکے ہیں۔ آج وہی قومیں ترقی کررہی ہیں، جنہوں نے روایتی شعبوں کے علاوہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعلیم عام کی اور اس ضمن میں سرمایہ کاری بھی کی۔ یورپی ممالک تو ایک طرف، ملائشیا، سنگا پور جیسے ممالک بھی صرف تعلیم اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ترقّی کی بنیاد پر دنیا میں اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔یاد رکھیے! تعلیم شائستگی کا درس دیتی ہے، اسی کے سہارے اقوام اپنی پہچان بنا تی ہیںاور یہی دنیا میں ان کی عزّت و تکریم کا باعث بنتی ہے۔ سو، جب تک ہم اپنے نظامِ تعلیم میں جدّت نہیں لائیں گے، تب تک ترقی یافتہ اقوام کی صف میں اپنی جگہ کبھی نہیں بنا سکیں گے۔ ہمیں اپنے نظامِ تعلیم سے ان کم زوریوں، کوتاہیوں کو دُور کرنا ہوگا، جو ہمارے معاشرے کی ترقّی کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہو رہی ہیں۔ ہمیں کوشش کرنی ہوگی کہ غیر منصفانہ، دُہرے نظامِ تعلیم کاخاتمہ کیا جائے، امیر ہو یا غریب تعلیم اور آگے بڑھنے کے مواقع سب کو یَک ساںطور پرمیّسر آئیں۔اور یہ سب تب ہی ممکن ہوگا، جب تعلیم کو اوّلین ترجیحات میں شامل کیا جائےگا، بجٹ کا معقول حصّہ اس مَد میں خرچ ہوگا۔ اور سب سےاہم یہ کہ متعلقہ محکموں اور عہدے داران پر کڑی نظر رکھی جائے گی کہ وہ اپنی ذمّے داریاں ادا کرنے میں کوئی کوتاہی تو نہیں برت رہے۔