سابق فاٹا میں بُلٹ سے بیلٹ تک کا سفر

July 22, 2019

قبائلی علاقوں کے لوگوں کیلئے بُلٹ سے بیلٹ ( گولی سے ووٹ) تک کا سفر اتنا آسان نہیں تھا۔ قبائلی علاقوں کے انضمام کے بعد پہلی بار خواتین سمیت 28لاکھ ووٹرز نے خیبر پختونخوا اسمبلی کی 16 نشستوں کیلئے ووٹ ڈال کر جمہوری تبدیلی کے تاریخی عمل میں حصہ لیا۔آزادی کے بعد بھی ان کی جدوجہد ختم نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے 70 سال ایف سی آر کے کالے قانون کے تحت گزارے۔ کسی کے پاس اس بات کا جواب نہیں ہے کہ انہیں پاکستانی قوانین اور عدالتوں کے تحت آنے میں اتنا عرصہ کیوں لگا۔ ہفتہ کے انتخابات سابق فاٹا کے عوام کے خواب کی تعبیر تھے۔ یہ کسی اور کے کریڈٹ لینے کا نہیں، قبائلی عوام کو ان کی جدو جہد کا کریڈٹ دینے کا وقت ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں پہلے عام انتخابات 25سال بعد 1970میں ہوئے، پہلا متفقہ آئین 1973 میں منظور ہوا اور پہلی بار پرامن انتقال اقتدار 66 برس بعد ہوا، قبائلی علاقوں کے عوام کا 71 سال بعد مین سٹریم میں آنا حیران کن نہیں ہے۔ شرم کی بات یہ ہے کہ ہمیں ان لوگوں پر جو ہمیشہ اس ملک کا حصہ تھے، پاکستان کے قوانین اور نظام نافذ کرنے میں سات عشرے لگ گئے۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان جیسے علاقے جو ماضی میں دنیا بھر میں دہشت کے گڑھ سمجھے جاتے تھے، اب کسی دہشت گردی اور گڑ بڑ کے بغیرپرامن انتخابات کیلئے سراہے جارہے ہیں۔ گزشتہ سات دہائیوں میں اگر وہ پاکستانی قانون اور نظام کے تحت ہوتے تو ، ان مصائب سے نہ گزرے ہوتے ، جن سے وہ گزرے ،ان کے بزرگوں سے ایف سی آر اور پولیٹیکل ایجنٹوں کے ذریعے نہ نمٹا گیا ہوتا۔ نائن الیون کے بعد بڑی ہونے والی نسل نے صرف تشدد، دہشتگردی اور ان کی حکومت دیکھی جنہیں اس کا حق نہیں تھا۔ بچے سکول کالج نہیں گئے اور ان کے پاس دہشت کے قانون کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ لیکن ہفتہ کے روز پاکستانیوں نے ان قبائلیوں کو بالکل مختلف انداز میں دیکھا۔ بوڑھے ،جوان، عورتیں مرد سب ووٹ ڈالنے کیلئے قطاریں بنائے کھڑے تھے۔یہ صحیح ہے کہ ماضی میں بھی فاٹا سے ایم این اے منتخب ہوتے رہے ہیں۔ لیکن وہ قومی اسمبلی میں جن قوانین کے حق میں ووٹ دیتے رہے ، وہ ان کے اپنے علاقے میں نافذ نہیں ہوتے رہے۔ انضمام دہشتگردی کے خلاف بامقصد آپریشن تک ممکن نہیں تھا۔ فوجی ایسٹیبلشمنٹ نے ان علاقوں کو دہشتگردی سے پاک کرنے کا فیصلہ کیا اور سیاسی قیادت نے اس کا ساتھ دیا۔ 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے پہل کی اور اے این پی کی صوبائی حکومت نے اس کا ساتھ دیا ۔ فوج نے سوات، جنوبی وزیرستان اور مالاکنڈ کے علاقے کلئیر کرالیے۔ اسی دور میں این ڈبلیو ایف پی کا نام خیبر پختونخوا رکھا گیا۔ 2013 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی اور آرمی چیف کے طور پر جنرل اشفاق پرویز کیانی کی جگہ جنرل راحیل شریف نے لی تو انہوں نے شمالی وزیرستان میں فیصلہ کن آپریشن کا فیصلہ کیا۔لیکن وزیراعظم نواز شریف اور وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نے خود اور پی ٹی آئی اور مذہبی جماعتوں کے دباؤ کی وجہ سے امن اور بات چیت کو ایک موقع دینے کا فیصلہ کیا۔ طالبان سے مذاکرات کی ناکامی کے بعد فوج نے مکمل آپریشن شروع کردیا۔ آرمی پبلک سکول پشاور میں بچوں کے قتل عام کے بعد اس میں شدت آگئی۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ اس خوفناک واقعے کے بعد عمران خاں کی سوچ بھی بدل گئی اور انہوں نے آپریشن کی مکمل حمایت کا فیصلہ کیا۔ جمہوریت بہترین انتقام ہے کا نعرہ بالآخر درست ثابت ہوا۔ تمام قبائلی علاقے پرتحریک طالبان، القاعدہ وغیرہ جیسے ممنوعہ گروپوں کی دہشتگردی مسلط رہی، ہزاروں لوگ، سویلین اور غیر سویلین، سیاسی اور غیر سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے کارکن اور صحافی مارے گئے۔ ہفتہ کے روز اس علاقے میں خواتین نے بھی ووٹ ڈ النے کیلئے نکل کر تاریخ بنادی۔ دو نے تو عام نشستوں پر الیکشن بھی لڑا۔ ایک جماعت اسلامی اور دوسری اے این پی کی امیدوار تھیں۔ اب پانچ خواتین مخصوص نشستوں کیلئے بھی نامزد کی جائیں گی ۔سولہ براہ راست منتخب ارکان کے ساتھ ان کی خیبر پختونخوا اسمبلی کی رکنیت کی حلف برداری ایک نئے جمہوری دور کا تاریخی آغاز ہوگا۔ پاکستان تحریک انصاف کے نو سے بارہ نشستیں حاصل کرنے کی توقع تھی۔