کب تک لڑیں گے یہ دو ہمسائے

February 01, 2013

جب سے ہندوستان، پاکستان آزاد ہوئے ہیں، ساس بہو کی طرح لڑائی ہر چوتھے دن جاری رہتی ہے۔ دو دن سکون کے، محبت کے، ویزوں میں آسانیوں کے ملتے ہیں، تیسرے دن یا تو پاکستان کی طرف سے کچھ ہو جاتا ہے یا پھر ہندوستان کی طرف سے۔1965ء سے پہلے اچھا بھلا ہندوستان کے ادیبوں کا پاکستان آنا جانا تھا۔ جگر صاحب اور خمار صاحب مشاعروں میں حصہ لیتے تھے، جوش صاحب اور حفیظ جالندھری کے ساتھ مشاعرے پڑھا کرتے تھے۔ ہندوستان کی فلمیں لگا کرتی تھیں اور ہم سب دیکھتے تھے۔ 65ء کی جنگ نے ایسی گرہ ڈالی کہ دونوں طرف کے فوجوں کی ہمتوں کے پول کھل گئے۔ سیز فائر کے لئے وہی پوت، دونوں جانب سے ترلے لینے لگ پڑے کہ کسی کے یہاں ٹینکوں میں پٹرول ختم ہو گیا تھا اور کسی کے فوجی اب مزید آگے بڑھنے سے گریزاں تھے کہ بڑی طاقتوں نے منع کر دیا تھا۔ جنگ بند ہوئی اور دونوں ملکوں میں پاسپورٹ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ وہ سکون واپس نہیں آیا جو پہلے تھا۔ دونوں ملکوں میں تناؤ بڑھتا گیا۔ اس کا انجام 1971ء میں ڈھاکہ میں دیکھنے میں آیا کہ ہندوستانی فوجوں نے مکتی باہنی کے ساتھ مل کر ، مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنوا دیا تھا۔ اس میں قصور ہماری اس فوجی قیادت کا بھی تھا جو ہر لمحہ سرور کے عالم میں کہہ رہے تھے کہ ہماری لاشوں پر سے گزر کر بنگلہ دیش الگ ملک بن سکتا ہے۔ یہ الگ بات کہ 1971ء کے آخری چند ماہ میں پاکستانی افواج نے بھی بنگالیوں کے ساتھ وہ ظلم کا برتاؤ کیا تھا جسے وہ آج تک بھلا نہیں سکے ہیں۔ پاکستانی سول سوسائٹی کی جانب سے ان مظالم پر معافی مانگنے کے باوجود ابھی تک بنگالی پاکستان سے محبت نہیں کر سکے ہیں۔ شملہ معاہدہ ہو کہ پاکستانی فوجوں کو ہندوستان کی قید سے واپس لانے کا مرحلہ اور فیض صاحب کا کہنا کہ ”خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد“ بنگلہ دیش میں نفرت کا یہ عالم کہ ایک بنگالی پروڈیوسر نے فلم میں پاکستانی میجر سے ایک بنگالی لڑکی کا عشق دکھایا۔ وہ فلم سینما ہاؤسز میں نہیں لگانے دی گئی اور اب تک دونوں جانب سلگتے ہوئے تعلقات ہیں جبکہ امریکہ کی ساری اذیتوں کے بعد آج آپ ویتنام جائیں تو سب سے زیادہ غیر ملکی امریکی نظر آتے ہیں۔ پتہ نہیں یہ حوصلہ پاکستان، بنگلہ دیش اور ہندوستان میں نہیں ہے۔
1994ء میں ان نفرتوں کو ختم کرنے کے لئے، ڈاکٹر مبشر حسن نے پاک انڈیا دوستی کی انجمن بنائی۔ دونوں طرف کے لوگوں سے پوچھا کہ چلو گے، یقین جانیں سیکڑوں کیا ہزاروں لوگ دونوں جانب سے آنے جانے کے لئے تیار نظر آئے۔ سفارشیں کرائیں کہ مجھے لے چلو، مجھے لے چلو۔ ابھی یہ منظر پختہ نہیں ہوا تھا کہ اجیت کور نے سارک رائٹرز کانفرنس کا ڈول ڈالا۔ دونوں ملکوں کی وزارت داخلہ نے سوچا یہ ادیب بھلا کیا کر سکتے ہیں ان کو ویزا دے دو مگر یہ لاڈ ایک دو سال تک ہی چلا۔ اب یہ عالم ہے کہ جب بھی دعوت نامے کے باوجود، ویزا مانگو تو بجلی کا بل، پولیس کا کیریکٹر سرٹیفکیٹ اور نہ جانے کیا کیا تفصیل مانگی جاتی ہے۔ بڑی مشکل سے آٹھ دن کا ویزا ملتا ہے۔ ان کانفرنسوں کے درمیان پھر تنازع اٹھ جاتا ہے۔ کبھی انڈین پارلیمینٹ پر حملہ کرنے کا الزام پاکستانیوں پر بلا سوچے سمجھے لگا دیا جاتا ہے اور کبھی ممبئی حملے کا، جب کہ یہ تصدیق ہو چکی ہے کہ اس حملے کا ماسٹر مائنڈ ایک امریکی تھا جس کو سزا بھی دی جا چکی ہے۔ اسی دوران ہندوستان کی رجعت پسند جماعتیں سمجھوتہ ایکسپرس کو ایسے آگ لگاتی ہیں کہ بوگیوں کی بوگیاں اور ان میں بیٹھے معصوم مسافر جل جاتے ہیں۔ اب جب کہ ہندوستان کے وزیر خارجہ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ ہندوستان میں بھی دہشت گردوں کو تر بیت دی جاتی ہے ۔ کشمیر کی سرحدوں پہ لڑائی شروع کر دی جاتی ہے۔ اس میں دونوں طرف کی رجعت پسند قوتیں شامل ہوتی ہیں۔ ان کی تمام تر کوشش یہ ہوتی ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین امن نہ ہونے پائے۔ نتیجہ کیا ہوا کہ وہ جو طے ہو چکا تھا کہ 65 سال کی عمر سے زائد لوگوں کو بارڈر پر ویزا مل جایا کرے گا وہ معاہدہ پس پشت ڈال دیا گیا اور سرحدوں کی معمولی جھڑپوں کو خوب اچھالا گیا۔ ہندوستان کی رجعت پسند قوتیں خوب سر اٹھا رہی ہیں۔ پہلے کہا کہ عورتوں کی کرکٹ میں پاکستان کی شمولیت نہیں ہونے دیں گے ۔ حکومت نے ڈر کر وہ میچ اڑیسہ میں کرانے کا اہتمام کر لیا۔ اب بی جے پی نے دھمکی دی او کہا پاکستانی مصنفین جے پور کے ادبی میلے میں شرکت نہ کریں ورنہ برا سلوک ہو گا۔ اس میلے میں دنیا بھر کے ادیب آتے ہیں ان پہ کوئی اعتراض نہیں ہے، اعتراض ہے تو پاکستانی ادیبوں پر ہے۔
ایک اور آنکھیں کھولنے والی حرکت ہو رہی ہے۔ پہلے صرف پاکستانی فوجی جو کہ حکومتوں کے سربراہ خود بخود بن جاتے تھے وہی بولا کرتے تھے اس کا جواب ہندوستان کے سیاست دان دیا کرتے تھے۔ گزشتہ دو سالوں سے یہ دیکھنے اور سننے میں آرہا ہے کہ ہندوستان کے جرنیل کو بھی زبان لگ گئی ہے اور وہ بھی سیاسی بیانات دے رہے ہیں۔ اس سے فائدہ، دونوں ملکوں کے عوام کو تو نہیں ہوگا۔ کشمیر کی بس سروس بند ہونے سے دونوں ملکوں کے مسافر دونوں طرف لٹکے ہوئے ہیں اس طرح مونا باؤ ٹرین جو راجستھانیوں اور سندھ کے رہنے والوں کو لے کر جاتی تھی وہ بھی کھٹارے میں پڑ گئی ہے۔ بس ایک سلسلہ جاری ہے۔ ہماری وزارت خارجہ ان کے سفیر کو اور ہندوستان کی وزارت خارجہ ہمارے سفیر کو بلا کر دھمکیاں دیتی رہتی ہے۔ یہ دونوں ہمسائے آخر کب تک لڑتے رہیں گے۔ اب ہماری طرف سمجھ بوجھ والا جرنیل موجود ہے تو ادھرغصہ دلانے والا جرنیل ہے۔ معاف کرو ان دونوں قوموں کو اور امن و انسانیت کے ساتھ رہنا سیکھ لو۔