پاک امریکہ تعلقات اور ہماری غلطیاں

August 22, 2019

وزیراعظم کے دورۂ امریکہ کے دوران امریکی صدر نے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی تھی مگر سوال یہ ہے کہ ٹرمپ نے ثالثی کا شوشہ کیوں چھوڑا اور وہ بھی اس حوالے کے ساتھ کہ اسے مودی بالفاظ دیگر بھارتی حکومت کی خواہش سے مشروط کر دیا۔ جواب واضح ہے کہ امریکہ افغانستان میں ایسی نئی بساط بچھانا چاہتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے عوام کو باور کروا دے کہ افغانستان کے راستے سے امریکہ میں اب کسی دہشت گردی کا امکان سرے سے موجود ہی نہیں، اور اگر کسی نے ایسی کوشش کی تو جو لوگ پہلے ایسے لوگوں کو پناہ دیتے تھے، وہی اب ان کو کیفر کردار تک پہنچا دیں گے۔ یعنی جو کردار امریکہ اور موجودہ افغان حکومت مشترکہ طور پر ادا کر رہی ہے، اب وہی کردار تمام افغان دھڑے ادا کریں گے۔ یقیناً ہدف بڑا ہے اور یہ ہدف پاکستان کی مکمل حمایت کے بغیر حاصل کیا جانا دشوار ہے۔ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا شرائط کے ساتھ ذکر کرکے پاکستان کے عوام کو خوشی سے مبہوت کیا جا سکے اور جب قوم بے حس و حرکت ہو گی تو ایسی صورت میں حکومت پاکستان کے لئے آسان ہو جائے گا کہ وہ تمام معاملات امریکی خواہشات کے مطابق حل کروا سکے اور جب امریکہ افغانستان میں اپنی مرضی کی چالیں چل کر رخت سفر باندھ چکا ہو گا تو ہم ماضی کی مانند بے وفا ہونے کی دہائیاں دے رہے ہوں گے۔ لیکن کیا ماضی میں بھی یہ دہائیاں درست تھیں؟ کوئی جواب دینے سے قبل یہ ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ قوموں کے باہمی تعلقات زبانی جمع خرچ کے بجائے تحریری معاہدوں کی صورت میں موجود ہوتے ہیں۔ اس لئے مطالعہ اس کا کرنا چاہئے کہ جن واقعات یا ادوار سے متعلق ہم بے وفائی کے الزام عائد کرتے ہیں، اس وقت ہمارے باہمی معاہدوں کی کیا کیفیت تھی۔ ہم کن شقوں پر ایک دوسرے کی شرائط پر متفق ہوئے تھے اور ان میں سے کن شقوں کی امریکہ نے خلاف ورزی کی؟ پاکستان پر ایک سخت ترین وقت ستمبر 1965ء کی جنگ تھی۔ اس جنگ کے دوران امریکہ نے اسلحہ کے حوالے سے ایسا رویہ اپنایا کہ جس کو ہم نے طوطا چشمی کا نام دیا کہ امریکہ سارے مفادات تو پاکستان سے حاصل کر رہا ہے لیکن جب اب وقت آیا تو امریکہ نے ہم سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ مفادات حاصل کرنے کے حوالے سے ہم امریکہ سے کن معاہدوں میں موجود تھے۔ 1954ء میں Mutual Defence Assistance Agreementہوا اور اس کی سیریز کے طور پر اسی سال پاکستان SEATOتنظیم کا رکن بنا۔ ان میں واضح طور پر تحریر تھا کہ یہ صرف کمیونسٹ خطرے اور اس کے اثرات سے نمٹنے کے لئے قائم کی گئی ہے، اس کے علاوہ اس کا اور کوئی مقصد نہیں۔ اس طرح 1955ء میں بغداد پیکٹ ہوا جو بعد میں CENTOکے نام سے موجود ہے۔ CENTOکے مقاصد کو آگے بڑھاتے ہوئے 1959ء میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان ایک اور معاہدہ ہوا۔ پاکستان ایشیا کا واحد ملک تھا جو سیٹو اور سینٹو دونوں کا رکن تھا۔ ہم ان معاہدوں کی بنیاد پر 1965ء کی جنگ میں امریکی بے وفائی کا رونا روتے رہے حالانکہ ان معاہدوں میں یہ مکمل طور پر واضح تھا کہ یہ کمیونسٹ خطرات کو روکنے کے لئے ہیں۔ جب معاہدوں کی بنیاد ہی یہ تھی کہ صرف کمیونسٹ نشانہ ہوں گے تو پھر امریکہ کسی دوسرے سے جھگڑے میں ان معاملات کا ہی پابند تھا جو پہلے سے تحریراً موجود تھے۔ 1971ء میں بھی یہ راگ الاپا گیا حالانکہ یہ حقیقت پہلے دن سے پاکستانی پالیسی سازوں پر واضح تھی کہ معاہدوں کی نوعیت کیا ہے۔ سابقہ سوویت یونین کی پسپائی کے بعد پھر یہی رونا رویا گیا کہ امریکہ ہمیں تنہا چھوڑ گیا ہے لیکن سوویت افواج کے فغانستان میں داخلے سے واپسی تک امریکہ سے کوئی ایک ایسا معاہدہ دکھانے سے قاصر ہے کہ جس میں اس کو افغان امور پر پاکستان کا ساتھ دینے کا پابند کیا گیا ہو۔ اس وقت کی آمریت تو یہ تک لکھوانے میں ناکام رہی کہ پُرامن مقاصد کے لئے ہی سہی ہمارے ایٹمی پروگرام پر اعتراضات ختم کر دیئے جائیں گے۔ جب کوئی معاہدہ تھا ہی نہیں تو پاسداری کس کی ہو گی؟ نتیجتاً ہم پریسلر ترمیم تک سب کچھ بھگتتے رہے اور یہ تو کوئی ماضی بعید کا قصہ نہیں کہ نائن الیون کے بعد پھر امریکی کیمپ میں چلے گئے اور نان نیٹو اتحادی کا درجہ پایا مگر مگر شرائط کیا تھیں؟ کہاں بیان کیا گیا تھا کہ یہ پاکستانی مفاد ہے اور اس کا فلاں فلاں شقوں کے تحت تحفظ کیا جائے گا۔ ادھر ہم صرف کیمپ ڈیوڈ میں بلائے جانے پر ہی خوشی سے نہال ہوگئے مگر نتیجتاً پاکستان نڈھال ہو گیا۔ لہٰذا جب امریکی ترجیحات بدلیں تو کیے گئے معاہدوں کے مطابق انہوں نے ڈو مور، ڈو مور کہنا شروع کر دیا۔ عوام کے جذبات سے کھیل لیا جائے تو اور بات ہے، ورنہ ان تمام ادوار میں امریکہ نے وہی کیا جو ہم نے اس کے ساتھ لکھت پڑھت کی تھی۔ممکن ہے کہ یہ اعتراض کیا جائے کہ پاکستان کے حالات ایسے تھے کہ ہم امریکہ کو انکار نہیں کر سکتے تھے۔ مگر اس کا جواب بھی نفی میں آئے گا۔ لیاقت علی خان امریکہ گئے، وہاں پر ان سے سی آئی اے کے لئے اڈے مانگے گئے مگر انہوں نے منع کر دیا۔ پھر جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تو امریکہ کا چپ سادھنے کے لئے پاکستان پر زبردست دبائو تھا مگر نواز شریف نے کلنٹن کو انکار کر دیا۔ انکار ممکن ہے، اگر جرأتِ انکار موجود ہو۔

اب دوبارہ افغانستان میں حالات فیصلہ کن موؑڑ کی جانب جا رہے ہیں اور امریکہ کو ہماری دوبارہ ضرورت ہے۔ ٹرمپ کو اقتدار میں رہنے کے لئے اس معرکے میں کامیابی چاہئے کیونکہ ان کی حزب اختلاف کمزور نہیں۔ ڈینیئل مارکی نے مجھے بتایا کہ یہ تصور کرنا کہ ڈیمو کریٹس کمزور ہیں، درست نہیں۔ ان کی لڑائیاں اس لئے چل رہی ہیں کہ امیدوار کے انتخاب کا مسئلہ ہے، جب یہ حل ہو جائے گا تو سب اس کے پیچھے آ کر کھڑے ہو جائیں گے جبکہ جیمز سمتھ نے کہا کہ ٹرمپ نے روزگار اور معاشی بہتری کے حوالے سے وعدے پورے کیے ہیں، وہ مضبوط ہیں۔ ٹرمپ مزید مضبوط ہو جائے گا اگر وہ افغانستان سے کامیاب انخلا کر سکا۔ان حالات میں پاکستان کے سامنے دو راستے ہیں، ایک تو ماضی کی مانند زبانی جمع خرچ اور وائٹ ہائوس کی سیر پر اکتفا کیا جائے اور بعد میں بیوفائی کا رونا رویا جائے، دوم ماضی کے تجربات کی روشنی میں ایسا معاہدہ کیا جائے جس سے پاکستانی مفادات کا صریحاً تحفظ کیا جائے، اگر اس حوالے سے کوئی ابہام رہ گیا تو عوام مستقبل میں بھی بیوقوف بنتے رہیں گے۔