محمدابراہیم جویو دلِ شکستہ کی رفعتِ خیال

April 16, 2021

(سندھ کے معروف دانشور، ادیب اور معلم محمدابراہیم جویو صاحب نے سوسال سے زیادہ زندگی پائی۔نومبر2017ء میں حیدرآباد میں انہوں نے اپنا سفرِ حیات مکمل کیا۔2015ء میں اُن کے صد سالہ جشنِ پیدائش کے موقع پر نہ صرف سندھ بلکہ ملک بھر میں اور دنیا کے کئی دیگر ممالک میں بھی تقریبات منعقد ہوئیں۔پاکستان اسٹڈی سینٹر، جامعہ کراچی کی ایسی ہی ایک تقریب میں زیر نظر مضمون پیش کیا گیا تھا۔)

سندھ کے بے مثال سماجی دانشور اور ادیب محترم محمد ابراہیم جویو طویل اور صبر آزما جدوجہد پر مشتمل ایک صدی کی مدت پوری کرنے پر ہر اس شخص کی طرف سے مبارکباد کے مستحق ہیں جو روشن خیالی اور انسان دوستی کی قدروں پر یقین رکھتا ہے اور جو اس بات پر بھی یقین رکھتا ہے کہ ہر باشعور فرد کا یہ فرض ہے کہ وہ معاشرے کی بہبود ،اس کی بہتری اور انسان کے فکری سفر کو آگے لے جانے میں اپنے حصے کا کردار ادا کرے۔ کوئی شخص یہ فرض اپنی بہترین صلاحیتوں کے مطابق ادا کرتا ہے، بہت سے جزوی طور پر اس فرض کی تکمیل کر پاتے ہیں، اور پھر کافی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہوتی ہے جن کی اس سلسلے میں کارکردگی محض لفظی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھتی۔

ابراہیم جویو صاحب اس لحاظ سے سرخ روئی کی اعلیٰ ترین منزل پر فائز نظر آتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی کے ایک ایک لمحے کو مقصدی انداز میں صرف کیا۔ طویل عمر اور بھی بہت سارے لوگوں کو میسر آجاتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ وہ اہلِ زمین کی ضرورت بھی بنے ہوں۔ لوگوں کی ضرورت بن کر رہنا اور اپنے معاشرے کو اپنی قدرتی اوراکتسابی صلاحیتوں سے مستفید کرتے رہنا ہر کسی کے حصے میں نہیں آتا۔ ابراہیم جویو صاحب ان لوگوں میں شامل ہیں جو زمین پر بوجھ بن کر نہیں رہے بلکہ جنہوں نے افتادگانِ زمین کے بوجھ کو بانٹنے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔ ہمارے لیے بڑے فخر کی بات ہے کہ ہمیں ان کو صرف کتابوں میں نہیں، صرف ان کی تحریروں میں نہیں بلکہ ان کی جیتی جاگتی زندگی میں دیکھنے اور ان سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔

ابراہیم جویو صاحب کی آرزوئوں، امنگوں اور جدوجہد کے مراکز اور اہداف اتنے بلند رہے ہیں کہ ان تک مکمل رسائی برسوں یا عشروں میں ممکن نہیں تھی۔ علامہ اقبال نے دعا کی تھی کہ ؎

رفعت میں مقاصد کو ہم دوشِ ثریا کر

خودداریٔ ساحل دے، آزادیٔ دریا دے

خود داریٔ ساحل اور آزادیٔ دریا سے ہمکنار ابراہیم جویو صاحب کے مقاصدِ حیات ہم دوشِ ثریا رہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی باور رکھنا چاہیئے کہ معاشرتی تبدیلیاں ایک تدریج کے ساتھ ہی روبۂ عمل آتی ہیں۔ برسوں اور صدیوں کے سفر کے بعد وہ مراحل آتے ہیں جنہیں انقلاب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سو اگر ابراہیم جویو صاحب کو بھی کبھی حالات کی دگر گونی اور تبدیلی کی رفتار کے سُست ہونے کی شکایت رہی ہو تو یہ بات ناقابلِ فہم نہیں۔ زیادہ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ انہوں نے ہر دور میں عقلیت پسندی (rationalism)اور خرد افروزی کا پرچم بلند رکھا ہے۔

اپنے انگریزی مضامین کے مجموعے The Betrayal: Sindh Bides the Day for Freedomمیں انہوں نے اپنے مضامین کو Musings of a Wounded Heartسے تعبیر کیا ہے۔ میں نے اس کا ترجمہ ’دلِ شکستہ کی بلند خیالی‘ یا ‘دلِ شکستہ کی رفعتِ خیال‘ کرنا چاہا ہے۔ میرے خیال میں شکستہ دلی تو ایک وقتی ردّعمل ہوتا ہے لیکن خیالات کی رفعت ہمیشہ برقرار رہتی ہے۔ ابراہیم جویو صاحب اپنے خیالوں کی اسی رفعت کے حوالے سے آج ہم سب کے لیے اس قدر محترم ہیں۔

ابراہیم جویو صاحب نے اپنی زندگی میں اتنے متنوع کام کیے ہیں اور اتنا بڑا علمی اور تحقیقی سرمایہ فراہم کیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ ایک انسان اپنی زندگی میں خواہ اس کی طوالت کتنی ہی کیوں نہ ہو اتنا بہت کچھ کس طرح کرسکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ تین چیزوں نے ان کو اتنا فیض رساں بنایا ہے۔ اول تو ان کے علمی افق کی وسعت ہے جس پر اوائل عمری ہی میں مشرقی اور مغربی علوم اور تخلیقی ادب کے اثرات مرتب ہونے شروع ہوگئے تھے۔

دوسری چیزان کا جذبہ اور Commitment ہے جس نے ان کو ہمہ وقت مصروف رکھا۔ تیسری بات یہ کہ شاید وہ اپنے وقت کا بہترین استعمال کرنے کی بھی پوری استعدادرکھتے ہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اپنا قیمتی وقت بیکار قسم کی چیزوں کی نذر کر دیتے ہیں۔ جویوصاحب کی زندگی سے یہ سبق ہم حاصل کرسکتے ہیں کہ اگر اپنے وقت کی قدر انسان کرے تو وہ بہت کچھ کرنے پر قادر ہے۔

جناب ابراہیم جویو کھیر تھر کے کوہستانی علاقے میں واقع ضلع دادو کے ایک چھوٹے سے گائوں ’’آباد‘‘ میں پیدا ہوئے۔ یہیں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی، پھر وہ سن میں اینگلوورنکلر اسکول (Anglo Vernacular School)، میں داخل ہوگئے۔ اس کے بعد ان کی تعلیم کا سلسلہ انہیں کراچی میں سندھ مدرسہ تک لے آیا۔ میٹرک میںکامیابی کے بعد گائوں واپس گئے، مگر چند روز بعد دوبارہ کراچی تشریف لائے اور ڈی جے کالج میں تعلیم حاصل کی۔ گریجویشن کے بعد سندھ مدرسہ میں مدرّسی اختیار کی۔ اسی سلسلے میں بی ٹی کی غرض سے بمبئی گئے۔

بمبئی جانا ان کے لیے بڑا چشم کشا اور ذہن رسا ثابت ہوا۔ یہاں انہیں ایم این رائے کے خیالات سے آگہی حاصل ہوئی۔ یہیں انہوں نے ہندوستان کی سیاست کے مدوجزر کو بھی نسبتاً قریب سے دیکھا۔ 1930ء کا عشرہ جو جویو صاحب کی جواں سالی کا زمانہ بھی تھا ہندوستان ہی کے لیے نہیں سندھ کے نقطۂ نظر سے بھی بڑا تشکیلی نوعیت کا دور تھا۔ آئینی اصلاحات کے مطالبات فضا میں گرد ش کر رہے تھے۔ سیاسی تنظیم سازی کا دور دورہ تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک طویل عرصہ خوابیدہ رہنے کے بعد ہندوستان ایک انگڑائی لے رہا تھا۔

سندھ میں بھی بمبئی سے علیحدگی کی تحریک زوروں پر تھی۔ 1935ء کا ایکٹ آنے کے بعد ہندوستانی صوبوں کے صوبائی تشخص کو اہمیت حامل ہوئی۔ خود سندھ بھی ایک جداگانہ صوبہ بن کر ابھرا۔ لیکن سندھ کی ابتدائی سیاسی قیادت فیوڈل کلچر میں ڈھلی ہونے کے سبب ارفع خیالات اور جمہوری اقدار سے کوئی نسبت نہیں رکھتی تھی۔ چنانچہ گروہ بندیاں اور مختلف گروہوں کی ایک دوسرے کے خلاف سازشیں روز کا معمول بن گئیں جس کے نتیجے میں 1937ء سے 1947ء تک کسی صوبائی حکومت کو استحکام حاصل نہیں ہوسکا۔

ابراہیم جویو صاحب جیسے بیدار مغز انسان کے لیے یہ حالات بہت تذبذب کا سبب بنے۔ ایک طرف وہ مغربی معاشروں کے سیاسی ارتقاء کا مطالعہ کر رہے تھے، دوسری طرف ان کے گردوپیش کے حالات کوئی امید افزا منظر نامہ پیش کرنے سے قاصر تھے۔ ایک طرف ان کا مطالعہ ان کو باور کرارہا تھا کہ جدید ریاستیں کس طرح وجود میں آئیں۔

انہوں نے فیوڈل ازم اور اس سے جڑی ہوئی پاپائیت کو شکست دے کر کس طرح ایک جمہوری اور سیکولر ریاست کو یقینی بنایا۔ دوسری طرف وہ یہ دیکھ رہے تھے کہ سندھ ہنوز فیوڈل ازم، رجعت پسندی اور توہم پرستی کے گرداب میں پھنسا ہوا تھا۔ان کے اس اضطراب نے ان سے 1947ء میںSave Sindh, Save the Continent from Feudal Lords, Capitalists and their Communalismجیسی فکر انگیز کتاب لکھوائی۔

اس کتاب کے مندرجات سے اندازہ ہوتاہے کہ1947ء تک جب کہ جویو صاحب کی عمر صرف 32سال تھی کتنا عمیق مطالعہ وہ کرچکے تھے، اپنے معاشرے کے سماجی عوارض پر ان کی کتنی گہری نظر تھی اور نئے سیاسی راستے تلاش کرنے کے حوالے سے ان کا ذہن کتنا مرتب ہوچکا تھا۔ جویوصاحب نے عین تشکیلِ پاکستان سے چند ماہ قبل پاکستان کے وفاق میں سندھ کی شمولیت کے لیے کئی ایسے تقاضوں کی نشاندہی کی جن کی تکمیل کے بغیر نہ سندھ آسودہ رہ سکتا تھا اور نہ ہی وفاقِ پاکستان مضبوط ہوسکتا تھا۔

ان کی یہ کتاب ایک لحاظ سے پاکستان میں سندھ کی شمولیت کا Charter of Demandsبھی قرار دی جاسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے تصورات اُن دوسرے صوبوں میں بھی پائے جاتے تھے جو پاکستان میں شامل ہوئے۔ جویو صاحب کی اس کتاب کو پڑھتے وقت میرا ذہن معاً الیگزینڈر ہیملٹن (Alexander Hamilton)، جان جے (John Jay)اور جیمس میڈیسن (James Madison)کے اس سلسلہ مضامین کی طرف چلا گیا جو’ ’فیڈرلسٹ پیپرز‘ ‘کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوئے۔

ستمبر 1787ء میں فلاڈیلفیا کنونشن کے بعد امریکی دستور کی منظوری ابھی نہیں ہوئی تھی۔ امریکی ریاستوں کو قائل کرنے کا مرحلہ درپیش تھا کہ وفاق میں شامل ہونے سے ان کو کیا فوائد ہوں گے اور ان کے لیے ان ریاستوں کو کتنا چوکنّا رہنا ہوگا۔ مذکورہ بالا تینوں مدبرین نے عوام کے نام خطوط کی صورت میں یہ مضامین لکھے، جو اخبارات کے ذریعے مشتہر ہوئے۔’’فیڈرلسٹ پیپرز‘‘سیاسی ادب میں اور خاص طور سے وفاقیت سے متعلق لٹریچر میں ایک بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ میرا تو خیال ہے کہ ’’فیڈرلسٹ پیپرز‘‘ کی ہم پلہ جویو صاحب کی کتاب Save Sindh...جس پر ان کو سندھ مدرسہ کی ملازمت سے الگ کر دیا گیا تھا، سندھ مدرسہ کے سب سے بڑے طالب علم محمد علی جناح کے تشکیل کردہ ملک میں نصاب میں شامل ہونا چاہیئے۔

سندھ مدرسہ سے اخراج کے بعد ان کی اگلی منزل ٹھٹھہ میں میونسپل ماڈل اسکول بنا جہاں وہ پرنسپل مقرر ہوئے۔ بعد ازاں وہ ٹیچرز ٹریننگ کالج، حیدرآباد میں تعینات ہوئے۔ اسی زمانے میں سندھ کے ادبی شعبوں میں خدمات انجام دینے کا ان کو موقع ملا۔ خاص طور سے دسمبر 1951ء میں سندھی ادبی بورڈ سے ان کی وابستگی ، سندھ میں علم وادب کے فروغ کے نقطۂ نظر سے بڑی کارآمد ثابت ہوئی، اس ادارے نے سہ ماہی رسالہ ’’مہران‘‘ جاری کیا جو جلد ہی ایک مؤقر علمی اور تحقیقی جریدے کی شکل اختیار کر گیا۔ سندھی ادبی بورڈ کے زیر اہتمام بچوں کا رسالہ’’ گل پُھل‘‘ کا بھی اجراء ہوا۔ 1957ء میں وہ لیڈرشپ ایکسچینج پروگرام کے تحت تین ماہ کے لیے امریکہ گئے۔ امریکہ میں انہوں نے وہاں کی جامعات اور تحقیقی اداروں کا دورہ کیا اور جدید تحقیقی طریقہ ہائے کار سے واقفیت حاصل کی۔

جویو صاحب کی ادبی خدمات کا ایک اور میدان سندھی ادبی سنگت سے ان کی وابستگی کی صورت میں وجود میں آیا۔ وہ باقاعدگی سے سنگت کے پروگراموں میں شرکت کرتے تھے۔ اس کے علاوہ جو لوگ ان ادبی اجلاسوں میں باقاعدگی سے آتے ان میں سوبھو گیان چندانی، سراج میمن، غلام ربانی آگرو، ایاز قادری اور نورالدن سرکی وغیرہ شامل تھے۔ ان اجلاسوں میں کبھی کبھار جی ایم سید، پیر حسام الدین راشدی، شیخ ایاز، تنویر عباسی وغیرہ بھی شریک ہوتے تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب سندھ میں ون یونٹ کے قیام کے خلاف احتجاج کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ اس زمانے میں جو احتجاجی ادب سندھ میں پیدا ہوا وہ اپنی کمیت اور کیفیت میں غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا۔ اسی زمانے میں سندھ کے کلاسیکی ادب کی بازیافت کا رجحان بھی زورشور سے شروع ہوا۔ اس پورے تحریکی ماحول میں ابراہیم جویو بہت فعال رہے۔ انہوں نے قومی حقوق کا شعور بیدار کرنے والی تحریروں کے تراجم کیے۔ طبع زاد تحریریں بھی سپردِ قلم کیں اور کلاسیکی سندھی ادب کو ازسرِ نو مشتہر کرنے کا بھی انتظام کیا۔

63۔1962ء کے دوران وہ مغربی پاکستان ٹیکسٹ بک بورڈ سے وابستہ رہے اور اس سلسلے میں ان کی تعیناتی لاہور میں ہوئی۔68۔1967ء میں وہ گورنمنٹ ہائی اسکول، جیکب آباد، اور مارچ 1968ء سے جنوری 1971ء تک گورنمنٹ ٹیچرز ٹریننگ اسکول ، کوہاٹ میں تعینات رہے۔ اگست 1972ء میں انہیں ڈائریکٹر بیورو آف کریکولم بنایا گیا۔ 12؍ اگست 1973ء کو وہ ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ابراہیم جویو صاحب کا تعلیمی اداروں سے کسی نہ کسی شکل میں تعلق قائم رہا البتہ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے مزید یکسوئی کے ساتھ علم وادب کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔

ابراہیم جویو صاحب کی علمی اور فکری خدمات کا احاطہ ایک مختصر مضمون میں کرنا ناممکن ہے۔ انہوں نے قاموسی (encyclopaedic) ذہن پایا ہے چنانچہ ان کے رشحاتِ فکر کی وسعت اور تنوع کا احاطہ خاصا مشکل کام ہے۔ زیادہ سے زیادہ ان کے کام کے نمایاں تر پہلوئوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی کہا گیا ہے کہ جویو صاحب نے شعوری زندگی کے آغاز پر ہی مغربی ادب اور فلسفے کی کتابوں سے تعلق قائم کر لیا تھا۔ انہی کتابوں کے مطالعے سے ان پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ آج مغربی معاشرے جس ترقی اور خوشحالی کے عکاس ہیں اس کے پیچھے سماجی ارتقاء کا ایک پورا سفر کار فرما ہے۔

ان کے مطالعے نے ہی ان پر یہ بھی منکشف کیا کہ سماج میں مختلف مفادات اور طبقات کی کشمکش کے نتیجے میں مختلف النوع افکار کی نمود ہوتی ہے۔ اپنے مقالےBattle of Democracy in Pakistanمیں جو 1994ء میں لکھا گیا وہ پاکستان کے ایک حقیقی قومی ریاست نہ بن پانے کے اسباب کا کھوج لگاتے ہوئے مغربی معاشروں کی تاریخ کا حوالہ دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سترہویں صدی سے بیسویں صدی تک کے درمیان سوا دوسو سال کا ایک عرصہ ایسا ہے جس میں مغرب نے چار انقلاب دیکھے۔ 1688ء کے انگلستان کے انقلابِ عظیم(Glorious Revolution)کے نتیجے میں سیاسی اقتدار پر بادشاہ کے الوہی حقِ حکمرانی کو چیلنج کیا گیا اور اس کی جگہ زمیندار اشرافیہ سیاسی اقتدار پر فائز ہوگئی۔

دوسرے لفظوں میں سیاسی اقتدار کا جواز آسمان سے زمین پر منتقل ہو گیا۔ وسیع تر انسانی تاریخ کے تناظر میں یہ ایک بڑا واقعہ تھا۔ لیکن یہ الگ بات ہے کہ اس اقتدار پر عام باشندگانِ زمین نہیں بلکہ زمینداروں کا تصرف قائم ہوا۔ دوسرا انقلاب 1783ء میں امریکہ کی جنگِ آزادی کے نتیجے میں وہاں برطانوی استعمار کے خاتمے اور ایک جدید ریاست کے قیام کی شکل میں وقوع پذیر ہوا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ پہلی قومی ریاست کے طور پر نقشۂ عالم پر وجود میں آئی جو فیوڈل ازم کے خلاف سرمایہ داری کی فتح کی علامت کی حیثیت رکھتی تھی۔ 1789ء میں تیسرا انقلاب، فرانس کی سرزمین پر آیا جہاں زمیندار اشرافیہ اور اس کی شریکِ کار پاپائیت کی شکست اور سرمایہ دار طبقے کے ابھار کی تاریخ رقم ہوئی۔ 1917ء میں چوتھا انقلاب، انقلابِ روس کی صورت میں منصئہ شہود پر آیا۔ یہ انقلاب، زمیندار اشرافیہ، چرچ سے وابستہ ملائیت اور سرمایہ دار طبقے کے اتحادِ ثلاثہ کے خلاف محنت کشوں کی کامیاب بغاوت کا علمبردار تھا۔

ابراہیم جویو صاحب لکھتے ہیںکہ ان چاروں انقلابات کے نتیجے میں بحیثیتِ مجموعی جن افکار کو اہمیت حاصل ہوئی وہ شہریوں کی برابری، جمہوریت، سماجی انصاف، سیکولرازم اور عقلیت پسندی کے افکار تھے ۔ لیکن جب مغربی دنیا میں استعماری اور سامراجی قوتیں منظم ہوئیں اور انہوں نے باقی ماندہ دنیا میں اپنی نوآبادیات قائم کرنا شروع کیں تب سامراجی قوتوں کو اپنے اس فکری اثاثے سے رد گردانی میں دیر نہیں لگی جبکہ یہی فکری اثاثہ نوآبادیات کے باشندوں اور قومی آزادی کی تحریکوں کے کام آیا۔

ابراہیم جویو صاحب اپنی مختلف تحریروں میں پاکستان کے اندر افکار کی کشمکش(Battle of Ideas)کی طرف توجہ مبذول کراتے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے پہلے سے انہوں نے یہ لکھنا شروع کر دیا تھا کہ جب تک سندھ میں نظامِ پیداوار اور (Land Tenure System)کو تبدیل نہیں کیا جائے گا یہاں سماجی جبر کی وہی شکل برقرار رہے گی جو برسہا برس سے چلی آرہی ہے۔ Freedom Callingمیں اپنے ایک مراسلے میں جو 20 نومبر 1942ء کو شائع ہوا وہ یہ فکر انگیز بات لکھتے ہیں کہ سندھ کے اندر اصل مسئلہ فرقہ وارانہ نہیں بلکہ اقتصادی ہے۔

وہ سرچارلس نیپیئر پر تنقید کرتے ہیں جس نے سندھ میں ایک مضبوط زمیندار طبقہ پیدا کیا جس نے ہاریوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے میں زرا دیر نہیں لگائی۔ اپنے ایک اور مضمون میں وہ لکھتے ہیں کہ جب تک سندھ میں بٹائی کا نظام برقرار رہے گا اور بے زمین ہاریوں کو حقِ ملکیت نہیں دیا جائے گا تب تک زمیندار اور جاگیردار کا استحصال جاری رہے گا۔ ابراہیم جویو صاحب کی فیوڈل ازم کے خلاف تحریریں ایک دو نہیں بلکہ بیسیوں کی تعداد میں ہیں اور یہ سب اس لائق ہیں کہ سندھ کی سماجی ساخت کو سمجھنے اور یہاں کے نظامِ پیداوار کی تفہیم کے لیے ان سے مدد لی جائے۔

جویو صاحب کے سماجی اصلاح کے تصور ہی سے جڑا ہوا ان کا قومی حقوق کا تصور ہے۔ وہ اگر ایک طرف سندھ کے ہاریوں پر یہاں کے جاگیر دار اور فیوڈل عناصر کے جبر کی مخالفت کرتے ہیں تو وہیں دوسری طرف وہ سندھ کے قومی حقوق کی پاسداری اور مرکزکی آمرانہ پالیسیوں کی بھی مذمت کرتے ہیں۔ مرکزکی یہ آمرانہ پالیسیاں تاریخی طور پر کیونکہ سول اور ملٹری بیوروکریسی کی بالادستی کے وسیلے سے جاری وساری رہی ہیں اور کیونکہ ان اداروں میں ملک کے بڑے صوبے کو واضح برتری حاصل ہے لہذا قومی حقوق کی جدوجہد کا ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ ایک صوبے کی بالادستی اور دوسرے صوبوں کی زیردستی کے اس غیر متوازن نظام کو ایک حقیقی وفاقی نظام سے تبدیل کیا جائے۔ یہ حقیقی وفاقی نظام جویو صاحب کے خیال میں قومیتوں کی خودمختاری کے اصول کو تسلیم کیے بغیر ممکن نہیں۔

جویو صاحب نے علمی سطح پر جن موضوعات کو اپنی تحقیق اور تصنیف وتالیف کے لیے منتخب کیا ان پر نظر ڈالیں تو یہ رائے قائم کرنے میں بالکل دیر نہیں لگتی کہ ان کے منتخب کردہ موضوعات وہی تھے جو ان کے ملک اور معاشرے کے لیے سب سے زیادہ متعلق اور مفید ہوسکتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کا مطالعہ اس سے کہیں زیادہ وسیع رہا ہوگا جتنا کہ ان کے منتخب کردہ موضوعات سے ظاہر ہوتا ہے۔

انہوں نے انگریزی سے سندھی زبان میں جن مصنفوں کی کتابوں کے تراجم کیے ہیں ان میں پلو ٹارک،روسو، برٹولڈ بریخت، والٹیئر، فرانسس بیکن، ایمیلی ایرک مین، الیگزنڈر شاتیاں، لارڈ بائرن، سی ایم جوڈ، ٹی ایس ایلیٹ، ایلبئرکامیو، کارل مارکس، اسٹینلے والپرٹ وغیرہ شامل ہیں۔ بحیثیت مجموعی انہوں نے 32 کتابوں کا انگریزی سے سندھی میں ترجمہ کیا۔

جویو صاحب کے علمی کام کا ایک اور شعبہ سندھی زبان کی تحریروں کو انگریزی میں منتقل کرنے سے متعلق ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے سائیں جی ایم سید اور خود اپنی کئی تحریروں کو سندھی سے انگریزی میں منتقل کیا۔شاعری کے شعبے میں ان کی طبع زاد اور تراجم کردہ تصانیف19 ہیں۔ جن لوگوں کے کام کو انہوں نے سندھی میں منتقل کیا ان میں سین فرانسیس، شیلے اور رابندرناتھ ٹیگور شامل ہیں۔ ان کی اپنی تحریر کردہ کتابوں کی فہرست بھی کافی طویل ہے۔

ان میں سیاست، فلسفے، تصوف، ادب، شاعری، تعلیم ،معیشت جیسے موضوعات پر کتابیں شامل ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے شخصی خاکے اپنی جگہ ایک مقام کے حامل ہیں۔ یہ خاکے محمد عثمان ڈیبلائی، جی ایم سید، پیر حسام الدین راشدی، علامہ دائود پوتہ، غلام مصطفی شاہ اور ایسی ہی اہم شخصیات کے متعلق ہیں۔ دوسرے مصنفوں کی کتابوں پر تبصروں کی بھی ان کی اچھی خاصی فہرست ہے۔ جویو صاحب نے ٹیکسٹ بک بورڈ سے وابستگی کے زمانے میں کئی نصابی کتابیں بھی تصنیف اور مرتب کیں۔ ان کی انگریزی کتابیں اور Freedom Callingنامی ہفت روزہ میں ان کے مضامین، شذرے، علمی مباحث اور تنقیدی مطالعوں کی ایک اور فصل کی طرف نشاندہی کرتے ہیں۔

ابراہیم جویو صاحب کا یہ سارا علمی کام جو بلاشبہ کسی ادارے کے مجموعی کام کے ہم پلہ ہے یا بہت سے اداروں کے کام سے بہت ارفع بھی ہے۔ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس سرمائے سے بھر پور استفادہ کریں۔ یہ ہماری جامعات اور علمی وتحقیقی اداروں کا کام ہے کہ وہ اس بیش بہا علمی زخیرے سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں اور اسی نہج پر خود بھی تحقیق وتخلیق کے عمل کو کتنا آگے بڑھاتے ہیں۔