ماضی کے دریچوں سے جھانکتے چودہ سوال

August 14, 2019

خاکسار کے صحافتی توشہ خانے سے ایک مسودہ ہاتھ لگا جس میں ’’پاکستان دو قومی نظریہ‘‘ کے حوالے سے ’’چودہ سوالات‘‘ اٹھائے گئے ہیں۔ پتا نہیں اس ’’مسودے کو کتنا عرصہ ہو گیا، اچانک سامنے آیا تو ڈاکٹر صفدر محمود صاحب سے لے کر منیر احمد منیر تک جیسے محقق اور مورخ یاد آ گئے، دل چاہا ان سوالات کا فکری سطح پر جائزہ لیا جائے، ہماری اپنی اس میں کوئی رائے نہیں، یہ محض ایک فکری تاریخ کو ریکارڈ پر لانے کے لئے متعلقہ اہلِ اصحاب کے جوابات کی منتظر ہے، ہمارے سمیت نئی نسل کو اپنے وطن کے ہر پہلو کا علم ہونا چاہئے، گو ہمارے جیسے بوڑھوں کے نزدیک تو یہ ہمارا وطن ہے اور بس، جینا مرنا سب یہی ہے! سوالنامے کے مرتب دانشور کا نام ذہن میں کنفیوژ ہونے کی بنا پر نہیں دیا جا رہا۔

سوالنامہ درج ذیل ہے:۔

:1 اگر پاکستان ایک قوم ہے تو اس کا اب دو قومی نظریہ سے کیا تعلق ہے؟

:2 غیر ملکی حکمرانوں، آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگریس سمیت تمام سیاسی فریقوں نے دو ریاستوں کے قیام پر اکتفا کر لیا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان ایک قوم کے طور پر وجود میں آیا۔ اب یہاں دو قومی نظریے پر اصرار کا مطلب کیا ہے؟

:3 پاکستان کی ریاست بین الاقونامی نقشے پر ایک آزاد ریاست ہے یا اس کا ہندوستان کی ریاست کے ساتھ جغرافیائی ہمسائیگی کے علاوہ بھی کوئی آئینی تعلق ہے؟ اگر ایسا کوئی تعلق نہیں تو پاکستان کے باشندوں سے اس دو قومی نظریے پر اصرار کیوں کیا جائے جو اب ماضی کے ایک سیاسی موقف کی حیثیت رکھتا ہے؟

1971 :4میں پاکستان سے بنگلہ دیش الگ ہو گیا۔ 1947کے متحدہ ہندوستان میں اب تین خود مختار اور آزاد ریاستیں موجود ہیں۔ کیا پاکستان بنگلہ دیش پر کوئی دعویٰ رکھتا ہے؟ کیا 1947کے تناظر میں دو قومی نظریہ اب تین قومی نظریہ بن چکا ہے؟

:5 اگر پاکستان ایک قوم ہے تو اس میں مختلف مذاہب کی بنیاد پر اقوام کی تشکیل کا نظریہ برقرار ہے یا وہ آزادی کے بعد ختم ہو چکا ہے؟

:6 اگر پاکستانی قومیت کی تشکیل عقیدے کی بنیاد پر ہوئی ہے تو وہ غیر مسلم باشندے جو پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں کیا وہ برابر کے شہری ہیں؟ اور ایک آزاد ملک کے شہری ہیں یا ان کی حیثیت مسلمانوں سے الگ ہے؟

:7اگر پاکستان کے شہریوں میں درجہ بندی کا کوئی تصور پایا جاتا ہے تو اس امر کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود ہے کہ ایسے شہریوں کی الگ حیثیت کا تعین 14اگست 1947کو کیا گیا تھا؟

:8 کیا اس امر کا کوئی ثبوت موجود ہے کہ مسلم لیگ نے پاکستان کی موجودہ ریاست میں حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو سونپنے کے بارے میں کبھی کوئی دستاویزی عندیہ دیا تھا۔

15 :9اپریل 1941کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ مدراس میں پاکستان کو مسلم لیگ کا نصب العین بیان کیا گیا تھا۔ کیا اس موقع پر پاکستان کے ممکنہ غیر مسلم شہریوں کو مطلع کیا گیا تھا کہ پاکستان میں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہو گی؟

:10 اگر قرارداد مقاصد پاکستان کے مسلمان شہریوں اور غیر مسلم باشندوں کے مابین عمرانی معاہدے کی حیثیت رکھتی ہے تو پاکستان کے دستور ساز اسمبلی میں کسی ایک بھی غیر مسلم رکن نے اس معاہدے کی تائید کیوں نہیں کی؟

8 :11اپریل 1950کو نئی دہلی میں پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان اور بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے ایک معاہدے پر دستخط کئے جو لیاقت نہرو معاہدہ کہلایا۔ اس معاہدے میں ضمانت دی گئی تھی کہ دونوں حکومتیں اپنے اپنے علاقوں میں اقلیتوں کو بلا امتیاز مذہب، شہری حقوق میں مکمل برابری کا درجہ، جان، مال، عزت و آبرو اور ثقافت کا تحفظ نقل و حرکت کی آزادی اور تقریر و تحریر اور کاروبار اور عبادت کی آزادی کا پورا یقین دلاتی ہیں۔ 10اپریل 1950کو دونوں ممالک کی اسمبلیوں نے اس معاہدے کی توثیق کی۔ کیا پاکستان کے غیر مسلم شہری اس معاہدے کی عملی اطلاق پر بحث کر سکتے ہیں؟

:12 اگر پاکستان کے غیر مسلم شہری برابر کے شہری حقوق نہیں رکھتے تو کیا ان کی آزادی کا ایجنڈا ابھی نامکمل ہے؟

:13 اگر پاکستان میں دو قومی نظریہ پر اصرار کیا جاتا ہے تو کیا اس میں موجودہ بھارت کے مسلمان شہریوں کی رائے کو بھی کوئی درجہ دیا جائے گا؟

:14 ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ ایک سیاسی موقف تھا یا عقیدے کا حصہ تھا؟ اگر یہ عقیدے کا حصہ تھا تو اس عقیدے کا اطلاق ہندوستان اور پاکستان کے حصے میں آنے والے مسلمانوں کیلئے الگ الگ کیوں ہوا؟

سنسنی خیز انکشاف

شاہد خاقان عباسی کی گرفتاری سے ٹھیک دس روز قبل انہیں اور ان کے ساتھ مفتاح اسماعیل کو کہا گیا کہ نواز شریف کو پیغام دیں کہ وہ بیرون ملک جانے پر رضا مند ہو جائیں، آسانیاں پیدا ہو جائیں گی، عباسی نے پیغام دینے سے انکار کر دیا اور کہا یہ کام کسی اور سے ہی کرا لیا جائے۔ عباسی کو مشورہ دیا گیا کہ وہ بھی باہر چلے جائیں مگر عباسی نے ماننے سے انکار کر دیا، بعد میں جو ہوا ریکارڈ کا حصہ ہے۔ میرے خیال میں ایسی پیشکشیں دوبارہ ہوں گی مگر انکار کرنے والے انکار پر ڈٹے رہیں گے اور اقرار کرنے والے اپنی راہ لیں گے۔ (یہ ’’سنسنی‘‘ نہایت متحرک رپورٹر اور کالم نگار اعزاز سید کے کالم ’’سیاسی افق‘‘ کا تحفہ ہے!)