کمانڈ کا تسلسل

September 01, 2019

برّی فوج کے سربراہ، جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدّتِ ملازمت میں تین سال کی توسیع درحقیقت ’’فُل ٹرم‘‘ توسیع ہے۔ وزیرِ اعظم، عمران خان کے 19 اگست کے اعلان کو عام طور پر مُلک بھر میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا اور دوست مُمالک نے بھی اس فیصلے کو سراہا۔ وہ حلقے جو آرمی چیف کی مدّتِ ملازمت میں توسیع کے خلاف تھے اور وہ بھی، جن کا دعویٰ تھا کہ جنرل باجوہ توسیع نہیں لیں گے، سب نے توسیع کے فیصلے پر عمران خان پر تو خُوب نکتہ چینی کی، لیکن حکومت نے اپنے فیصلے کے حق میں جو دلائل پیش کیے، اُن سے کوئی اختلاف نہیں کیا۔ حکومت کے مخالفین نے بھی گویا تسلیم کیا کہ خطّے کی پیچیدہ صُورتِ حال، بالخصوص مذموم بھارتی عزائم کے پیشِ نظر جنرل باجوہ کا اپنے منصب پر متعیّن رہنا ضروری ہے۔ اِس صُورتِ حال کو اِس لحاظ سے خوش آئند ہی قرار دیا جائے گا کہ ہمارے مُلک کے سیاست دان کسی سیاسی منصب پر فائز شخصیت پر، خواہ وہ عوامی تائید کے نتیجے ہی میں اس عُہدے تک کیوں نہ پہنچی ہو، کم ہی متفّق ہوتے ہیں۔ اُس پر طرح طرح کے الزامات عاید کر دیئے جاتے ہیں اور اُس کی راہ میں بے شمار رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں۔ اب وہی سیاست دان ایک اہم ترین عسکری منصب پر فائز شخصیت کی ملازمت میں توسیع سے نہ صرف متفّق نظر آئے، بلکہ فیصلے کو صُورتِ حال کا متقاضی قرار دیتے ہوئے اُس کی ستائش بھی کر رہے ہیں۔عسکری حلقوں میں یہ کہاوت بہت معروف ہے کہ ’’جنگ کے دَوران جرنیل اور گھوڑا تبدیل نہیں کیا جاتا۔‘‘ یہ کہاوت، پاکستان کی موجودہ صُورتِ حال سے مطابقت رکھتی ہے اور جنرل باجوہ کی مدّتِ ملازمت میں توسیع کو اسی تناظر میں دیکھا گیا ہے۔

جنرل باجوہ نے 29 نومبر 2016ء میں پاک فوج کی کمان سنبھالی تھی۔وزیرِ اعظم، نواز شریف نے اُنہیں کئی سینئر جرنیلوں پر ترجیح دیتے ہوئے آرمی چیف کے عُہدے پر تعیّنات کیا۔ بلاشبہ، وہ اس اہم ترین منصب پر متمکّن ہونے کے تمام تقاضے بہ طریق احسن پورے بھی کرتے تھے۔ جنرل باجوہ نے 24 اکتوبر 1980 ء میں فوج میں شمولیت اختیار کی۔ کینیڈین فورسز کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج، ٹورنٹو، نیول پوسٹ گریجویٹ یونی ورسٹی، امریکا اور اسلام آباد کی نیشنل ڈیفینس یونی ورسٹی کے گریجویٹ ہیں۔این ڈی یو اور کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج، کوئٹہ میں انسٹرکٹر رہے۔ 16 بلوچ رجمنٹ، انفنٹری بریگیڈ اور ناردرن ایریا کمانڈر ایف سی این اے میں انفنٹری ڈویژن کی کمان کی۔ نیز، راول پنڈی کور کی کمان بھی کرتے رہے۔ کانگو میں پاکستانی دستے کے سربراہ رہے۔ اختصار کے ساتھ پیش کیے جانے والے اِس عسکری پس منظر کے علاوہ، جنرل باجوہ نے مُلک بالخصوص شمالی وزیرستان اور ملحقہ علاقوں میں دہشت گردی ختم کرنے، بلکہ جڑ سے اُکھاڑنے کے لیے جو کردار ادا کیا، وہ یقیناً ناقابلِ فراموش ہے۔ اُنھوں نے آرمی پبلک اسکول سانحے کے موقعے پر دہشت گردی کے ناسور کو ہر صُورت شکست دینے کا عزم کیا اور اس میں کام یاب بھی ٹھہرے۔ان کی سربراہی میں دہشت گردوں کے خلاف جو جنگ لڑی گئی، وہ اس لیے ایک دشوار ترین اور پیچیدہ جنگ تھی کہ اس میں پاک فوج کا مقابلہ چُھپے دشمنوں سے تھا۔علاوہ ازیں، جنرل باجوہ مُلکی دفاع ہی کے لیے نہیں، مُلکی تعمیر وترقّی، استحکام، معیشت کی بحالی اور قانون کی حکم رانی کے لیے بھی پاک فوج کے کردار کو انتہائی مؤثر انداز میں بروئے کار لائے۔ اُنہوں نے دفاعی بجٹ میں کٹوتی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ’’ اس فیصلے سے ہم قوم پر احسان نہیں کررہے، کیوں کہ ہم ہر قسم کے حالات میں اکٹھے ہیں۔‘‘ نیز، بجٹ کے موقعے پر اُنہوں نے’’ معیشت بحالی مہم‘‘ کے پیشِ نظر تن خواہوں میں اضافے کے حوالے سے فیصلہ کیا کہ اضافی تن خواہوں کا اطلاق صرف فوجی جوانوں پر ہوگا، افسران اضافی تن خواہ نہیں لیں گے۔ پھر یہ کہ جنرل باجوہ بین الاقوامی سطح پر بھی’’عسکری سفارت کاری‘‘ میں مصروف رہے اور دنیا کے اہم مُمالک میں جاکر اعلیٰ حکّام سے ملاقاتیں کیں، جن کے حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوئے۔

بلند آواز میں مخالفانہ گفتگو کی سکت و ہمّت نہ رکھنے والے بعض طبقات، سرگوشیوں میں اپنے تحفّظات کا اظہار کر رہے ہیں اور مدّتِ ملازمت سے متعلقہ بعض معاملات پر تنقید بھی ہورہی ہے، تاہم، اس طرح کے افراد کی تعداد بہت کم ہے۔ اگر اس فیصلے کو سیاسی طور پر دیکھا جائے، تو اس طرح کی آوازیں بھی سُننے کو مل رہی ہیں کہ’’جنرل باجوہ کی مدّتِ ملازمت کی توسیع سے شاید عمران خان کی حکومت کو بھی اپنی آئینی مدّت پوری کرنے کا موقع مل جائے۔‘‘ تاہم، بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کا یہ فیصلہ شاید خود اُن کے حق میں فائدہ مند نہ ہو۔ اس حوالے سے یہ پہلو بھی زیرِ بحث آیا کہ جنرل باجوہ کی مدّتِ ملازمت رواں سال 29 نومبر کو ختم ہونی تھی، لیکن روایات کے برعکس اُنہیں توسیع دیے جانے کا اعلان تین ماہ قبل ہی کیوں کردیا گیا؟ ہمارے ہاں عام طور پر آرمی قیادت میں تبدیلی یا مدّتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق قیاس آرائیوں کا سلسلہ افواہوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ نیز، اپوزیشن کی جانب سے اس اہم عسکری ڈسپلن کے معمول کو نہ جانے کس کس انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ اِس بار بھی جولائی ہی سے قیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہوچُکا تھا۔ عمران خان کے اُن بیانات کے حوالے دیے جارہے تھے، جن میں وہ بڑی قطعیت اور غیر مبہم الفاظ میں کہہ چُکے تھے کہ’’ وہ اہم مناصب پر فائز شخصیات کی مدّتِ ملازمت میں توسیع کے حق میں نہیں، کیوں کہ اس سے اداروں کی مجموعی کارکردگی پر منفی اثر پڑتا ہے۔‘‘ اُنہوں نے ماضی میں فوجی سربراہان کی مدّتِ ملازمت میں توسیع کو ناپسندیدہ قرار دیا تھا۔ پھر اپوزیشن نے یہ تاثر بھی پیدا کرنے کی کوشش کی کہ’’ اُن کے ساتھ حکومت یا احتساب کے ادارے جو سلوک کر رہے ہیں، وہ عمران خان کی ایماء پر ہو رہا ہے اور یہ ایک انتقامی عمل ہے، جس کے لیے وزیرِ اعظم مبیّنہ طور پر فوجی سپہ سالار کی حمایت کو بھی استعمال کر رہے ہیں۔‘‘ اس لیے جب نومبر میں ان کی مدّتِ ملازمت ختم ہو جائے گی اور نئے آرمی چیف اپنا منصب سنبھالیں گے، تو صُورتِ حال تبدیل ہوجائے گی۔ ممکن ہے کہ اپوزیشن اس طرح اپنے کارکنان اور رہنمائوں کو حوصلہ دینا چاہتی ہو، مگر اس طرح کی باتوں سے بعض خرابیاں پیدا ہو رہی تھیں۔ غالباً مدّتِ ملازمت میں توسیع کا اعلان قبل از وقت کرنے کے پیچھے یہی سوچ کار فرما رہی ہوگی کہ اس معاملے میں پھیلائی جانے والی قیاس آرائیوں کا سدّ ِباب کیا جا سکے۔

جنرل باجوہ کی مدّتِ ملازمت میں توسیع کے باعث آئندہ تین برسوں میں تمام کورز کے موجودہ کمانڈرز ریٹائر ہو جائیں گے۔ اگر جنرل باجوہ کو توسیع نہ ملتی، تو جن چار جرنیلوں میں سے آرمی چیف کا انتخاب ہونا تھا، اب امکان ہے کہ اُن میں سے ایک کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے عُہدے کے لیے منتخب کیا جائے گا۔ اس وقت سنیارٹی کے اعتبار سے سدرن کمانڈ کے کمانڈر، لیفٹیننٹ جنرل، عاصم سلیم باجوہ سینئر ترین جنرل ہیں، لیکن وہ رواں ماہ 22 ستمبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اُن کے بعد چیئرمین پاکستان آرڈیننس فیکٹری، لیفٹیننٹ جنرل، صادق علی کا نام تھا، لیکن وہ بھی 5 اکتوبر کو ریٹائر ہو جائیں گے۔پھر نیشنل ڈیفینس یونی ورسٹی کے صدر، لیفٹیننٹ جنرل، عامر ریاض ہیں، وہ بھی4 اکتوبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔ گویا جنرل باجوہ کی موجودہ مدّتِ ملازمت کی تکمیل کی تاریخ (29 نومبر) سے قبل ہی یہ تمام جرنیل آرمی چیف کی دوڑ سے باہر ہو گئے تھے۔ ان کے بعد سینئر موسٹ، ڈائریکٹر جنرل اسٹریٹجک پلاننگ ڈویژن، لیفٹیننٹ جنرل، سرفراز ستار ہیں۔ دوسرے نمبر پر چیف آف جنرل اسٹاف، لیفٹیننٹ جنرل، ندیم رضا، تیسرے نمبر پر کور کمانڈر کراچی، لیفٹیننٹ جنرل ہمایوں عزیز اور ان کے بعد کور کمانڈر ملتان، لیفٹیننٹ جنرل محمّد نعیم اشرف ہیں۔ امکان یہی ہے کہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے عُہدے کے لیے ان چار ناموں پر غور ہوگا۔ یاد رہے کہ آرمی چیف کو توسیع دینے کا عمل پہلی مرتبہ نہیں ہوا، بلکہ ماضی میں بھی فوجی سربراہان کو توسیع دی جاتی رہی ہے۔ ضیاء الحق سب سے زیادہ، تقریباً 12 سال آرمی چیف رہے۔ اُن کی جہاز کے حادثے میں وفات کے بعد ہی یہ عُہدہ خالی ہوا تھا۔ طویل مدّت تک آرمی چیف رہنے والے دوسرے جنرل، پرویز مشرف تھے، جو نو سال تک اس عُہدے پر براجمان رہے اور بہ طورِ صدر خود کو خود ہی توسیع دیتے رہے۔ اس عرصے کے دَوران فوج کے معاملات کی نگرانی کے لیے وائس چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ تخلیق کیا گیا۔ جنرل یوسف، جنرل احسن سلیم حیات اور ایک ماہ کے لیے جنرل اشفاق پرویز کیانی اس عُہدے پر فائز رہے۔بعدازاں، جنرل کیانی آرمی چیف بنے اور تین سال کی توسیع لے کر چھے سال تک کمان کرتے رہے۔ان کے بعد تعیّنات ہونے والے آرمی چیف، جنرل راحیل شریف کی توسیع کے لیے بھی اسلام آباد میں بینرز تک لگ گئے، لیکن اُنہوں نے ریٹائرمنٹ سے کئی ماہ قبل ہی توسیع نہ لینے کا واضح اعلان کر دیا، جس کے باعث بات آگے نہ بڑھ پائی۔ جنرل باجوہ توسیع لینے والے پانچویں جرنیل ہیں، جن کی مدّت ملازمت رواں سال 29 نومبر کو مکمل ہونا تھی، لیکن اب 29 نومبر 2022ء کو ختم ہو گی۔ اگر ہم2022ء کے منظر نامے پر نظر ڈالیں، تو موجودہ27 لیفٹیننٹ جنرلز میں سے 23 جنرلز نومبر 2022ء سے پہلے ریٹائر ہو جائیں گے۔ یعنی موجودہ جنرلز میں سے اُس وقت صرف چار جرنیل موجود ہوں گے، جو سینئر موسٹ بھی ہوں گے۔ اُن میں ایڈجوٹنٹ جنرل، لیفٹیننٹ جنرل، ساحر شمشاد، دوسرے نمبر پر ڈائریکٹر جنرل جوائنٹ اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل، اظہر عباس، تیسرے نمبر پر انسپکٹر جنرل کمیونی کیشن اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی لیفٹیننٹ جنرل، نعمان محمود اور چوتھے نمبر پر ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی، لیفٹیننٹ جنرل، فیض حمید ہیں۔ البتہ، ضروری نہیں کہ اُنہیں میں سے کسی کو آرمی چیف بنایا جائے۔

جنرل سر فرینک سے جنرل باجوہ تک…

جنرل سر فرینک والٹر میسروی

پاکستان کے پہلے کمانڈر اِن چیف تھے، جو اگست 1947 ء سے فروری 1948 ء تک پاک فوج کے سربراہ رہے۔ تاہم، چند ماہ بعد ہی اُنھیں ریٹائر کردیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ قائدِ اعظم، محمّد علی جناح کے کشمیر سے متعلق احکامات نہ ماننے پر اُنھیں عُہدے سے سبکدوش کیا گیا۔

جنرل سر ڈگلس ڈیوڈ گریسی

فروری 1948 ء سے جنوری 1951ء تک پاک فوج کے سربراہ رہے۔ وہ پاکستان کے آخری برطانوی آرمی چیف تھے۔ جنرل ڈگلس نے بھی قائدِ اعظمؒ کے حکم کے باوجود کشمیر کے محاذ پر فوج نہیں بھیجی، جس پر اُنھیں جبری ریٹائر کیا گیا۔

فیلڈ مارشل ایّوب خان

پاکستان کے پہلے مقامی اور مسلمان فوجی سربراہ تھے۔جنوری 1951ء سے اکتوبر 1958 ء تک اس عُہدے پر رہے۔ بعدازاں، صدرِ پاکستان بنے۔ وہ پاکستان کے واحد فیلڈ مارشل ہیں۔


جنرل محمّد موسیٰ

ہزارہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے جنرل محمّد موسیٰ اکتوبر 1958 ء سے جون 1966ء تک آرمی چیف رہے۔ اُنھیں ایّوب خان کے بہت قریب تصوّر کیا جاتا تھا، یہی وجہ ہے کہ ایّوب خان نے خود صدر بننے کے بعد پانچ جرنیلوں پر ترجیح دیتے ہوئے اُنھیں آرمی چیف مقرّر کیا۔ وہ ایّوب اور ضیاء حکومت میں گورنر بھی رہے۔

جنرل یحییٰ خان

ایّوب خان نے 1966 ء میں جنرل یحییٰ خان کو آرمی چیف بنایا اور پھر1969 ء میں جب وہ صدارت سے مستعفی ہوئے ،تو یحییٰ خان نے یہ عُہدہ بھی سنبھال لیا۔1971 ء میں سقوطِ ڈھاکا کے بعد اُنھیں عُہدوں سے دست برداری کے ساتھ، جیل کا منہ دیکھنا پڑا۔

جنرل گل حسن خان

ذوالفقار علی بھٹّو نے جنرل گل حسن خان کو آرمی چیف بنایا، تاہم وہ صرف دسمبر 1971 ء سے مارچ 1972 ء تک یعنی دو ماہ اس عُہدے پر متمکّن رہے۔بعدازاں، اُنھیں حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کی روشنی میں عُہدے سے ہٹا کر آسٹریا میں سفیر مقرّر کردیا گیا۔

جنرل ٹکا خان

مارچ1972 ء سے مارچ 1976ء تک فوج کے سربراہ رہے۔بعدازاں، مدّتِ ملازمت کے اختتام پر بھٹّو حکومت میں دفاع کے مشیر مقرّر کیے گئے۔اُنھوں نے پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے بھرپور سیاست کی اور بےنظیر بھٹّو کے پہلے دورِ حکومت میں گورنر پنجاب بھی رہے۔

جنرل ضیاء الحق

جنرل ضیاء الحق ایک طویل عرصے تک ، مارچ 1976 ء سے اپنی وفات یعنی 17اگست 1988ء تک آرمی چیف رہے۔ اُنھیں ذوالفقار بھٹّو نے سات جرنیلوں پر فوقیت دیتے ہوئے فوج کا سربراہ بنایا تھا۔ بعدازاں، اُنھوں نے ہی بھٹّو حکومت کا تختہ اُلٹا۔ آرمی چیف ہونے کے ساتھ، صدرِ مملکت کا عہدہ بھی کئی برس تک اُن کے پاس رہا۔

جنرل مرزا اسلم بیگ

اگست 1988 ء میں جنرل ضیاء الحق کی طیارہ حادثے میں وفات کے بعد پاک فوج کی کمان سنبھالی۔ اُن کی مدّتِ ملازمت میں توسیع کا معاملہ اٹھا، مگر صدر غلام اسحاق خان نے توسیع دینے سے انکار کر دیا۔ یوں اگست 1991ء میں ریٹائر ہو گئے۔اُن کے دور میں’’ ضربِ مومن‘‘ جیسی بڑی اور بے مثال فوجی مشقیں کی گئیں۔

جنرل آصف نواز جنجوعہ

صدر غلام اسحاق خان نے اگست 1991ء میں انہیں آرمی چیف مقرّر کیا، لیکن جنوری 1993ء میں اُنھیں دِل کا دورہ پڑا، جو جان لیوا ثابت ہوا۔ اُنھوں نے سندھ میں ڈاکوؤں کے خلاف بڑا آپریشن کیا، جس کے بعد’’ کراچی آپریشن‘‘ کا بھی آغاز کیا گیا۔

جنرل عبدالوحید کاکڑ

جنوری 1993 ء سے جنوری 1996ء تک فوج کی قیادت کی۔ اُنھوں نے بہ طور آرمی چیف صدر غلام اسحاق خان اور وزیرِ اعظم، نواز شریف کے درمیان سنگین تنازعے میں ثالثی کا کردار بھی ادا کیا۔

جنرل جہانگیر کرامت

بے نظیر بھٹّو نے جنوری 1996 ء میں جنرل جہانگیر کرامت کو آرمی چیف مقرّر کیا۔ حکومت کی تبدیلی کے بعد میاں نواز شریف وزیراعظم بنے، تو سیاسی اور فوجی قیادت میں اختلافات نے جنم لے لیا، جس کے سبب اگست 1998 ء میں جنرل جہانگیر کرامت کو عُہدہے سے ہٹا دیا گیا۔ وہ مشرّف دور میں امریکا میں پاکستانی سفیر بھی رہے۔

جنرل پرویز مشرّف

میاں نواز شریف نے اگست1998 ء میں جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف مقرّر کیا۔تاہم، اُنھوں نے1999 ء میں نواز حکومت کا تختہ اُلٹ کر خود اقتدار سنبھال لیا۔ بعدازاں، نومبر 2007 ء میں فوج کی کمان جنرل کیانی کے سپرد کردی اور خود صدرِ مملکت کے عُہدے پر فائز رہے، مگر چند ماہ بعد ہی 18 اگست 2008 ء کو اُنھیں یہ عہدہ بھی چھوڑنا پڑا۔

جنرل اشفاق پرویز کیانی

صدر، آصف زرداری نے نومبر 2007 ء میں ان کا تقرّر کیا۔بعدازاں اُنھیں مدّتِ ملازمت میں توسیع بھی دی گئی۔یوں وہ نومبر 2013 ء تک پاک فوج کی قیادت کرتے رہے۔

جنرل راحیل شریف

جنرل راحیل شریف کو بھی وزیرِ اعظم نواز شریف نے آرمی چیف مقرّر کیا، جنھوں نے نومبر 2013ء میں عُہدہ سنبھالا۔ اُنھوں نے’’ آپریشن ضربِ عضب‘‘ کا آغاز کیا، جس نے دہشت گردوں کی کمر توڑ ڈالی۔ کئی حلقوں کی جانب سے اُنھیں توسیع دینے کے مطالبات سامنے آئے، مگر اُنھوں نے دوٹوک الفاظ میں توسیع لینے سے انکار کردیا اور نومبر 2016ء میں ریٹائر ہو گئے۔بعدازاں، جنرل راحیل شریف کو سعودی عرب کی سربراہی میں قائم 44 مسلم ممالک کی افواج کا سربراہ مقرّر کردیا گیا۔

جنرل قمر جاوید باجوہ

جنرل قمر جاوید باجوہ پانچویں جنرل ہیں، جنہیں نواز شریف نے اس عُہدے پر تعیّنات کیا۔ اُنھوں نے نومبر 2016ء میں یہ عُہدہ سنبھالا۔اُنھیں رواں برس ریٹائر ہونا تھا، تاہم، وزیرِ اعظم، عمران خان نے گزشتہ ماہ ان کی مدّتِ ملازمت میں مزید 3 سال کی توسیع کردی۔یوں وہ نومبر 2022 ء تک پاک فوج کی قیادت کریں گے۔