سلام تجھے پاکستان

August 23, 2019

تصویر کا دوسرا رخ… ابرار مغل
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے پوری دنیا میں کشمیریوں کے سفیر کی حیثیت سے بھارتی مظالم کو بے نقاب کرنے کا بڑا اعلان کسی پاکستانی وزیراعظم نے پہلی مرتبہ نہیںکیا قیام پاکستان سے لیکر آج تک پاکستان نے نامساعد حالات کے باوجود بھی کشمیریوں کیلئے دو نہیں بلکہ کئی جنگیں لڑی، اکتوبر1947ء میں پہلی جنگ کے نتیجے میںریاست کا کچھ حصہ جہاںآج آزاد کشمیر حکومت قائم ہے آزاد ہوا تھا۔ 1965, 1971سمیت درجنوںچھوٹی جھڑپیں بھی کشمیر کی وجہ سے ہوئیں۔ پاکستان اور اس کی قائم ہر دور کی حکومت کی طرحپاکستانی عوام کی کشمیریوں سے عقیدت و محبت کی تاریخ میں کہیں مثال نہیںملتی۔ پاکستانیوں نے محض زبانی کلامی اور صرف اخلاقی، سفارتی نہیںبلکہ جان اور مال کی عملی قربانیاں پیش کی ہیں۔ عسکری جدوجہد ہو یا مہاجرین جموںو کشمیر کی آبادی، متاثرین LOCکی مدد کا مرحلہ ہو یا پھر کشمیریوںکی آواز کو عالمی سطح پر بلند کرنا پاکستانیوں نے کسی بھی جگہ، موقع، مرحلہ یا پلیٹ فورم پر پیچھے نہیںہٹے۔ اگر حقیقت پسندی سے کام لیا جائے تو آج پاکستان اور پاکستانی عوام کے سوا کشمیریوں کا کوئی سہارا یا ہمدرد سامنے نہیں آیا۔ اس بار بھی جہاں حکومت نے کشمیریوں سے عہدساز اظہار یکجہتی کرکےہرطرح کی مدد کا اعلان کیا بالکل اسی طرح پاکستانی عوام نے بھی سب کچھ چھوڑ کر کشمیری عوام کیلئے باہر نکل آئے۔ پہلی مرتبہ پاکستان کے یوم آزادی کو کشمیریوں سے منسوب کرکے کشمیری پرچم ہر پاکستانی کے گھر پر لہرایا۔ بھارت کے یوم آزادی پر پاکستان سمیت دنیا بھر میںمقیم پاکستانیوں نے کشمیریوں کیلئے یوم سیاہ منا کر کشمیریوں سے اپنی لازوال محبت و عقیدت نبھائی۔ لندن سمیت برطانیہ کے مختلف حصوں میں پاکستانیوں نے آرٹیکل 370کی منسوخی کے بعد سے ہی بڑے بڑے احتجاجی مظاہروں اور تقریبات میںشرکت کیساتھ ساتھ ممبران پارلیمنٹ سے لابنگ شروع کردی۔ یہ وقت تھا کہ کشمیری پاکستان اور پاکستانی عوام کی ان قربانیوں اور جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کریں لیکن تصویر کے دوسرے رخ پر حالات اس وقت برمنگھم میں گھمبیر نظرآئے جب ایک تقریب میںپاکستان مخالف تقریر کی گئی۔ قوم پرستانہ نظریہ اور خودمختاری بھی کشمیریوں کا ایک حق ہے لیکن اس کی آڑ میںپاکستان اور پاکستانیوں کو برا بھلا کہہ کر بھارت سے ملانا درست عمل نہ ہے۔ یہی کچھ ہوا برمنگھم کی ایک ایسی تقریب میںجو بظاہر تو کشمیریوں کی حمایت کیلئے منعقد تھی، یہ تو بھلا ہو محب الوطن پاکستانی زاہد چوہدری ایڈووکیٹ کا جنہوں نے موقع پر ہی مزاحمت کردی۔ پاکستان سے جذباتی انداز میں عقیدت و محبت کرنے والے کچھ افراد نے بائیکاٹ کرکے تقریب سے چلے گئے۔ تصویر کا یہ دوسرا رخ بھیانک اور قابل افسوس بھی ہے کیونکہ ایسے وقت میںجب کشمیریوں کیلئے پاکستان اور پاکستانی عوام اپنا سب کچھ، اپنی سلامتی، اپنی معیشت دائو پر لگا کر کشمیریوں کیلئے عملاً میدان میںاتر آئی تو ایسے میںان کی ساری جدوجہد اور قربانیوں کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی مگر چند بے ضمیر اور بھارتی لابی کے پیروکار تماشائی بنے رہے۔ پاکستان کے نام پر وجود میںآنے والے مقامی پریس کلب کے صدر سمیت مختلف عہدیداران بھی پاکستان کے حق میںایک لفظ تک نہ بول سکے۔ افسوس صرف اس بات پر ہے کہ بھارتی لابی کشمیریوں کو نظریے کی بنیاد پر تقسیم کرنے میںمصروف ہے لیکن پاکستان کے نام پر نام نہاد سیاست اور صحافت کرنے والے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اس حقیقت میںکوئی دو رائے نہیں موجودہ حالات اور بھارتی بڑھتی جارحیت میں کشمیریوں کا ہمدرد اور حمایت کار صرف پاکستان اور پاکستانی عوام ہیں۔ میں ان سطور کے ذریعے پاکستان اور پاکستانی عوام کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ہم اپنے قلم کی سودے بازی اور ضمیرفروشی کی بجائے حقیقت کا ادراک کرکے پاکستان کے نام پر آنچ نہیں آنے دیںگے۔ نظریہ الحاق پاکستان یا خود مختار کشمیر لیکن یہ سب کچھ اس صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب کشمیریوں کو حق خودارادیت ملے گا۔ اس سے پہلے کشمیریوں کو تقسیم کرنے کیلئے یہ نظریات پھیلائے جارہ ہیں۔ اسلئے ہمیں حق خودارادیت کے حصول کیلئے عملاً جدوجہد کرنی ہوگی۔ یاد رکھیں یہ جدوجہد پاکستان اور پاکستانی عوام کی قربانیوں اور بھرپور ساتھ کے بغیر رنگ نہیںلاسکتی۔ اس لئے ہمیںتصویر کے دوسرے رخ کو سامنے رکھ کر ضمیر اور وطن فروشوں پرنظر رکھنی ہوگی ۔