چھوٹی یا بڑی.... عید خوشی کا استعارہ ہے

August 11, 2019

ڈاکٹر عزیزہ انجم،کراچی

زندگی کے یک ساں سے شب و روز کے درمیان نیا چاند کبھی عیدالفطر،تو کبھی عیدالاضحی کی نوید لیے آسمان کے کسی کونے پر نمودار ہوتا ہے اور ایک اَن کہی سی مسرت کا احساس بکھیر دیتا ہے۔ لوگ عموماً عیدالاضحی کو ’’بڑی عید‘‘ کہتے ہیں اور شاید اسی لیے اس موقعے پر مصروفیات بھی کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہیں۔ اللہ کے نام پر جانور کی قربانی کا یہ تہوار، اس بات کی علامت ہے کہ مسلمان اپنے ربّ کی خوشی کے لیے بڑی سے بڑی اور اپنی پسندیدہ ترین چیز بھی قربان کرسکتا ہے۔ عیدالاضحی ایک ایسے خاندان کی قربانیوں کی یادگار ہے، جس نے حکمِ ربّی پر گھر، جان اور مال کی قربانی سے قطعاً دریغ کیا، نہ اِک لمحے کی تاخیر اور حیل و حجّت۔ اللہ کے جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک اللہ کی وحدانیت کے اقرار میں آگ میں ڈالے جاتے ہیں، مگر آگ اللہ کے حکم سے ٹھنڈی ہوکر گلستان بن جاتی ہے ۔حضرت ابراہیمؑ اللہ ہی کے حکم سے اپنا مُلک فلسطین چھوڑتے ہیں اور مکّہ کی بے آب و گیاہ وادی میں بیوی اور بیٹے کو چھوڑ کر دعوتِ دین کے لیے نکل جاتے ہیں۔ پھر ربِّ کعبہ خواب کے ذریعے اپنے مخلص بندے کو نوجوان بیٹا قربان کرنے کا حکم دیتے ہیں، تو حضرت اسماعیل علیہ السلام اللہ کے حکم پر سرِتسلیمِ خم کرتے ہیں۔ باپ، بیٹے کی قربانی رب کی بارگاہ میں مقبول ہوتی ہے اور اس کے بعد رہتی دُنیا تک ایک اللہ کے ماننے والوں کو قربانی کی یاد میں جانور ذبح کرنے کا حکم ملتا ہے۔

عیدالاضحی کے تین دِن مسلمانوں کو خوشی منانے، قربانی کرنے اور ایک دوسرے کو اس خوشی میں شریک ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔ حکم ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصّے کیے جائیں۔ ایک اپنے لیے، ایک عزیزواقارب اور ایک معاشرے کے غریب غرباء کے لیے۔اس ضمن میں صاحبِ حیثیت لوگوں کا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ کم آمدنی والے لوگوں کی محرومیاں دَور کریں اور انہیں بھی اس نعمت سے مستفید ہونے دیں، جو اللہ نے انہیں عطا کی ہے۔ یاد رکھیے، نمود و نمایش سے پرہیز اور اللہ کے لیے نیّت خالص کیے بغیر نیک عمل ادھورا رہتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ بڑے جانور کی قربانی کے باوجود بھی گوشت تقسیم کرتے وقت دِل تنگ ہوجاتے ہیں اور فریزر بَھر جاتے ہیں۔ خدارا! اپنے ارد گرد اُن محروموں، مظلوموں اور ضرورت مندوں پر بھی ایک نظر ڈال لیں، جو قربانی نہیں کرسکتے۔ سال میں ایک بار انہیں بھی ان نعمتوں سے لطف اُٹھانے دیں، جن سے وہ محروم ہیں کہ بڑھتی ہوئی منہگائی نے مڈل کلاس اور کم آمدنی والے طبقے کو سوائے حسرتوں کے، کچھ نہیں دیا۔

عید چھوٹی ہو یا بڑی، میٹھی ہو یا نمکین، بہرحال خوشی کا استعارہ ہے۔ عید مسلمانوں کے معاشرے میں مسرتوں کا موسم ہے، تو اُمید کی کرن بھی، لہٰذا تعلقات کی بہتری کا سامان کریں۔ لذّت کام و دہن سے خود بھی لطف اندوز ہوں اور دوسروں کو بھی اس میں شریک کریں کہ خوشیاں بانٹنے ہی سے بڑھتی ہیں۔جو لوگ اللہ کو راضی کرنے کی غرض سےخرچ کرتے ہیں، ان کے رزق میں فروانی ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو صاحبِ حیثیت بنایا ہے اورصاحبِ نصاب ہونے کی خوش بختی عطا کی ہے، تو عید کے دِن اپنے کسی قریبی عزیز، بھائی یا بہن کو اپنے گھر بلوالیں، تاکہ وہ بھی قربانی کے پُرمسرت ہنگامے میں شریک ہوجائے۔چھوٹے بچّوں کو قربانی کے جانور سےدِلی لگاؤ ہوتا ہے، وہ والدین کی مجبوریاں نہیں جانتے اور گھر میں جانور لانے کی ضد کرتے ہیں۔ اگر آپ کے گھر ایک سے زیادہ جانور ذبح ہونے ہیں، تو ایک چھوٹا جانور خاموشی سے بچّوں والے گھر میں قربانی کے لیے دے دیں۔ بچّے خوش ہو جائیں گے، والدین کا بَھرم رہ جائے گا اور آپ کا اجر دگنا ہوجائے گا۔ پھربیرونِ مُلک مقیم افراد کی ایک بڑی تعداد مُلک میں قربانی کرواتی اور رشتے داروں کو رقم بھیجتی ہے، تو اپنے ہی گھر تینوں دِن قربانی کرنے اور اپنے دروازے پر دو تین جانور باندھنے سے بہتر نہیں کہ کسی ایسی بستی یا محلّے میں قربانی کروادی جائے، جہاں کے مکینوں کے لیے قربانی ممکن نہیں ۔کچھ نہیں تو، قربانی کا ایک حصّہ ہی کسی خاندان کے لیے مختص کردیں کہ رزق تقسیم کرنے سے بڑھتا ہے،گھٹتا نہیں۔ تو آئیے، اس بارعیدالاضحی ایک نئے جذبے، نئے انداز سے منائیں کہ رزق کا دسترخوان ہی نہیں، دِل کا دامن بھی وسیع کرلیا جائے۔