خاندانی لوٹے

July 19, 2019

سیاست اور وزارت تو ہمیشہ سے ہمارے گھر کی لونڈی رہی ہے، سامنے بیٹھا میرا سیاستدان دوست بڑے فخر سے اپنی خاندانی سیاست کے حوالے سے بتا رہا تھا۔ اب سے پچاس برس قبل میرے ابا جی ایک آمر کی حکومت میں بطور وزیر خدمات انجام دے چکے ہیں لیکن جب انہوں نے محسوس کیا کہ آمر حکمراں کی حکومت اور ملک پر سے گرفت کمزور ہو رہی ہے تو پھر انہوں نے پاکستان میں جمہوریت کا نعرہ بلند کرنے والوں کا ساتھ دیا اور منٹوں میں آمریت کے دفاع سے آمریت کی مخالفت کرنے والوں میں شامل ہو گئے۔ ایک سیاستدان جو پہلے ابا کے ساتھ ہی آمر کی کابینہ میں وزیر تھے ان کی جانب سے قائم کی جانیوالی سیاسی جماعت میں شامل ہو گئے، تھوڑی سی جدوجہد کے بعد اس جماعت کی ملک میں حکومت قائم ہوئی اور ابا جی کے دوست ملک کے وزیراعظم بنے اور ابا جی سابق آمر حکمراں کو برا بھلا کہتے ہوئے جمہوری حکومت میں بھی وزیر کے طور پر شامل ہو گئے۔ چند سال پھر وزارت کے مزے لئے لیکن ابا جی کی دور رس نگاہ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کے دوست اور ملک کے وزیراعظم جمہوری حدود کو پھلانگتے ہوئے ایک ممنوعہ حد سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں لہٰذا ابا جی نے ایک زیرک سیاستدان کی طرح اپنے آپ کو آگے جانے سے روک لیا اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، ملک میں جمہوری حکومت کا خاتمہ ہوا اور جمہوری وزیراعظم قید ہوئے اور پھر مقدمہ ہوا اور پھر پھانسی، ملک میں ایک دفعہ پھر آمریت آچکی تھی لیکن آمریت میں بھی نظامِ حکومت کو کسی نہ کسی کو چلانا ہوتا ہے اور ابا جی ایک دفعہ پھر آمر کی دعوت پر حکومت میں شامل ہوئے اور وزیر بنے۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ اچانک ایک حادثے نے آمر کی جان لے لی۔ ملک میں ایک بار پھر جمہوریت کا پودا لگایا گیا اور ملک میں ابا جی کے مرحوم دوست کی بیٹی کی حکومت قائم ہو گئی کیونکہ ابا جی کی خاندانی سیٹ تھی اور کسی میں ہمت نہ تھی کہ وہ ابا جی کو ان کے علاقے سے شکست دے پاتا لہٰذا ابا جی الیکشن میں کامیاب ہوئے، ابا جی ایک با ر پھر جمہوری حکومت میں شامل ہوئے اور ماضی کی طرح وزارت پھر ان کے گھر کی لونڈی بنی لیکن یہ زمانہ بڑا خراب گزرا، حکومت اور اپوزیشن میں لڑائی عروج پر رہی اور حکومت دو سال کے اندر ہی گرا دی گئی اور پھر پنجاب سے نئی حکومت قائم ہوئی، ابا جی تو پہلے ہی اپنی حکومت سے نالاں تھے لہٰذا جب دوبارہ انتخاب ہوئے ابا جی حسبِ روایت اپنی سیٹ جیت گئے اور نئی حکومت میں شامل ہو گئے لیکن اب ابا پارٹیاں بدل بدل کر تھک چکے تھے اور سب انہیں لوٹا لوٹا کے طعنے دینے لگے۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ جس طرح پارلیمنٹ میں سلیکٹڈ کہنے پر پابندی عائد کی گئی ہے اسی طرح لوٹا کہنے پر بھی پابندی عائد کی جانا چاہئے، بات یہ نہیں ہے کہ ابا کو لوگ لوٹا لوٹا کہتے ہیں ابا کو تو سیاست چھوڑے ہوئے عرصہ گزر گیا ہے بات تو اب مجھ پر اور مجھ سمیت بہت سوں پر آگئی ہے کیونکہ ابا جی کے بعد میں ایک آمر کے دورِ حکومت میں الیکشن جیت کر سیاست میں آیا۔ آمر کی چھتری میں چلنے والی جمہوریت بھی خوب ہوتی ہے ہم نے بھی خوب مزے کیے پھر ایک وقت آیا کہ ملک میں مکمل جمہوریت لانے کا فیصلہ کیا گیا تو والدکے مرحوم دوست کی مرحوم بیٹی کی پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اس پارٹی سے تو ہمارا دلی اور خاندانی لگائو تھا لہٰذا تانے بانے بنے گئے اور علانیہ میں اس پارٹی میں شامل ہوا یہاں بھی وزارت نصیب میں آئی، میری وزارت نے بہترین کارکردگی بھی دکھائی لیکن مجھے مستقبل کی فکر تھی یہاں جیسے تیسے وقت پورا کیا اور اگلے الیکشن میں حکومت تبدیل ہوئی تو میں نے بھی پارٹی تبدیل کرنے کے لئے ہاتھ پیر مارے اور جلد ہی نئی حکومت میں قبولیت ہوئی لیکن اس دفعہ نہ وزارت اچھی ملی نہ کام کرنے کی آزادی جبکہ وزیراعظم نے بھی سختی دکھائی ہوئی تھی۔ میں تو سابقہ حکومت کے پہلے چند ماہ سے ہی چاہتا تھا کہ یہ حکومت زیادہ نہ چل سکے لیکن وزارت نے منہ بند کر رکھا تھا پھر چار سال بعد وزیراعظم اترا اور پانچ سال بعد حکومت اور اس کے فوراً بعد نئے انتخابات ہوئے۔ معاملات طے ہوئے اور میں لوٹے لوٹے کے شور میں نئی حکومت میں وزیر بن چکا ہوں لیکن اب سوشل میڈیا بہت تیز ہو چکا ہے اور اس میڈیا کی کوئی لگا م بھی نہیں ہوتی جس کا جو دل چاہے کہہ سکتا ہے۔ کوشش ہے کہ سوشل میڈیا کو سرکاری کنٹرول میں لاکر اس کی آواز کو لگام دی جا سکے تاکہ ہماری خاندانی وزارت کو سوشل میڈیا سے گزند نہ پہنچے۔ آپ سب بھی سوچ رہے ہونگے کہ میں کس سیاستدان کی بات کررہا ہوں، ان کی عزت کا پاس کرنا اور ان کا نام صیغہ راز میں رکھنا میرے فرائض منصبی میں شامل ہے اور ویسے بھی یہ اس کی محبت ہے کہ اس نے مجھے اپنی خاندانی لوٹا گری کے حوالے سے کھل کر بتادیا ورنہ پوری قوم جانتی ہے کہ ہمارے ملک میں کون کون لوٹا ہے۔