حالیہ بارشوں نے سڑکوں کو گڑھوں میں بدل دیا

September 05, 2019

شہر کراچی جو ماضی میں شہروں کی دلہن ، روشنیوں کا شہر اور نجانے کیا کیا کہلاتا تھا اور اب بھی بلاشبہ اس شہر کو پاکستان کی معیشت کا سب سے اہم ستون قرار دیا جاتا ہے لیکن یہ بدنصیب شہر گزشتہ کئی عشروں سے، جس بدترین صورتحال کا شکار ہے، اس کی مثال نہیں ملتی ۔آج اس شہر کی مانگ اجڑ چکی ہے۔ شہری سسک سسک کر اپنی زندگی گزار رہے تھے کہ حالیہ بارشوں نے مزید سونے پر سہاگے کا کام دکھایا۔ مون سون بارشوں نے شہر میں کیے جانے والے نام نہادترقیاتی کاموں کی قلعی کھول دی، شہر بھر کی شاہراہیں اور سڑکیں گڑھوں میں تبدیل ہو کر موت کے کنوؤں کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ موٹر سائیکل سوار گڑھوں میں گرکر زخمی ہورہے ہیں اور سڑکوں پر ٹریفک کی روانی متاثر ہے، حادثات معمول بن گئے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ دو کروڑ کی آبادی والے اس شہر میں انتظامی معاملات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کراچی میں چند ملی میٹر بارش ہوتی ہے اور شہر دریا کا منظر پیش کرنے لگتا ہے، تاحدِ نگاہ پانی ہی پانی نظر آتا ہے۔ کراچی کی سڑکیں وینس کا منظر پیش کرنے لگیں ہیں، جہاں گاڑیاں تو نہیں کشتیاں چلائی جانی چاہیے۔

شہریوں نے وزیر بلدیات اور میئر کراچی اور ضلعی بلدیاتی اداروں کے چیئرمینوں سے اپیل کی ہے کہ اگر سڑکوں کی استر کاری نہیں کرسکتے تو کم از کم گڑھوں میں ملبہ ڈال کر انھیں بھر دیا جائے، تاکہ جان لیوا حادثات اور ٹریفک جام سے شہری بچ سکیں۔ روڈ پر گاڑی چلانا مشکل ہے۔ وہ گاڑیاں جو لوگ محنت سے پیسے کما کر خریدتے ہیں، پانی میں ڈوب کر ناکارہ ہورہی ہیں۔ حالیہ بارشوں نے جہاں سڑکوں کو گڑھوں میں بدل کر رکھ دیا ہے، وہیں شہر بھر کا نکاسی آب کا نظام بھی بری طرح سے متاثر ہے ، شہر کی ہر گلی اور محلے کے علاوہ مرکزی سڑک پر گٹر ابل رہے ہیں اور گندا پانی تالاب کا منظر پیش کررہا ہے، شفیق موڑ سے سہراب گوٹھ انڈر پاس جانے والی سڑک گزشتہ کئی ماہ سے ٹوٹ پھوٹ کی شکار تھی اور رہی سہی کسر حالیہ بارشوں نے پوری کردی مذکورہ سڑک پر گہرے گڑھے پڑنے سے گزرنے والے شہری شدید اذیت سے دوچار ہیں، سڑک پر گاڑیوں کی رفتار سست ہونے کی وجہ سے شفیق موڑ تک گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ جاتی ہیں۔ بلدیاتی اداروں کی بے حسی کی وجہ سے شہریوں کو روزانہ بدترین ٹریفک جام کا عذاب برداشت کرنا پڑرہا ہے بلکہ مہنگائی میں ایندھن ضائع ہونے سے اضافی مالی بوجھ برداشتکر رہے ہیں۔

اس وقت پورا کراچی شہر موئن جو دڑو کا منظر پیش کر رہا ہے ، ہر طرف ٹھوٹی سڑکیں ، ابلتے گٹر، ایسا محسوس ہو تا ہے کہ کسی جیٹ طیاروں نے بمباری کی ہو ، کراچی کا کوئی ضلع ایسا نہیں کہ جہاں کی سڑکیں ناپختگی کے مسائل سے دوچار نہ ہوں۔ بڑ ی بڑی شاہراہوں پر اتنے بڑے بڑے گڑھے بنے ہوئے ہے کہ ان میں اگر کوئی موٹر سائیکل سوار گر گیا تو اس کا بچنا ناممکن ہے۔ جو تھوڑی بہت پختہ سڑکیں تھی، وہ بھی غیر معیاری مٹیریل کے استعمال کی وجہ سے بارش کے بعدٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی ہیں۔اب تو ان گڑھوں میں سڑک تلاش کرنی پڑتی ہے۔ سفر عذاب بن گیا ہے، اتنی اچھل کود ہوتی ہے کہ لگتا ہے کہ دل ،گردوں کی جگہ اور پھپڑے گردوں کی جگہ آگئے ہوں۔ ٹریفک نظام درہم برہم ہے۔ سڑکوں پر جو پانی نظر آرہا ہے اس کی نکاسی ہو ہی نہیں رہی۔ ساری سیوریج لائن بند ہو چکی ہے، جو چھوٹے نالے ہیں وہ کچرے سے بلاک ہیں اوریہی وجہ ہے کہ سڑکوں پر پانی نظر آرہا ہے۔ شہر میں بارش سے ہونے والے ممکنہ نقصانات کے باوجود گندے نالوں کی صفائی نہیں کی جا سکی۔ کراچی میں اختیارات کا یہ جھگڑا ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا سلسلہ کب سے جاری ہے اور کب تک چلتا رہے گا لیکن ابھی جو کراچی کی صورتحال ہے، اس پر صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ کراچی میں صرف آسمان سے پانی نہیں برسا بلکہ لوگوں کی آنکھوں سے بھی پانی برس رہا ہے۔

بارشوں کے چوتھے اسپیل کا آغاز پرشہر کے مختلف علاقوں کی سڑکوں پر شدید ٹریفک جام رہا، لیاقت آباد، سخی حسن، کے ڈی اے چورنگی، سولجر بازار، نشتر روڈ، ملیر کالا بورڈ، کشمیر روڈ اور طارق روڈ پر بھی گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں، نمایش، جہانگیر روڈ، تین ہٹی اور لیاقت آباد میں بھی ٹریفک جام رہا۔کراچی میں ہزاروں گاڑیاں چھوٹی بڑی شاہراہوں پر ٹریفک جام میں کئی گھنٹے پھنسی رہیں۔ کئی مقام پرکاریں اور موٹر سائیکلیں پانی میں ہچکولے کھاتی بند ہو گئیں۔لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک دوسرے کی پانی میں پھنسی ہوئی گاڑیاں نکالیں، جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سوار مسافروں میں خواتین اور بزرگ بھی شامل تھے وہ پیدل ہی اپنی منزل کی جانب چل پڑے۔ سیکڑوں افراد موٹر سائیکلیں بند کر کے سڑک کے کنارے ٹریفک کھلنے کا انتظار کرتے رہے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ اعصاب شکن ٹریفک جام سے گزر کر جب لوگ گھروں تک پہنچے تو وہاں بجلی غائب۔

کراچی کے شہریوں نے بھی کیا خوب قسمت پائی ہے کہ پہلے گرمی ، جس سے بچنے کے لیے بارش کی دعائیں کرتے تھے،پھر بارش کے بعد شہر میں پیدا ہونے والی صورت حال سے پناہ مانگتے ہوئے اس کی رکنے کی دعائیں کرتے نظر آئے۔کراچی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ ٹنوں کوڑا کرکٹ اور گندگی کے ڈھیر کا تھا، جو ہر علاقے ،محلے ،اور سڑک پر جابجا پھیلا ہواتھا۔بارش کی پہلی بوچھاڑ کے ساتھ ہی یہ کچرا ایک ریلے کی شکل میں ہر طرف بہنے لگا اور تعفن اور بدبو میں تبدیل ہوکر پورے شہر میں پھیل گیا، جس کے باعث اب کسی بھی علاقے سے گزرنا بہت دشوار ہوچکا ہے۔

سیانوں نے کہا ہے کہ حالت امن میں جنگ کی تیاریاں کرنے والے ہمیشہ کامیاب و کامران رہتے ہیں، مشکلات اور مصیبتیں آتی ہیں، مگر انھیں زیادہ پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ یہ اصول اگر زندگی کے ہر شعبے اور ہر کام میں لاگو کیا جائے تو بہت سی پریشانیاں اور مسائل پیدا ہی نہ ہوں۔ اگر پہلے سے انتظامات کرلیے جاتے تو آج یہ صورت حال نہیں ہوتی،جبکہ محکمہ موسمیات نے مون سون بارشوں کی پہلے ہی پیشن گوئی کردی تھی۔ لیکن کیا کہیں کہ بہت کچھ کہا جا چکا، مگر ہوا کچھ نہیں۔کون ہے جو کراچی والوں کی فریاد سنے۔

باران رحمت کا مزہ اُس وقت صحیح معنوں میں لیا جاسکتا ہے جب شہری ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، بجلی کے بوسیدہ تاروں، کرنٹ مارتے کھمبوں اور سیوریج کے بوسیدہ نظام کی پریشانیوں سے محفوظ ہوں، ایسا کب ہوگا اس کا ہر ایک کو انتظار ہے۔