سب کچھ ہی اُلٹ ہوا

July 25, 2019

پہلے پروٹوکول کی بات کر لیں، امریکی دورے چار قسم کے، پہلا اسٹیٹ وزٹ، اس کی دعوت صرف ہیڈ آف اسٹیٹ مطلب سربراہ مملکت کو، اس میں ایئر پورٹ سے ایئر پورٹ تک مکمل پروٹوکول، 21توپوں کی سلامی اور بہت کچھ شامل، پاکستان کی 71سالہ تاریخ میں ایوب خان کو دو مرتبہ، جنرل ضیاء الحق کو ایک مرتبہ اسٹیٹ وزٹ کی دعوت دی گئی۔ دوسرا، آفیشل وزٹ، 19توپوں کی سلامی، ایئر پورٹ سے ایئر پورٹ پروٹوکول، پاکستانی تاریخ میں لیاقت علی خاں، حسین شہید سہروردی، محمد خان جونیجو، بینظیر بھٹو، پرویز مشرف کو آفیشل وزٹ کی دعوت دی گئی۔ تیسرا، آفیشل ورکنگ وزٹ، ایئر پورٹ پروٹوکول ضروری نہیں، امریکی صدر سے ملاقات، وفود کی سطح پر مذاکرات، کھانا، اب تک بھٹو صاحب، بینظیر بھٹو، ظفر اللہ جمالی، یوسف رضا گیلانی، آصف زرداری، شوکت عزیز، نواز شریف، صدر مشرف آفیشل ورکنگ وزٹ کر چکے۔ چوتھا، پرائیویٹ وزٹ، یہ ذاتی نوعیت کا دورہ، اس میںاعلیٰ حکام،امریکی صدر سے ملاقات بھی ممکن ہو جائے، وزیراعظم عباسی کا وہ پرائیویٹ وزٹ ہی تھا جس میں امریکی ایئر پورٹ پر انہیں کوٹ، بیلٹ، جوتے اتارنا پڑے، باقی گیلانی صاحب نے امریکہ جا کر کیا شکایتیں لگائیں، جمالی صاحب کیوں کلنٹن سے علیحدگی میں ملنا چاہتے تھے، نواز شریف کی بلیئر ہاؤس میں رہنے، اوباما کے ساتھ خاندانی تصویریں کھنچوانے جیسی ضدوں سمیت بہت کچھ، پھر کبھی سہی۔

عمران خان کا یہ آفیشل ورکنگ وزٹ تھا، اگر پاکستانی دفتر خارجہ محنت کر لیتا تو ایئر پورٹ پر دوسرے، تیسرے درجے کے عہدیدار لینے آجاتے، یہ نہیں ہوا، لہٰذا اپنے لوگوں نے ہی استقبال کیا، ویسے باتیں بنانا، کیڑے نکالنا تو بہت آسان لیکن کسی دن اپنے سربراہوں کے 42دورے نکال کر دیکھ لیجئے گا، کس کو ایئر پورٹ پر کون لینے، کون چھوڑنے آیا۔ اب آجائیں اس دورے پر، عمران خان وائٹ ہاؤس پہنچے، وہ ہوگیا جو وہم و گمان میں بھی نہ تھا، ایسا استقبال، ایسی گرم جوشی، یہ ٹرمپ آؤ بھگت، سب کچھ اس لئے زیادہ لگ رہا، اس کی توقع نہ تھی، پاکستان میں ہر ایرا غیرا جسے کٹھ پتلی، سلیکٹڈ، ناکام خان کہہ رہا تھا، اسے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر عظیم قیادت، پاکستان کا مقبول ترین وزیراعظم، طاقتور اور سخت جان رہنما کہہ رہا تھا، وزیراعظم عمران خان بھی وائٹ ہاؤس میں اچھا بولے، باقی چھوڑیں، کشمیر، کشمیریوں کی ایسی ترجمانی کہ حریت رہنما سید علی گیلانی کا یہ کہہ دینا ’’عمران خان پہلا لیڈر، جس نے نہتے کشمیریوں کیلئے آواز اٹھائی‘‘، وزیراعظم کی سادگی، بچت، شلوار، قمیص، واسکٹ اور کپتانی چپل پہن کر وائٹ ہاؤس جانا، یہ سب سونے پہ سہاگہ۔

ویسے وقت، حالات کتنی جلدی بدل جاتے ہیں، جو ٹرمپ کل ٹویٹ کر رہا تھا کہ ’’پاکستان کو 32ارب ڈالر امداد دی، جواباً دھوکے ملے‘‘، وہی ٹرمپ عمران خان سے کہہ رہا تھا، امداد کی بحالی ممکن، تجارت 12سے 20گنا بڑھائیں گے، جو ٹرمپ کل کہہ رہا تھا ’’پاکستان کو سبق سکھانے کا وقت آگیا‘‘، وہی ٹرمپ ’’تھینک یو مسٹر پرائم منسٹر‘‘ کا خط بھجوا کر عمران خان کو اپنے پاس بٹھا کر کہہ رہا تھا ’’نہ صرف بہتر تعلقات چاہتے ہیں بلکہ کشمیر پر ثالثی کرنے، پاک بھارت تعلقات بہتر بنانے کیلئے بھی تیار ہیں‘‘، وہ ٹرمپ جسے پاکستان کا نام سنتے ہی اٹھارہواں گیئر لگ جاتا تھا، وہی ٹرمپ کہہ رہا تھا کہ اتنا پاکستان نے 18برسوں میں نہیں کیا، جتنا 6ماہ میں کر دیا۔

بلاشبہ ٹرمپ کو عمران خان کی ضرورت، 2020میں امریکی صدارتی الیکشن، ٹرمپ الیکشن مہم شروع کر چکا، ٹرمپ کا امریکیوں سے وعدہ، افغانستان میں ڈیڑھ ٹریلین ڈالر، 17سال، ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہو چکیں، بس بہت ہو گیا، میں افغانستان سے اپنی فوج واپس بلوا لوں گا مگر فاتح بن کر، پُرامن افغانستان کے بعد، صدر ٹرمپ اگر یہ کر گئے تو اگلا الیکشن جیتنا آسان، یہ پاکستان کی مدد کے بغیر ناممکن، ظاہر ہے اپنے مفادات کیلئے ٹرمپ مہربان، یہی وقت ہمیں اپنے مفادات پر فوکس کرنے کا کیونکہ آج کی دنیا کے سب رشتے مفادات پر۔

تبدیلی سرکار کے ساڑھے 11ماہ، داخلی محاذ مایوسی، خارجی محاذ، کرتار پور راہداری، یو اے ای تعلقات بحالی، قطر، سعودی عرب سے تعلقات میں بہتری، چین سے سی پیک معاہدوں پر نظر ثانی، دوست ممالک سے قرضہ، ادھار تیل، آئی ایم ایف پیکیج، پاک بھارت کشیدگی میں پاکستانی امن مؤقف کی پذیرائی، ابھینندن رہائی، دورۂ امریکہ، لاجواب کارکردگی، لیکن یاد رہے کرتار پور راہداری سے وائٹ ہاؤس تک جس طرح فوج نے حکومت کو ہر امتحان، مشکل گھڑی، نازک لمحوں میں ریسکیو کیا، جس طرح سول، ملٹری قیادت ایک پیج پر وہ بے مثال۔

چونکہ صدر ٹرمپ، وزیراعظم عمران خان سے کافی کچھ ملتا جلتا، جیسے دونوں غیر روایتی سیاستدان، دونوں پل میں تولہ پل میں ماشہ، دونوں انتھک، مضبوط قوت ارادی والے، دونوں نے اپنی دنیا خود بنائی، دونوں کی زندگیاں ناکامیوں، کامیابیوں سے بھری پڑیں، دونوں کی ذاتی زندگیوں میں شادیاں، علیحدگیاں، تعلقات، اسکینڈلز، دونوں کی پسند ناپسند بہت مضبوط، دونوں نے خود سے مضبوط لوگوں کو ہرایا، دونوں کے الیکشن الزامات کی زد میں، ٹرمپ پر روسی، عمران خان پر اسٹیبلشمنٹ کی مدد کا الزام، دونوں کی کامیابیوں میں میڈیا، سوشل میڈیا کا بہت کردار، دونوں اب میڈیا سے تنگ، دونوں سیاسی مخالفوں کا قبر تک پیچھا کرنے پر یقین رکھیں، دونوں ٹویٹر کے بادشاہ، دونوں اپنی کہی باتوں سے مکرنے میں ایک لمحہ نہ لگائیں، دونوں جب چاہیں جھوٹ بول جائیں، دونوں کی زبان کبھی بھی کہیں بھی چل پڑے، دونوں تاریخ ساز کہلانے، انقلاب لانے کے خواہاں، دونوں پر مقدمے بنے، دونوں نااہل ہوتے ہوتے بچے، لہٰذا دونوں کے تعلقات کی گاڑی چل پڑی تو پھر یہ رکنے والی نہیں۔

بھارت نے حسب معمول مقبوضہ کشمیر پر ٹرمپ ثالثی سے انکار کر دیا، پونے دو ارب انسان، یہ خطہ اتنا خوش نصیب کہاں لیکن بھارت میں جتنا غم و غصہ ٹرمپ پر اتارا جا رہا، ٹرمپ، عمران ملاقات پر جو واویلا، کہرام بھارت میں مچا ہوا، جو بے بسی، مایوسی وہاں، اس سے یہ یقین ہو جائے کہ ٹرمپ، عمران ملاقات کامیاب رہی، آخر میں، امریکی صدر کا یہ کہنا کہ ’’عمران خان کرپشن کے خلاف جنگ جیت جائیں گے، اگر چاہیں تو میں بھی مدد کر سکتا ہوں‘‘ ان جملوں نے تو اپنے ہاں صفِ ماتم بچھا دی، یہاں تو توقع یہ کی جا رہی تھی کہ اپوزیشن کیسوں کا ذکر آتے ہی ٹرمپ صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ جائیں گے، وہ گلوگیر لہجے میں عمران خان سے کہیں گے اگر مجھ سے کچھ لینا، امریکہ سے تعلقات رکھنے، تو ان معصوموں، بے گناہوں کو باعزت رہا کرو مگر بات وہی، اس بار وائٹ ہاؤس میں جو ہوا، توقعات کے اُلٹ ہی ہوا۔