اسٹیٹ پلرز کا میدانِ پلاسی

February 11, 2013

دنیا کی ہر ریاست اسٹیٹ پلرز پر کھڑی ہو تی ہے ۔جیسے پارلیمنٹ ، عدلیہ ، ایگزیکٹو، مسلح افواج ۔ یہ طے ہے کہ ان آئینی اداروں کے درمیان ریاست چلانے کیلئے ورکنگ ریلیشن شپ اور قومی ہم آہنگی ضروری ہے ۔ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟لیکن پہلے کچھ تاریخی اور تلخ حقائق دیکھئے۔
الیکشن تھا نئے ملینیم کے پاکستانی برانڈ ڈکٹیٹر کا۔ جسے عدالتی فیصلے نے باوردی صدارت کی اجازت دی ۔ کاغذ ات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے دوران میں نے اعتراضاتی عذر داری پر بحث کی ۔الیکشن کمیشن کا کھچا کھچ بھرا ہوا آڈیٹو ریم جہاں کچھ دن پہلے ہی میں نے ایک اور انتخابی مقدمے میں دلائل دیئے تھے تبدیل شدہ نظر آیا ۔ وکلاء کے ہمراہ میں سب سے آگے پہنچ گیا جہاں اعتراض کرنے والے وکیل کی نشست مخصوص تھی ۔ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وزیر اعظم شوکت عزیز کیلئے الیکشن کمیشن کے بنچ کے ساتھ سیٹ سجی تھی ۔ جسٹس قاضی فاروق تب چیف الیکشن کمشنر تھے۔سپریم کورٹ کے جج انتہائی منصف مزاج ،پو ٹھو ہاری ملی ہندکو بو لنے والے ،ھزارہ وال ۔ ھندکو اور پو ٹھوہاری کی سی حرفی ، ماہیا ، ڈھولا ، ٹپہ اور بیت، صدیوں سے مشترک بولی دانشور اور شاعر رکھتے ہیں ۔ غریب چند ، سائیاں ، چِنگی، بَردا سمیت بہت سارے لجنڈ۔ھزارہ وال آج کل صوبہ مانگ رہے ہیں ۔ نجانے اس پر شاعر کچھ بول رہے ہیں یا نہیں ۔میں ہزارہ کا حامی ہو ں ۔ جسٹس قاضی ارکان کے ہمراہ نشست پر بیٹھے تومیں کھڑا ہوگیا۔اعتراض کیا کہ وزیر اعظم کو ریفری کے برابر سیٹ پر کیوں بٹھایا گیا ؟ قاضی نے وقت کے وزیر اعظم کو دیکھا تو پہلے حیران سے ہو ئے ،پھر کہا ۔ آپ کا اعتراض درست ہے ، وزیر اعظم سائلوں کی نشست پر تشریف لے جائیں۔ شوکت عزیز بنچ سے اترے اور میرے ساتھ والی کرسی پر آکر بیٹھ گئے ۔ 2008ءء کا الیکشن منعقد کرانے والا انتہائی متنا زع اور ظفر علی شاہ کیس کی طاقت سے ون مین پارلیمنٹ بننے والا آمر تھا۔ مگر سوائے اس کی اپنی ٹیم کے کسی نے الیکشن کے دوران یا اس کے بعد دھاندلی ، جُھر لو ، ٹھپہ یا غیر شفاف کا شور نہیں ڈالا۔
2013ءء کے الیکشن کی شروعات ایسی ہیں جن میں آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کی خواہش مند آدھی سے زیادہ موٴثر سیاسی قوتیں اُس ادارے کو نا قابل قبول حد تک متنازع کہہ رہی ہیں جس نے سب کو ہموار گراوٴنڈ پرمنصفانہ الیکشن کی ضمانت دینی ہے ۔ پاکستان کے انتخابات کی تاریخ میں الیکشن کمیشن کے حوالے سے ایسا تنازعہ پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ اس بات میں بھی کسی شک کی گنجائش نہیں کہ الیکشن ہارنے والے فرد اور جماعت کو الیکشن میں دھاندلی کے سواکچھ نظر نہیں آتا ۔لیکن 1973ءء کے آئین کے نفاذ کے بعد منعقد ہو نے والے وہ الیکشنز جنہیں غیر شفاف ، چوری شدہ یادھاندلی آمیز کہا گیا وہاں ایسے الزامات انتخابات کے بعد سامنے آئے یا انتخابی عمل کے دوران ۔ ایک بات جو قانونی، آئینی اور قدرتی انصاف پر یقین رکھنے والے سمجھنے سے قاصر ہیں وہ یہ کہ اگر ریفری پر اعتراض ہوجائے تو پھر کونسا نتیجہ ہو گا جسے معتبر مانا جائے گا ؟اسلام آباد کے ڈی چوک میں ہو نیوالے دھرنے اور دھرنی کے کھیل میں کھلاڑی مختلف تھے ، ایجنڈابھی اپنا اپنا لیکن اس کا نتیجہ "مشترکہ "نکلا ۔ دونوں راوٴنڈز میں ہدف ِ تنقید یا تو صیف آنے والے جنرل الیکشن کا ریفری ادارہ تھا ۔
ذرا دوسرا منظر ملا حظہ کریں ۔ اس وقت پاکستان میں انتخاب کی ذمہ دار نگراں حکومت کی نگرانی کے لئے پہلے سے بٹھائے گئے 4عدد گور نرز اس اپو زیشن کی طرف سے انڈر فائر ہیں جو الیکشن کمیشن کو مو جودہ شکل میں فئیر الیکشن کے قابل سمجھتی ہے ۔ مجھے اس سے ذاتی طور پر اتفاق ہے کہ آئین پاکستان میں شامل بیسویں آئینی ترمیم جس کے ذریعے آرٹیکل 224-Aکا اضافہ کیا گیا اس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ کو ئی بر سر اقتدار جماعت یا اتحاد جنرل الیکشن کے وقت حکومتی اثرو رسوخ کو استعمال کرنے کے لئے من مر ضی کا عبوری ڈھانچہ تشکیل نہ دے سکے ۔جو بھی انتخابی انتظامات ہوں ان میں انتخابی عمل میں شریک سارے اسٹیک ہو لڈرز کی رائے اور مشورہ شامل ہو۔ یہ ضروری نہیں کہ عوام کی رائے معلوم کرنے کے لئے منعقد ہو نے والے کسی بھی عمل میں رخصتی کے لئے تیار حکومت یا اپوزیشن کو اجارہ داری دے دی جائے ۔ لہذا ان مقاصد کے حصول کے لئے بیسویں آئینی ترمیم کی نفی ہو گی اگر صوبوں میں سیاسی گھرانوں ، سیاسی پس منظر،سیاسی مقاصد یامفادات رکھنے والے گورنر جنہیں سیاسی وجوہات سے ان عہدوں پرنا مزد کیا گیا ،وہ بر قرار رکھے جائیں ۔ پہلے سے مو جود گور نرز پر اعتراضات نہ صرف درست ہیں بلکہ الیکشن کمیشن پر اٹھائے جانیوالے اعتراضا ت کی طرح آئندہ الیکشن میں حصہ لینے والی سیاسی پارٹیوں کی طرف سے سامنے آ رہے ہیں ۔ ان کا فوری اور بر وقت حل نہ نکالا گیا تو الیکشن کا عمل نا قابل قبول اور غیر شفاف بنانے کیلئے یہ دوسرا اقدام ہو گا ۔
آئندہ الیکشن کے عمل کو متنازعہ بنانے والا تیسرا پہلو بھی ہے ، وہ ہے کراچی سمیت کچھ دیگر علاقوں میں نئی حلقہ بندیوں کا مطالبہ۔ 2008ءء کے الیکشن کے دوران میں خود ایسے کئی مقدمات میں امیدواروں کی طرف سے بطور وکیل پیش ہوا جنہیں حلقہ بندیوں پر اعتراض و تحفظات تھے۔اس وقت کا الیکشن کمیشن بھی حیلے ،بہانے بناتا تھا کہ الیکشن سر پر آگیا ہے لہٰذا نئی حلقہ بندی نہیں ہو سکتی ۔ میں کسی سیاسی پارٹی کو ٹارگٹ کر کے کئے جانے والے کسی بھی عمل کی حمایت نہیں کرتا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب درجنوں جماعتیں حلقہ بندیوں کوتبدیل کرنے کا مطالبہ کریں اورجواب میں الیکشن کا ریفری یہ کہے کہ اب تبدیلی کا وقت نہیں رہا تو پھر اس سے ضرور پوچھ لینا چاہئے کہ آپ نے وقت پر خواب خرگوش سے آنکھ کیوں نہیں کھولی؟ الیکشن کمیشن کی مو جو دہ لیڈرشپ غالباًاس اہم ترین قومی معاملے پر مجرمانہ غفلت سے بری الذمہ ہو ،لیکن آئین کے آرٹیکل 219کے مطابق الیکشن کمیشن کی جو ذمہ داریاں ہیں ان میں نہ صرف انتخابی فہرستیں تیار کرنا ،ان کی سالانہ نظر ثانی کرنا اور دیگر کاموں کے علاوہ عام انتخابات کی تنظیم و انعقاد واضح طور پر شامل ہیں ۔ یہاں یہ کہنا بر محل ہو گا کہ سپریم کورٹ کو جس طرح آئین کے آرٹیکل 190کے تحت ملک کی ساری ایگزیکٹو اتھارٹیز سے مدد مانگنے کا غیر معمولی اختیار دیا گیا ہے ویسے ہی (All Executive Authorities in the Federation and in the Provinces)کے الفاظ استعمال کر کے آئین کے آرٹیکل 220میں الیکشن کمیشن کو انتہائی طا قتور آئینی ادارہ بنا دیا گیا ہے ۔چیف الیکشن کمشنر ،الیکشن کمیشن کی اپنے فرائض اور انتخابی امور کی ادائیگی کے لئے فیڈریشن اور صوبوں کی ساری ایگزیکٹو اتھارٹیز کی آئینی ڈیوٹی لگائی گئی کہ وہ ان کی معاونت کریں ۔ اتنے لا محدوداختیارات کے باوجود بھی مختلف مواقع پر دکھائی جانے والی بے بسی بجا طور پر کئی سوالیہ نشان اٹھاتی ہے ۔
اب میں آتا ہو ں گمبھیر اور لا ینحل مسئلہ کی طرف جس کی مثال پاکستان کے علاوہ شاید ہی کسی ماڈرن، جمہوری ، وفاقی ، پارلیمانی یا آئینی ریاست سے ڈھونڈی جا سکتی ہو ۔ مسئلہ یہ ہے کہ آج وہ ادارے جو عملی یا آئینی طور پر ریاست کے ستون یعنی پلرز ہیں ان کے آپس کے تعلقات کیسے ہیں ؟ اس وقت سب آئینی ادارے ایک دوسرے سے خوفزدہ اور باہمی طور پر لا تعلق ہیں ۔ اسی لئے ایک ادارہ اونچی سانس بھی لے لے تو دوسرے کو پریس ریلیز یا اسٹے آرڈر جاری کرنا پڑجا تا ہے ۔ گزشتہ کئی سالو ں سے کسی بھی بڑے قومی مسئلہ پر آئینی اداروں کے درمیان نہ تو با معنی رابطہ ہے ،نہ اسٹیٹ پالیسی کے خدو خال پر مشاورت کی گنجائش ۔جس عمارت کے چاروں پلرز ایک دوسرے کا وزن سہارنے اور ایک دوسرے کو کندھا دینے کی بجائے ایک دوسرے سے کنی کتراتے ہوں وہاں کسی زلزلے کی کیا ضرورت ہے ؟ عملی طور پر صورتحال یہاں پہنچ چکی ہے کہ سب اپنی اپنی جگہ یہی سمجھتے ہیں دوسرا داوٴ پر ہے ۔ ٹرسٹ اور اعتماد کا یہ فقدان پو ری قوم کو جنگی جنون میں دھکیل رہا ہے ۔ غریب سمجھتا ہے یہ نظام اس کے نام پر نو ٹنکی ہے ، مظلوم سمجھتا ہے اسے شاہراہ دستور سے نہیں کسی کو ہ ِ ندا کی چوٹی پر بیٹھنے والوں سے انصا ف ملے گا۔
عدلیہ سمجھتی ہے ،ہمارے پر کاٹے جا رہے ہیں ۔ پارلیمنٹ سوچتی ہے کہ اسکی بالا دستی کو چیلنج کیا جا رہا ہے ، ایگزیکٹو سمجھتی ہے کہ اسکی اتھارٹی لٹ رہی ہے ، سیاسی جماعتیں سمجھتی ہیں کہ الیکشن کے خلاف سازشوں کا جال مکمل ہو چکا ۔ ماد ر وطن پر جان لٹانے والوں کو گلہ ہے کہ وہ تنقید کی تو پو ں کی زد میں ہیں ۔ قلم کے مزدور بندوقوں کے دہانے پر لاش کاندھے پر دھرکر کام پر نکلتے ہیں ۔ ایسے میں ملائیشیاء ، بھارت، فرانس ، جرمنی ، انگلینڈ یا امریکہ جیسی جمہوریتوں کے معیار اور اسٹینڈرڈ کی گور ننس کی توقع شیخ چلی کی تاریخ دہرانے کے علاوہ کچھ نہیں ۔
میں نہیں کہنا چاہتا تھا لیکن کہنا ضروری ہے کہ آئندہ الیکشن جمہوریت اور آئینی نظام کیلئے آخری مو قع ہے ۔ اس لئے اس میں سب کی با عزت و برابر شمولیت ضروری ہے ۔ جو گفتگو کرنا چاہتے ہیں ان کیلئے الیکشن کمیشن بھی اور ریاست پاکستان بھی دروازہ کھولیں۔ اسٹیٹ پلرز ایک دوسرے کا بوجھ بانٹیں ورنہ پلاسی کا میدان تو میتوں کے انباربیچتا ہی ہے۔۔!