کشمیریوں کا جمہوری حق اور جمہوری استحقاق

August 19, 2019

کشمیر ابھی بھی لاک اَپ میں ہے اور سلامتی کونسل بھی کمرے میں بند۔ کچھ خبر نہیں کہ چودہ دنوں میں کشمیریوں پہ کیا کیا قیامت ٹوٹی اور کوئی مصدقہ خبر نہیں کہ عالمی ضمیر کتنا جاگا؟ کیا یہ تقسیمِ برصغیر کا غیر مکمل ایجنڈا ہے یا پھر ایک غیر انسانی و غیر منصفانہ تقسیم کے گلے کی ہڈی، جو برصغیر کو ماضی کی حشر سامانیوں سے نکلنے نہیں دے رہی۔ بھارت کیسا ہی اکنامک سپر پاور بن جائے اور پاکستان کتنی ہی بڑی جوہری و فوجی قوت بن جائے، کشمیر کو ہڑپ کرنے اور جبری الحاق کی کوششیں نتیجہ خیز ہوتی نظر نہیں آتیں۔ اٹوٹ انگ کے دعوئوں کے باوجود بھارت موجود اور شہ رگ کے بنا پاکستان قائم و دائم۔ علاقوں پر تو قومی ریاستیں لڑتی ہی ہیں، جن کی زمین ہے اُن کی کوئی سننے والا نہیں۔ بھارت میں نعرہ ہے کشمیر ہمارے سر کا تاج (اور اس کی یہ قابلِ نفرت پذیرائی) اور ہمارا نعرہ ہے کہ کشمیر بنے گا پاکستان۔ برطانوی سامراج کی دو وارث ریاستوں کو اپنا اپنا علاقائی غلبہ درکار نہیں تو کیا ہے؟ بھارت نے تو مہاراجہ کشمیر کے ’’الحاق نامے‘‘ پہ اور آرٹیکل 370اور 35Aکے جھانسے میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کا گلا گھونٹ دیا اور ہمارا مدعا ہے کہ کشمیریوں کو حقِ طلاق (یا حقِ علیحدگی) ملے تو اس لئے کہ وہ مملکتِ خداداد کے نکاح میں آ جائیں اور وہ بھی حلالہ کیے بغیر۔ اب بھارت میں کشمیر کی ’’خصوصی حیثیت‘‘ پہ قومی اتفاقِ رائے بری طرح ٹوٹ چکا ہے اور ہندو کمیونل ازم اور ہندوتوا کے ہاتھوں انڈین ریپبلک کا خون ہوا چاہتا ہے اور ہندو راشٹرا کا بھوت ہندوستان کے طول و عرض پہ حاوی ہو چلا ہے۔ ایسے میں بھارتی انٹیلی جنشیا، شکست خوردہ سیکولر قوتوں اور روشن خیالی کے خواب دیکھنے والوں کو بالآخر انڈین نیشنلزم کے پردے میں چھپے فسطائی چہرے سے خوف تو آنا ہی تھا اور پھر اُنھیں معلوم پڑا کہ کشمیر کے نوجوانوں کی آزادی آزادی کی پکار کا کیا مطلب ہے۔ کشمیریوں کو مغلوب کرنے کے ظالمانہ عمل سے خود بھارت کے شہری کیسے بچے رہ سکتے ہیں کہ جب کوئی قوم دوسری قوم پہ جبر کرتی ہے تو وہ آزاد نہیں رہتی۔ کیا ہم نے مشرقی پاکستان میں جبر و استبداد پہ آنکھیں بند کر کے خود اپنی آزادی بھی رہن نہیں رکھ دی تھی۔ پھر بھی مہذب دکھے جانے کی دوڑ میں دو متحارب ہمسائے ایک دوسرے کے ملکوں میں چھپے چوروں کی نشاندہی کر کے کیسے اچھے لگ سکتے ہیں کہ جب وہ خود اپنے ہی لوگوں پہ استبداد ڈھانے میں لگے رہتے ہیں۔ حقِ خود ارادیت کے سوال پر بھارت کی رگِ جمہوریت اگر پھڑکی بھی تو مشرقی پاکستان کو توڑ کر، لیکن کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کے سوال پر جیسے پورے بھارت میں سکتہ طاری ہو جاتا ہے۔ لیجئے! اب مزہ ہندو راشٹراکا جس میں صرف مسلمان ہی نہیں کوئی بھی جمہوریت پسند اور انسان دوست شخص محفوظ نہیں۔ برصغیر اب ایک نئے خوفناک طوفان کی لپیٹ میں ہے۔ ایک طرف ہندو راشٹرا اور فاشسٹ مودی ہے اور کشمیر کو کشمیریوں کے خون میں ڈبو دینے کا عزم۔ نہ جمہوری تنوع بچا، نہ شہری محفوظ اور کشمیر کی جلتی آگ پہ تیل گرانے کا سلسلہ۔ انسانی المیے کا ایک بڑا بحران دُنیا کے میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہونے سے رہا۔ ساحر کا کہنا تھا:

سازشیں لاکھ اُڑاتی رہیں ظلمت کی نقاب

لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پہ چراغ

یہ کب ہوا ہے کہ کشمیر کی آگ بارڈر تک نہ پہنچے اور لائن آف کنٹرول پہ جاری خلاف ورزیاں کسی محدود جنگ اور پھر پوری جنگ اور پھر نیوکلیئر قیامت کے ہاتھوں اربوں لوگ زندگی اور اس کے وسیلوں سے محروم ہو سکتے ہیں اور جنوبی ایشیا سردی اور جوہری تابناکیوں کی لپیٹ میں موت کے غار میں بدل سکتا ہے۔ ہم تو پہلے ہی جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل کا حق جتاتے رہے ہیں، اب بھارتی وزیرِ دفاع نے برصغیر کی جوہری موت کی لبلبی پہلے دبانے کا شرف پانے کا عندیہ بھی دے دیا ہے۔ کون کہتا ہے کہ برصغیر دیوانوں کی آماجگاہ نہیں جو نیو کلیئر ہتھیاروں کے ڈھیر پر کھڑے ہو کر ان کے جنگی استعمال میں پہل کرنے کی دیدہ دلیری میں رتی بھر شرم سے محفوظ رہے۔

اب معاملہ انسانی و شہری حقوق کا ہے جس کے چارٹر پر دونوں ملکوں نے خیر سے دستخط بھی کیے ہوئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں بھلے کتنی ہی طاقِ نسیاں ہوئیں، شملہ معاہدہ اب بھی موجود ہے جس کی توثیق دونوں ملکوں کی پارلیمنٹ کر چکی ہیں۔ کوئی سمجھے کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں پھر سے زندگی ڈالی جا سکتی ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہے۔ سیکورٹی کونسل کے بند کمرے کے اجلاس سے کچھ نکلا نہیں اور دونوں اطراف کے سفرا بغلیں بجانے پہ خوش۔ اگر کشمیر کی چیخ کسی نے سنی ہے تو وہ انٹرنیشنل میڈیا اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں ہیں جو خوب بول رہی ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے مودی کی ہندوتوا اور فاشزم کی بات چھیڑ کر دُنیا بھر کے جمہوریت پسندوں بشمول بھارت کے جمہوریت پسندوں کی دُکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا ہے اور کشمیریوں کے سوال کو جمہوری حقوق کے مسئلے کے طور پر پیش کر کے ایک دل پذیر بیانیہ دیا ہے۔

کشمیر کا انسانی المیہ تقاضا کرتا ہے کہ اسے رکوانے کے لئے ہر فورم پر جدوجہد کی جائے اور خود بھارت میں جمہوری ناقدوں کی توصیف کی جائے۔ مودی اپنی قہر انگیزی کی ناکامی پر اور خود یا کسی اشتعالی ایجنٹ کے دہشت گردی کے ڈرامے سے فائدہ اُٹھا کر تمام تر توجہ دہشت گردی کے خلاف موڑ سکتا ہے۔ پاکستان کے اداروں کو اس بارے میں انتہائی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے اور کوئی پرندہ بھی لائن آف کنٹرول کے پار نہ جانے دیا جائے۔ ابھی تو کشمیر کے مظلوم و بہادر عوام کے ساتھ یکجہتی کا وقت ہے، جنگ کا نہیں۔ ڈپلومیسی کا وقت بھی آئے گا اور مذاکرات سے مسئلے کے حل کے لئے بہت سی راہیں نکلیں گی اور بہت سے آئوٹ آف باکس فارمولے بھی سامنے آئیں گے۔ کیا نواز شریف اور واجپائی نے لاہور میں بیٹھ کر راہ نہیں نکالی تھی اور بعد ازاں جنرل مشرف نے پہلے واجپائی اور پھر من موہن سنگھ سے ایک چار نکاتی فارمولے پہ تقریباً اتفاق پیدا نہیں کر لیا تھا؟ بھارت نے ایک طرح سے مسئلہ کشمیر کو نو آبادیاتی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ پاکستان اور چین کو لائن آف کنٹرول (LOC)اور لائن آف ایکچوئل کنٹرول (LAC)کو بارڈر بنا لینے کا عندیہ دیا ہے لیکن اصل سوال کشمیریوں کی منشا کا ہے، جن کی تشفی بنا کوئی فارمولہ یہ مسئلہ حل نہیں کر سکتا۔ کشمیریوں کے جمہوری حق کی آواز اُٹھانے کے لئے مدعیوں کا جمہوری استحقاق ضروری ہے ورنہ لوگ کہیں گے کہ یہ منہ اور مسور کی دال۔

وہ صبح کبھی تو آئے گی!