کوانٹم فزکس اور کائنات کا مستقبل

September 01, 2019

کائنات میں مادہ اور توانائی کے طرز عمل کو سمجھنے کے لیے جس علم کا سہارا لیا جاتا ہے اسےکلاسیکل فزکس کہا جاتا ہے۔ اسے وضاحت کے ساتھ سمجھنے کے لیے ایک مثال یہ دی جاسکتی ہے کہ کلاسیکل فزکس ایک ٹرین کی بڑھتی ہوئی رفتار اور ہوا میں اڑتے ہوئے پرندے کی حرکت کی وضاحت کرتی ہے۔ کلاسیکل فزکس کے برعکس کوانٹم فزکس کائنات کے طرز عمل کی بہت چھوٹے پیمانے پر وضاحت کرتی ہے، جیسے کہ ایٹم اور چھوٹے ذرات وغیرہ۔ یہ سائنسدانوں اور انجینئرز کو طبعیات کی حقیقتوں کی ایک نئی اور گہری تفہیم عطا کرتی ہے۔ یہ الیکٹرانز، ایٹمز اور مالیکیولز کے طریقہ کار کی وضاحت کرتی ہے۔ فزکس یعنی طبیعات میں کوانٹم تھیوری سے مراد ان ذرات (الیکٹران، پروٹون ، نیوٹران وغیرہ ) کی توضیح و تشریح ہے، جن سے مادہ بنا ہے اور ساتھ ہی یہ جائزہ لینا کہ یہ ذرات ایک دوسرے کے ساتھ اور توانائی سے کس طرح میل کھاتے ہیں۔

کوانٹم فزکس مادے کے اندر ایٹم کی انتہائی ذیلی سطحوں پر ہونے والی تحریک کی وضاحت کرتی ہے۔ سیمی کنڈکٹر، ٹرانسسٹر، کمپیوٹر اور پلاسٹک وغیرہ کوانٹم فزکس کی بصیرت کے نتائج ہیں۔ کوانٹم فزکس 20ویں صدی میں طبیعات کے میدان میں ہونے والی دوسری کئی پیش رفت کے ساتھ مل کر انسانی سماج کو بیش بہا ترقی دینے کی صلاحیت رکھتی ہے، خصوصاً نیوکلیئر فیوژن سے بے پناہ توانائی کی پیداوار ممکن ہورہی ہے لیکن ساتھ ہی جوہری ہتھیاروں کے سبب انسانی تباہی کا خطرہ بھی موجود ہے۔

سائنس کے مطابق اچانک کسی مادّے کو وجود میں لانا ناممکن ہے اور نہ ہی کسی مادّے کو معدوم کیا جاسکتا ہے۔ ’’کچھ پیدا نہیں ہوتا، کچھ تباہ نہیں ہوتا، سب چیزیں اپنی ہئیت یا شکل بدلتی ہیں‘‘، جدید علمِ کیمیا کے بانی سائنسدان لووازئیے نے مادے کے ناقابلِ تخلیق یا ناقابلِ فنا ہونے کے بارے میں نظریہ دیا تھالیکن کوانٹم کی سطح پر بات مختلف ہے۔

ہارورڈ یونیورسٹی میں اپلائیڈ فزکس کی فیلو، کرسٹینا بینی چیلمس کہتی ہیں،’ ’ایک مختصر عرصے کے لیے توانائی کو خلا سے وجود میں لانا ممکن ہے۔یہ اچانک ہوتا ہے۔ ہم اس کے وقت کا تعین نہیں کر سکتے کہ یہ کب ہوگا، لیکن یہ ہوتا ہے‘‘۔ بینی چیلمس نے اس ظاہر اور غائب ہونے کے لمحے کا ایک تجربے کے دوران مشاہدہ کیا۔ کوانٹم کے حوالے سے، جب ہم زمان و مکان کی بات کرتے ہیں تو ہم نینو میٹرِک اسکیلز (بہت ہی چھوٹے پیمانے) استعمال کرتے ہیں (جو ایک میٹر کے ایک اربویں حصے کی پیمائیش کرسکتے ہیں) اور بہت ہی قلیل مدت کی ارتعاشی لہر کو ماپ سکتے ہیں (یعنی ایک سیکنڈ کے ایک اربویں حصے کو)۔

یہ تجربہ کرنے کے لیے محققین نے ایک ’مکمل خلا‘ پیدا کیا، جو روشنی اور حدّت کے اثرات سے بھی مکمل طور پر آزاد تھا۔ ایسا انہوں نے درجہ حرارت کو منفی 269سینٹی گریڈ تک، یعنی تقریباً ’مطلق صفر درجہ حرارت‘ تک کم کر کے اور وہاں روشنی کی ہر شکل یا ہئیت کے وجود کے امکان کو ختم کر کے کیا جو اُس ’خالص ماحول‘ کو آلودہ کرسکتی تھی۔

بینی جیملس کہتی ہیں، ’’ایک مکمل خلا کے قریب اتنا ہی جایا جا سکتا ہے، ہم اس سے زیادہ نہیں جا سکتے‘‘۔

اس آلے کے اندر انھوں نے ایک ایسا کھوج لگانے والا خاص کرسٹل لگایا تھا جو اس مطلق خلا میں لہروں کے ظاہر ہونے اور غائب ہونے پر ردعمل دکھاتا تھا۔ مطلق خلا میں مادے اور الکٹرومیگنیٹک ریڈی ایشن کے معدوم ہوجانے کے بعد یہی رہ جاتا ہے۔

اس کرسٹل پر لہروں کے ظاہر اور غائب ہونے کی وجہ سے تبدیل ہوتی ہوئی خصوصیات کے مشاہدے سے بینی چیلمس اور ان کی ٹیم، الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ کی لہروں کو ماپنے کے قابل ہوسکیں۔ روایتی فزکس میں ’خلا‘ وہ ماحول ہے، جہاں کسی شے کا وجود نہیں ہوتا ہے۔ لیکن کوانٹم تھیوری (نظریہِ مقادیر برقیات) میں اسے تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔ اس وقت بھی ایک بہت ہی مختصر لمحے کے لیے اس مطلق خلا میں ذرات، لہروں کا اُتار چڑھاؤ اور توانائی اتنی کم مقدار اور غیر مرئی ہئیت میں لطیف سا وجود رکھتے ہیں کہ اُن کا ماپنا فی الحال ناممکن ہے۔

خلا کے اندر اِن لہروں کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے خفیف سی روشنی کا اچانک اور بے ساختہ وجود اس وقت بنتا ہے، جب ایک ایٹم معدوم ہو رہا ہوتا ہے۔ لہروں کے اس طرح ماپنے سے علم کے اس شعبے میں ایک بہت بڑی پیش رفت ممکن ہے۔

حالانکہ بینی چیلمس اقرار کرتی ہیں کہ ایک بڑے انداز میں ہم اب بھی ان مظاہر کو سمجھنے سے کوسوں دور ہیں، لیکن یہ اس وقت کوانٹم فزکس اور ان غیر مرئی ذرات کی پُر اسراریت کو منکشف کرنے میں مدد دے سکتے ہیں جو ’روح‘ کر طرح محسوس ہوتے ہیں۔

کوانٹم فزکس کے ذریعے ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ ایٹم اور ایٹم کی ذیلی سطحوں میں مسلسل حرکت اور تبدیلی جاری رہتی ہے۔ ایٹم ایک دوسرے سے یوں جُڑے ہوتے ہیں کہ اُن میں ذرات کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے، الیکٹرانز کا ایک ایٹم سے دوسرے ایٹم میں تبادلہ جاری رہتا ہے، توانائی اور مادے کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ اس نظریے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ تبدیلی ایک تسلسل میں رونما ہونے کے بجائے ایک بتدریج عمل سے گزرتی رہتی ہے۔