پاکستان کی مٹی قوم سے مخاطب ہے

August 15, 2019

میری سنو

میں تم سے مخاطب ہوں

میں پاکستان ہوں

تمہاری ماں مٹی

میں نے ان لوگوں کی امیدوں کی

کوکھ سے جنم لیا تھا

جو اب ہم تم میں نہیں ہیں

وہ سچے لوگ جنہوں نے

ایک علیحدہ مملکت کا خواب دیکھا تھا

ایسی مملکت کا خواب

جس میں وہ اور آنے والی آئندہ نسلیں

آزادی اور فخر کے ساتھ خود کو

انسان کہہ سکیں

وہ سچے لوگ جنہوں نے

اس خواب کی تعبیر کیلئے

اپنی زندگیاں دائو پر لگا دی تھیں

میں انہی سچے لوگوں کے

خوابوں کی تعبیر ہوں

میں چوبیس سال کی ہوئی

تو جھوٹ کے گماشتوں نے

میرا آدھا بدن کاٹ دیا

میں پھر بھی اپنے پیروں پر پورا

وزن اٹھا کر چلتی رہی

پھر میں خود کو غیر محفوظ سمجھتی رہی

کہ میرے ارد گرد اب بھی

بڑی طاقتوں کے گماشتے موجود تھے

امیدیں مجھ سے چھپتی پھر رہی تھیں

حالانکہ میں کوئی بھولا ہوا سبق نہیں تھی

میں ٹوٹی ہوئی شاخ نہیں تھی

مگر اپنے ارد گرد دھویں کے مرغولے

دیکھ کر آزادی کو دھندلایا ہوا محسوس

کر رہی تھی

یہ کون سے شعلے تھے

جو میرے اسلاف کی فتح مندیوں کو

جھلسا رہے تھے

یہ کیسا خوف تھا

جو میری رگوں میں جوش مارتے

خون کو شرمساری کی برف میں

دھنسے جا رہا تھا!

میں نے تو ہوا کے پروں پر بھی

’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘ لکھا تھا

میرے زمانے میں تو تتلیوں نے بھی

میرے پرچم کا رنگ پہنا تھا

میں نے اپنی دہلیز پہ آزادی کا دیا

اس لیے رکھا تھا

کہ غلام قومیں، اس کی روشنی میں

آزاد ہونا سیکھیں گی

وہ کون تھا

جو میرے گونجتے نعرے لے کر

زہر ناک سرگوشیوں میں لپیٹ کر

میرا تن من دھن، میرا ضمیر لے گیا

میرے بچو!

میرے سچے لوگوں کے بچو!

تم اپنی وراثت کوبھول کر

کب تک اپنے ضمیر کو جھٹلاتے رہو گے

جھوٹے وعدوں کو۔ ہنستے رہو گے

میرے بچو!

مجھے تمہارے لفظ نہیں چاہئیں

پھٹی ہوئی تصویر میں لپٹے ہوئے

زر و جواہر کو دیکھ کر

دنیا تم پر ہنس رہی ہے

یہ تمہارا مقدر نہیں ہے

میری بنتی سنو!

مجھے میرے سفید بالوں کا وقار

لوٹا دو

مجھے میری کوکھ میں پلنے والا امن

واپس لوٹا دو

میرے قائداعظم کی اولادو!

اٹھو میرے بچو! میں تم سے مخاطب ہوں

ماں! بھلا اور کس سے بات کر سکتی ہے!