کیا رقص اور موسیقی حرام ہیں

February 10, 2013

آئیے ایک بحث کا آغاز کرتے ہیں کہ کیا اسلام میں رقص اور موسیقی حرام ہیں جو احباب ان چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں وہ بھی اپنا نقطہ ء نظر بیان فرمائیں۔ میں اس امید سے یہ کالم لکھ رہا ہوں کہ ممکن ہے اسے پڑھ کر کچھ دماغوں کی بند کھڑکیاں کھل جائیں
آرٹ میں موسیقی ایک اہم شعبہ ہے حضرت داؤد علیہ السلام کو موسیقی میں نمایاں مقام حاصل ہے انہوں نے عبرانی موسیقی مدون کی تھی اور مصری اور بابلی مزامیر (سازوں) کو ترقی دے کر نئے آلات موسیقی ایجاد کئے تھے جن میں قانون اور بربط خاص طور پر مشہور ہیں زبور ان کی آسمانی کتاب ہے اس میں ہر باب کے آغاز میں یہ ہدایات تحریر ہیں کہ سردار مغنی ان آیات کو کس ساز کے ساتھ گائے آخری باب میں یہ الفاظ ہیں ’قرنائی پھونکتے ہوئے خدا کی ستائش کرو‘ بین اور بربط چھیڑتے ہوئے اس کی ستائش کرو بلکہ بجاتے اور ناچتے ہوئے اسکی ستائش کرو۔ بلند آواز سے جھانجھ بجا تے اور ناچتے ہوئے اسکی ستائش کرو۔ بلند آواز سے جھانجھ بجا کر اس کی ستائش کرو،
(تورات ص 616شائع کردہ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لاہور)
ہماری کتب روایات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری شرح بخاری میں لکھا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام باجے کے ساتھ گایا کرتے تھے۔
عربوں کی موسیقی زیادہ تر رجز خوانی اور حدی خوانی تک محدود تھی۔ حدی میں ایسا اثر تھا کہ اونٹ مست ہو کر تیز دوڑتے تھے حدی خوان کی آواز بعض اوقات اتنی اثرانگیز ہوتی کہ اونٹ دنوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرلیتے ہماری کتب روایات میں حضرت عمر فاروق  کو بہت درشت مزاج دکھایا گیا ہے مگر ایسی روایات بھی مل جاتی ہیں۔
حضرت عبدالرحمن بن عوف  فرماتے ہیں ایک دفعہ میں حضرت عمر کے مکان پر آیا میں نے سنا کہ اندر کمرے میں حضرت عمر حدی خوانوں کے سر میں گارہے ہیں میں نے پوچھا تو بولے تو نے سن لیا جب میں نے کہاں ہاں تو کہنے لگے تنہائی میں لوگوں کی طرح ہم بھی گاتے ہیں“
ایک دفعہ کسی قافلے کے ساتھ جارہے تھے ایک شعر اس ترنم سے پڑھا کہ لوگ سننے کے لئے ارد گرد جمع ہو گئے آپ نے یہ دیکھا تو جھٹ سے قرآن پڑھنا شروع کر دیا لوگ چلے گئے آپ نے پھر شعر پڑھا تو لوگ پھر آگئے اس طرح تین چار بار ہوا تو کہا کیسے شیطان ہیں شعر گاؤں تو آجاتے ہیں قرآن سناؤں تو بھاگ جاتے ہیں۔
ایک قافلہ کے ساتھ حضرت عمر، حضرت عثمان۔ حضرت ابن عباس، اور دیگر حضرات تھے شام ہوئی تو لوگوں نے مشہور گلوکار رباح فہری سے کچھ گانے کو کہا اس نے کہا رہنے دو حضرت عمر ساتھ ہیں۔ کہا گیا تم شروع کرو منع کریں گے تو رک جانا اس نے شروع کیا تو سننے والوں میں حضرت عمر بھی شامل ہو گئے رات بیت گئی صبح قریب آگئی تو حضرت عمر نے کہا ”اب بس کرو، رات بیت گئی ذکر الٰہی کا وقت ہو گیا ہے۔ دوسری رات بھی لوگوں نے فرمائش کی اور حضرت عمر گانا سنتے رہے تیسرے روز لوگوں نے کسی بازاری گانے کی فرمائش کی تو حضرت عمر نے منع کرتے ہوئے فرمایا (نہیں بھائی اس سے دلوں میں انقباض اور کدوت پیدا ہوتی ہے)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کسی زاہد خشک کی حسن و جمال سے نفور زندگی نہیں پر مسرت دنیاؤں کی بشارت دینے والی بہر حیات جانفزا ہے آپ کی محفلیں گل افشاں ہوتی تھیں لطیف مزاح کی چاندنی پر تبسم، کی پھوار پڑتی رہتی تھی۔ آپ نے گزشتہ تمدن کے ان اجزاء کو باقی رہنے دیا جو اسلام کے بنیادی اصولوں سے نہیں ٹکراتے تھے۔ مدینہ میں ایک شادی میں حضرت عائشہ صدیقہ دیگر عورتوں کے ساتھ دلہن کی رخصتی کرا کے دلہا کے گھر لے آئیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”عائشہ تمہارے ساتھ گانا بجانا تو تھا ہی نہیں دیکھو انصاری لوگ تو ایسے موقعوں پر گانے بجانے سے خوش ہوتے ہیں“
(بخاری پارہ 21باب93)
بخاری و مسلم کی ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والی ایک روایت میں ہے کہ مسجد نبوی میں ہنو اروزہ (حبشی قبیلہ) رقص کے ساتھ اپنے کرتبوں کا تماشا دکھا رہے تھے حضرت عائشہ فرماتی ہیں حضور نے فرمایا دیکھنا چاہتی ہو تو آؤ۔ ”میں اس طرح تماشا دیکھنے لگی کہ آپ کھڑے تھے اور میں آپ کے کندھے پر ٹھوڑی رکھے فنکاروں کے کرتب دیکھ رہی تھی“
خلفائے راشدین کے دور میں بھی زندگی اپنی مسرتوں کے ساتھ معاشرہ کے رگ و پے میں گردش کرتی رہی مذہبی پیشوائیت کا کوئی الگ منصب سامنے نہیں آیا۔ مساجد سنبھالنے والے مولوی مولانا نہیں ہوتے تھے یہ لوگ تو اس وقت پیدا ہوئے جب مسلمانوں پر عجمی اثرات غالب آنے لگے اور دین کے وارث موالی ہو گئے چونکہ عجمی مذاہب میں معبدوں کے پروہت زندگی سے دورراہبانہ طرز زیست اپنائے ہوئے تھے اس لئے دین مذہب میں تبدیل ہو گیا تو اسی طرح یہاں بھی زندگی کو وبال سمجھا جانے لگا۔ زیب و زینت کی چیزیں اپنے اوپر اور معاشرہ پر حرام کی جانے لگیں مسرتین چھینی جانے لگیں عراق جب مذہب کا گہوارہ بنا تو ہر طرح کی یبوست آکاس بیل کی طرح معاشرت پر چھاتی گئی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ مذہب اور زندگی ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے۔
جب بھی ایسا وقت آتا ہے تو زندگی جوئے رواں کی طرح اپنے راستے خود بنانے لگتی ہے اور مذہب تاریک غاروں میں مقید ہو کر اپنی زنجیریں خود ڈھالنے لگتا ہے یوں دونوں حقیقتوں اور ارتقائی منتروں سے دور ہوتی جاتے ہیں۔
حضرت عمر کے عہد تک عرب عورتوں میں شادی بیاہ کے گانے دف پر اپنے اندا کے مطابق چلے آتے تھے لیکن مردوں کا گانا حدی خوانی تک محدود تھا اس میں بھی طرب انگیز بارشوں کی چاشنی آزاد ہواؤں کی بہتی لے اور ندیوں کا زبروبم ہوتا تھامگر گانے کے اصول و ضوابط ایسے نہ تھے جیسے ایران میں تھے عرب میں پہلا شخص سعید بن مسجح ہے جس نے ایرانی نغمات کو عربی میں منتقل کیا اسکے بعد وہ شام چلا گیا وہاں سے اس نے رومی، ابرایطی اور اسطو خوسی الحان کو لیا پھر ایران میں اس نے باقاعدہ فن گلوکاری اور ساز بجانا سیکھا پھر اپنی تمام مہارتوں سے محاسن اخذ کئے اور عربی گانے ترتیب دئیے یوں عرب نئے لحن اور نئی موسیقی سے روشناس ہوا( کتاب الاغانی (ج3ص 81)ایک دوسرے شخص ابن محرز تھے ایرانی النسل تھے انکے والد محافظین کعبہ میں سے تھے زرد رو اور دارز قد آدمی تھے کبھی مکہ میں رہتے کبھی مدینہ میں یہاں ان کا تین تین ماہ قیام رہتا اور غزہ میلا سے باجا بجانا سیکھتے واپس جاکر تین ماہ مکہ میں قیام کرتے اور ایران چلے جاتے وہاں ایرانی نغمات سیکھتے وہاں سے شام جاکر رومی نغمات کی تعلیم حاصل کرتے پھر ان میں سے انتخاب کرتے اور عرب کے مزاج کے مطابق موسیقی ترتیب دیتے جس میں روم‘ ایران اور عرب کے محاسن کا امتزاج ہوتا وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے دو دو شعر اکٹھے گانے کا رواج ڈالا ابولفرح کا بیان ہے کہ ابن محرز کا بھی پہلا استاد سعید بن مسیح(IBN.emosajjah) ہی تھا۔
(کتاب الاغانی ج ۱ص145)
ابن خردازبہ کا بیان ہے کہ عبداللہ بن عامر نے ایران سے چند سوز خوان کنیزیں خریدیں اور انہیں مدینہ منورہ لے آیا وہ جمعہ کے روز اپنے فن کا مظاہرہ کرتیں۔ رقص دکھاتی اور گانا سناتی لوگ ذوق و شوق سے گانا سننے آتے تھے ایک ایرانی فنکار جب آیا تو چھا گیا اسے لوگوں نے نشیط(عیش بانٹنے والا) کہنا شروع کیا اس کا گانا سن کر عبداللہ بن جعفر بہت متاثر ہوا اس پرسائب بن خاش نے عبداللہ بن جعفر سے کہا میں تمہیں اسی ایرانی گانے کی دھن پر ایک عربی گانا بنا دیتا ہون چنانچہ اس نے یہ گت ترتیب دی ۔
ع لِمَنِ الدِّیَارْ رَسُوْمُھَا قِفِر
(جانے کس ملک کی پیار کی رسمیں لوٹ لینے والی ہیں)
ابن کلبی کا خیا ل ہے کہ مسلمانوں میں باقاعدہ گایاجانے والا یہ پہلا گانا تھا
(کتاب الا غانی ج1 ص179)
یہاں سے معلوم ہوتا ہ ہے کہ ایرانیوں نے عرب کی موسیقی پر کیا اثرات مرتب کئے مگر بات صرف موسیقی تک محدود نہیں ایرانی تمدن کے وسیع اثرات عربی تمدن نے جذب کئے عرب رقص و موسیقی کے لئے جو مجلس ترتیب دیتے تھے وہ بھی ایرانیوں کے انداز پرہوتی تھی۔یہ مجالس صرف رقص و غنا کے لئے نہیں ہوتی تھیں انہیں لڑیری محافل سمجھنا چاہیے ان کیلئے خوبصورت اور نازک و پاکیزہ اشعار کا انتخاب کیا جاتا تھا یا شعرا اپنا حسین ترین کلام پیش کرتے تھے ادبی مباحثے ہوتے عمدہ اور فصیح و بلیغ زبان میں بیان کئے جانے والے قصے سنائے جاتے تھے لطیف مزاح کے حامل لطائف و ظرائف ، بلند مرتبہ نادرہ گوئی غرضیکہ سب کچھ ہوتا شعراوادبا میں مسابقت اور قبولیت عامل حاصل کرنے کی کوششیں ہوتیں۔ بدویانہ ثقافت نے ایرانی ثقافت سے اثرات لئے تو بڑے خوشگوار تمدن کا آغاز ہوا۔ علامہ احمد امین مصری لکھتے ہیں
”یہ دور عجیب طرح کاتھا حجاز میں زہدو تقویٰ بھی تھا۔ حدیث اور فقہ کے درس بھی ہورہے تھے مگر ساتھ ہی عورتوں کے ساتھ تشبیب اور غزل و غناکا بھی دور دورہ تھا حتیٰ کہ موسم حج بھی اس سے مستثنا نہیں تھا۔ ادھر پہلی قسم کی زندگی تھی جو محدث اور فقیہ پیدا کر رہی تھی اور ادھر زندگی کا دوسرا رنگ تھاجو شاعر موسیقار مغنی اور رقاص پیدا کر رہاتھا۔“
(فجر اسلام ص 311)
(جاری ہے)