ڈائجسٹ: دیپ مالا

August 25, 2019

ڈاکٹر عزیزہ انجم

’’پھر یہ آڑی تِرچھی لکیریں بنا رہاہے ،ساری کاپیاں نقش و نگار سے بھر دیتا ہے، پڑھنے لکھنے میں تو اس کادل نہیں لگتا، نہ جانے کیا کیڑے مکوڑےبناتا رہتا ہے ۔‘‘ابّا کا پارہ آسمان پر تھا اورمَیں کونے میں چُپ چاپ بیٹھا اپنافن پارہ بنانے میں مصروف تھا۔ مَیں بھی چاہتا تھا کہ دیگر چھوٹے بہن بھائیوں کی طرح پڑھائی لکھائی میں دل لگاؤں، ڈاکٹر یا انجینئر بن کر اپنے والدین کا نام روشن کروں، مگر جیسے ہی کاغذ، قلم میرے ہاتھ آتے ،ہاتھ خود ہی مختلف نقش ونگار بنانے لگتے۔ یہ شاید بے خودی کا عالم ہی تھا۔کائنات مجھے ایک بڑی تصویر لگا کرتی، جس میں بکھرے رنگ و پیکر میری آنکھوں میں بس جاتے، میرے خوابوں میں اُتر آتے، سوتے جاگتے یہی تصاویر میرے حواس پر چھائی رہتیں ۔جہاں کہیں کوئی سادہ کاغذ ملتا، مَیں اُس پر اپنی سوچ و تخیّلات کا عکس بکھیر دیتا۔

ابّا گریڈ سولہ کے سرکاری ملازم تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مَیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر یا انجینئر بنوں۔ اُن کی زندگی کا واحد مقصد ہم چاروں بہن بھائیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانا تھا، جس کی تکمیل کے لیےمعمول کی نوکری کے ساتھ پارٹ ٹائم ملازمت بھی کرتے۔ وہ ہفتے کے ساتوں دن کام کرتےتھے۔ مَیں بہن ، بھائیوں میں سب سےبڑا تھا، اس لیے مجھ ہی سے زیادہ امیدیں وابستہ تھیں ۔پر میرادل سائنسی مضامین سے زیادہ آرٹس میں لگتا ، جس کا اثر میرے رزلٹ پربھی پڑتا اور ابّا چراغ پا ہو جاتے۔ایسا ہی ایک دن تھا، تینوں بہن بھائیوں کی اچھی پوزیشنز آئی تھیں ، جب کہ مَیں ریاضی میں فیل ہوگیا تھا ۔ابّا نے رزلٹ کارڈ ایک طرف پھینکا اور غصّے میں مجھے مارنے دوڑے ۔مَیں گُم صُم خاموش کھڑا ، بس انہیں دیکھ رہا تھا۔ ریاضی کبھی میری سمجھ میں نہیں آئی ۔جمع ،تفریق، ضرب، تقسیم ،اعشاریہ… مجھے ان سب سے گھبراہٹ ہوتی اور سمجھ بھی کیسے آتی، مجھے تو کاغذ پر لکیریں کھینچنے اور نقش بنانے ہی سے فرصت نہیں تھی۔ابّا نے مجھےمارنے کے لیے ہاتھ اُٹھایا اور نہ جانے کب ، کیسے امّاں بیچ میں آگئیں اور وہ ہاتھ میرے بہ جائے امّاں کو لگ گیا۔’’تم کہاں سے بیچ میں آگئیں ؟‘‘ ابّا ششدر رہ گئے ۔ دُبلی پتلی سی امّاں اپنی چوٹ اور بے عزّتی بھول کر مجھے لپٹائے روئے جارہی تھیں ۔ ’’جب رضوان کا دل حساب کتاب اور سائنسی مضامین میں نہیں لگتا، تو کیوں آپ اس پر زبر دستی کرتے ہیں۔کیوں نہیں سمجھتے کہ اگر ہمارے ڈر سے اس نے امتحان پاس کر بھی لیا ، تب بھی اس کا مستقبل کبھی نہیں سنور پائے گا۔ ‘‘ امّاں نے روتے ہوئے ابّا سے جرح کی۔’’مَیں کوئی دشمن نہیں ہوں اس کا، کاغذ پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچنے سے پیٹ نہیں بھرتا۔ اسی کی بہتری کے لیے سختی کرتا ہوں۔ اسی کا مستقبل بنانا چاہتا ہوں۔‘‘ ابّا نے چلّا تے ہوئے کہا۔ ’’بن جائے گا مستقبل ،جو روزی اللہ نے لکھی ہے وہ اسے ضرور ملے گی۔ بس،اب میرا رضوان سائنس نہیں پڑھے گا۔ یہ وہی پڑھے گا،جو اس کا دل چاہتا ہے۔یہ جو کرنا چاہتا ہے ، آپ بس اسے کرنے دیں۔‘‘امّاں نے جیسے آخری فیصلہ صادر کردیااور ابّا ، جو مزاجاً خاصے سخت تھے، اس بار ایک ماں کے آگے جھکنے پہ مجبور ہوگئے۔امّاں کو تھپڑ لگنے کا افسوس اور شرمندگی مجھے سکون نہیں لینے دے رہی تھی۔اُس روز نہ میں نے کچھ کھایا پیا اور نہ کسی سے بات کی، ڈرائنگ تک نہیں بنائی۔ میری نظریں زمین میں گڑی تھیں۔ امّاں نے شفقت سے مجھے آوز دی، اپنے پاس بُلایا اور اپنے ہاتھ سے کھانا کھلایا۔ کبھی میرے سر پر ہاتھ پھیرتیں، کبھی مجھے پیار کرتیں ۔ اُس رات انہوں نے مجھے اپنے پاس ہی سُلایا تھا ۔’’رضوان تُو فکر نہ کر، جو تُو بننا چاہتا ہے، مَیں تجھے وہی بناؤں گی۔ مجھے تیرے ابّا کی فکر ہے، نہ اس زمانے کی۔چھوڑ یہ سائنس ، ساری دنیا پڑھ رہی ہے ، ایک تُو نہیں پڑھے گا تو کون سی آفت آجائے گی۔باقی تینوں پڑھ لیں گے ۔‘‘ امّاں نے مجھے تسلّی دیتے ہوئے کہا۔ مَیں بُت بنا اُن کی باتیں سُن کر یہ سوچ رہا تھا کہ جس مضمون کو چاہ کر بھی میں نہیں اپنا سکا تھا، ابّا کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار تک نہیں کرسکا تھا اور آرٹس میں تعلیم حاصل کرنے کا تو خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا، میرے لیے کس بہادری سے امّاں نے وہ کام آسان کر دیا۔انہوں نےایک لمحے میں میری دیرینہ خواہش پوری کرنے کا فیصلہ کردیا تھا ۔

امّاں نے اگلے ہی دن چھوٹے چچا کے ساتھ مجھے آرٹس کالج بھیجا اور داخلہ دلوادیا ۔امّاں کی ضد کے آگے ابّا خاموش ، مگر غصّے میں تھے۔ گھر میں ایک عجیب تناؤ کا ماحول تھا، لیکن میری ماں خوش اور مطمئن تھیں ۔دن گزرتے گئے، میری زندگی برش ،رنگوں اور کینوس کے گرد گھوم رہی تھی ۔چھوٹابھائی انجینئر ،ایک بہن ڈاکٹر اور دوسری ایم ایس سی کر چکی تھی ۔سب اچھے عہدوں پر فائز اپنی اپنی زندگیاں خوش و خرّم طریقے سےگزاررہے تھے۔دوسری جانب مَیں بھی اپنی فیلڈ میں خُوب داد سمیٹ رہا تھا۔میرابنایاہر فن پارہ ، کسی شاہ کار کی طرح اہلِ فن سے داد پاتاتھا۔ اُس روز میری تصویروں کی پہلی سولو نمائش تھی ۔خوشی سے مجھے رات بھر نیند نہیں آئی۔ افتتاح کے موقعے پر ابّا اور اماں دونوں میرے ساتھ تھے۔ فنِ مصوّری کے دل دادہ افرادجُوق در جُوق ہال میں آرہے تھے ۔ابّا حیران اور امّاں خوشی سے نہال تھیں، انہیں شروع ہی سے میری قابلیت پر پورا بھروسا جوتھا ۔ سارے فن پارے پہلےہی دن اُس قیمت پر فروخت ہوگئے ،جو ابّا کی سوچ سے ہزار گُنا زیادہ تھی ۔اُس دن ہم نے شہر کے سب سے بڑے ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا ۔ہم سب بے حد خوش تھے،ہلکے ہلکے قہقہوں سے ماحول خوش گوار ہو گیا تھا ۔مَیں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے دبے الفاظ میں امّاں کو اپنی پسند ’’مہ جبیں‘‘ کے بارے میں بتایا، وہ میری کولیگ تھی۔میری ہی طرح رنگوں اور برش کی دیوانی ۔اس کی جھیل سی گہری ،خوب صُورت آنکھیں مجھے دیکھتے ہی ستاروں کی طرح جگمگا اُٹھتیں، میری مسکراہٹ گہری ہوتی تو اُس کے گال سُرخ ہو جاتے ۔’’امّاں! مہ جبیں بہت اچھی ہے ۔وہ میرا بھی خیال رکھے گی اورآپ کا بھی ۔‘‘ مَیں نےماں کو منانے کی کوشش کی۔’’رضوان ! میری بڑی خواہش ہے کہ مَیں تیری خالہ کی بیٹی کو بہو بناکر لاؤں، وہ بھی تجھے بہت پسند کرتی ہے ۔‘‘’’لیکن امّاں مَیں مہ جبیں کے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘ مَیں نے بچّوں کی طرح ضد کرتے ہوئے کہا۔ ’’ٹھیک ہے جیسی تیری خوشی ۔‘‘امّاں دھیرے سے بولیں۔ ’’ماں! آپ ناراض تو نہیں ؟‘‘ مَیں نے گہری نگاہیں امّاں پر ڈالتے ہوئے پوچھا۔’’مَیں نے پہلے بھی تیری پسند اور شوق دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا تھا ، جو صحیح ثابت ہوا اور آج بھی اپنے بیٹے کی خوشی دیکھتے ہوئے ہی فیصلہ کروں گی۔‘‘امّاں نے ہمیشہ کی طرح میرے سر پر دستِ شفقت پھیرتے ہوئے کہا۔

مہ جبیں واقعی بہار بن کرمیری زندگی میں آئی تھی ۔ہمارے آنگن میں خوشیوں کی برسات ہو رہی تھی، چار خُوب صُورت پھول گلشن میں مہکنے لگے تھے۔پھر بچّے اسکول جانا شروع ہو گئے۔ ایک روز مہ جبیں کے بھائی نے ہماری فیملی کو امریکا بلانے کی بات کی۔مہ جبیں اوربچّے بہت خوش تھے، وہ تو جیسے دن رات امریکا جانے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ مگر مجھے امّاں کا خیال آرہا تھا ، بہنیں اپنے گھروں کی ہو چُکی تھیں۔ ڈیفینس کے شان دار بنگلے کے دو حصّوں میں ہم دونوں بھائی الگ الگ رہ رہے تھے۔میں سوچ رہا تھا، امّاں سے بات کروں ،مگر نہ جانے کیوں ہمّت نہیں ہو رہی تھی ۔مہ جبیں روز امّاں سے بات کرنے کا کہتی اورمَیں روز ٹال دیتا۔ مجھے پتا تھا امّاں کبھی نہیں چاہیں گی کہ مَیں انہیں اور ابّا کو چھوڑ کر سات سمندر پار جاؤں۔ میرا اپنا دل بھی آمادہ نہیں تھا ۔گھر ،ماں باپ، بھائی بہن ،میرے مدّاح،میری تصویروں کے خریدار…سب یہیں تھے۔لیکن مہ جبیں اور بچّےامریکا جانے کے لیے بے تاب تھے۔ امّاں سے بات ہوتی، تو امیگریشن کا پراسیس شروع ہوتا ۔’’میں آج خود امّاں سے بات کرلوں گی ۔‘‘مہ جبیں نے قدرے غصّے سے کہا۔ ’’ بچّوں کے مستقبل کی بات ہے ،آپ کو پتا ہے، امریکا کا ویزا ملنا معمولی بات نہیں اور ہمیں بآسانی مل رہا ہے، تو آپ کیوں بچّوں کے مستقبل کے آڑے آرہے ہیں۔‘‘ ’’ٹھہرو! مَیں خود بات کروں گا، تم رہنے دو ۔‘‘ مَیں نے مہ جبیں کو پہلی بار تھوڑی سختی سے منع کیا۔ اگلی صبح میں امّاں کے ساتھ ناشتا کرنے کے بعد چائے کا کپ لے کرلان میں آگیا ۔وہ پودے دیکھ رہی تھیں اور مَیں اُن کا چہرہ ۔’’کیا بات ہے رضوان! بڑے خاموش ہو ؟‘‘ ماں نے جیسے میرے دل کی بے چینی محسوس کرلی تھی۔’’امّاں کچھ کہنا ہے آپ سے۔‘‘ ’’ہاں کہو ،کیا ہوا خیریت؟‘‘ ’’امّاں! وہ مہ جبیں کے بھائی نے امریکا کا ویزا بھیجا ہے، ابھی جانے کا پکّا تو نہیں ،لیکن مہ جبیں چاہتی ہے کہ ہم وہیں شفٹ ہوجائیں، آپ کو تو پتا ہے بچّوں کے مستقبل کی بات ہے۔‘‘ مَیں نے ہمّت کرکے آخر ماں سے کہہ ہی دیا۔ امّاں خاموش کھڑی میری باتیں سُن رہی تھیں۔مجھے بہت افسوس ہورہا تھا کہ خواہ مخواہ بات کی ۔ ’’اچھا امّاں رہنے دیں، مَیں نہیں جاؤں گا ۔‘‘مَیں نے انہیں چُپ دیکھ کر دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’نہیں رضوان ! تمہیں بیوی کی خوشی اور بچّوں کے بہتر مستقبل کے لیے ضرورجانا چاہیے ۔ویسے تم یہاں بھی اچھی طرح سیٹ ہو ،لاکھوں کما رہے ہو ۔دیکھ لو، بہتر لگتا ہے، تو چلے جاؤ۔‘‘ ’’میری پیاری ماں‘‘ مَیں امّاں سے لپٹ گیا ، میں آپ کوبھی جلد وہاں بلوا لوں گا اور جب تک آپ میرے پاس نہیں آتیں،مَیں ملنے آتا رہوں گا۔مہ جبیں بھی کہتی ہے کہ ہم امّاں کو اپنے ساتھ ہی رکھیں گے ۔‘‘ مہ جبیں امّاں کا جواب سن کر بہت خوش تھی ۔ویزے کا پراسیس جلد مکمل ہو گیا ۔وہ رات ،جس کی صبح ہمیں امریکا کے لیے روانہ ہونا تھا، بہت اُداس تھی۔ مَیں کبھی اپنی ڈھال، اپنی ماں کو دیکھتا ، تو کبھی بھرے پُرے گھر کو ۔بھائی، بہنیں تو بہت خوش تھے، امریکاکا خواب جوہر آنکھ میں سجا تھا ۔

جہاز کے دروازے بند ہوئے ،ٹیک آف کا اعلان ہو رہا تھا ۔جہاز رن وے پر دوڑتا اوپر اُڑا اور میرا دل بند ہونے لگا، آنسوؤں کی جھڑی تھی کہ رُکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ ’’اُفوہ… آپ تو بالکل بچّوں کی طرح رو رہے ہیں۔‘‘ مہ جبیں ٹشو سے میرے آنسو پونچھتے ہوئے بولی ۔’’آپ اُداس کیوں ہوتے ہیں؟ ہم جلد ہی امّاں ، ابّا کو بھی اپنے پاس بلوالیں گے۔‘‘اُس نے مجھےتسلّی دیتے ہوئے کہا ۔مہ جبیں کے بھائی، بھابھی نیویارک ائیرپورٹ پر ہمیں لینے آئے ہوئے تھے، بچّوں اور مہ جبیں کی خوشی کا تو کوئی ٹھکا نہ نہیں تھا ۔پندرہ دن اُن کے پاس رہنے کے بعد ہم اپنے اپارٹمنٹ میں شفٹ ہو گئے ۔روز ہی پاکستان کال کرکے امّاں سے بات کرتا ۔’’ آپ ٹھیک ہیں ناں؟‘‘ ’’ہاں بیٹا، تم کیوں پریشان ہوتے ہو ؟ سب ہیں یہاں‘‘ ’’مَیں جانتا ہوں، سب ہیں، پر مَیں نہیں۔‘‘’’بیٹا! یہ تو دنیا کادستور ہے ۔مَیں نے تمہاری خوشی کے لیے زمانے کی پروا نہیں کی اور اب تمہارا بھی فرض ہے کہ اپنےبال بچّوں کے مستقبل کے لیے سخت فیصلے کرو، اُن کی خوشی دیکھو۔‘‘ ہمیں امریکا رہتے ہوئےچھے مہینے گزر چکے تھے۔ایک روزہم شاپنگ کے لیےمال گئے ، جہاںنہ جانے کیوں میری نظر ہر بوڑھی عورت میں اپنی ماں کو تلاش کر رہی تھی۔بے خیالی میں میری نظر ایک بڑی بی پر پڑی، جو سامان کی ٹرالی سنبھالے قطار میں کھڑی تھیں ۔میں یَک ٹِک انہیں دیکھے جارہا تھا ۔اُن کی شکل ہو بہو میری ماں جیسی تھی۔ اور بس یہی خیال آنے لگا کہ نہ جانے اس وقت میری ماں کیا کر رہی ہوگی، کھانا کھایا ہوگا یا نہیں، بی پی کی دوا تو وقت پر لیتی ہوںگی ناں… یہ ہی سوچتے سوچتے نہ جانے کب آنسوؤں کا اِک نہ رُکنے والا سلسلہ آنکھوں سے جاری ہوگیا، ہر شے دُھند لانے لگی اور پھر مجھے کچھ یاد نہیں رہا۔ جب آنکھیں کُھلیں تو خود کو اسپتال کے ایک کمرے میں پایا، جہاں مہ جبیں میرےسرہانے بیٹھی تھی۔’’اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شُکر ہے کہ آپ نے آنکھیں تو کھولیں۔‘‘ مہ جبیں نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔’’مجھے کیا ہوا تھامہ جبیں، مَیں تو مال میں تھا؟‘‘ ’’آپ کسی بوڑھی عورت کو دیکھے جارہے تھے اور اچانک گِر کر بے ہوش ہو گئے ۔پتا ہے آج پورےتین دن بعد آنکھیں کھولی ہیں آپ نے ۔‘‘ ’’اچھا! ‘‘مَیں حیرانی سے اُس کی باتیں سُن رہا تھا۔ ’’اور آپ تین دن سے فقط ایک ہی لفظ دہرائے جا رہے تھے۔‘‘’’کیا…؟‘‘ مَیں نے پوچھا۔ ’’امّاں… امّاں…امّاں‘‘ ’’اچھا…‘‘ میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ ’’مَیں نے واپسی کے ٹکٹس کروا لیے ہیں اور بچّوں کو بھی سمجھا دیا ہے کہ ہمارا گھراور گھر والے پاکستان میں ہیں، وہی ہماری اصل دنیا ہے ۔ ویسے بھی آپ اپنی ماں کے بغیر نہیں رہ سکتے اور مَیں آپ کے بغیر ۔‘‘وہ نم آنکھوں سے بولی،تو مَیں نے بھی ایک جذب کے عالم میں اُس کاہاتھ تھام لیا۔

ایک ہفتے میں ہم سامان باندھ کو واپس پاکستان پہنچ گئے۔سرزمینِ پاکستان پر قدم رکھتے ہوئے میرے دل کی عجیب سی حالت تھی ۔جی چاہتا تھا قہقہے لگاؤں ،بادلوں کو چھو لوں ، امّاں ابّا سے ملنے کے لیے میری بےتابی دیدنی تھی ۔ائیرپورٹ پر میری ماں بانہیں پھیلائے کھڑی تھی ، جیسے ہی میں ان سے ملا ،بچّوں کی طرح شکایت کرنے لگا کہ ’’آپ نے مجھے جانے کی اجازت ہی کیوں دی؟ روکا کیوں نہیں؟‘‘اماں نے ہمیشہ کی طرح میرے آنسو پونچھےاور نم ناک لہجے میں بولیں’ ’مَیں بھی تیرے بغیر بڑی مشکل سے جی رہی تھی، مگر مَیں تیرے بچّوں کے اچھے مستقبل کی راہ میں نہیں آنا چاہتی تھی۔ مگر دیکھ لے، یہ میری بہو (اماں نے پیار سے مہ جبیں کی پیشانی چومی )، اللہ اسے خوش رکھے، اس نے ایک ماں کا درد سمجھا اور اپنی خوشیاں چھوڑ کر، اپنے شوہر اور اُس کی بوڑھی ماں کو خوشیاں دینے لوٹ آئی۔‘‘ سب ہی کی آنکھیں بھیگی ہوئی، مگر دل بہت خوش تھے، مگر مہ جبیں تو کسی اور ہی کیفیت میں تھی، شاید اُسے یقین تھا کہ اُس نے آج واپس آکر صرف ایک ماں کو اولاد کی جدائی کے عذاب سے نہیں بچایا۔ اُس نے تو ایک ایسی ’’دیپ مالا‘‘ روشن کی ہے، جس میں چراغ سے چراغ جلتا رہے گا۔