سندھ اسمبلی: نمبر گیم کیا؟

September 09, 2019

سہیل وڑائچ

ماجد نظامی

وجیہہ اسلم، فیض سیفی

حافظ شیراز قریشی، عبداللہ لیاقت

سیاست میں حکومتیں گرانے اور بنانے میںوقتی حکمتیں توہوتی ہی ہیں مگر اس کے اثرات دہائیوں تک اپنا اثر رکھتے ہیں ۔پاکستان کی 72سالہ تاریخ میںاب تک یہ سلسلہ جاری ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاسی حکومتیں گرانے کیلئے آئین بنانے والے اس سے اخلاقی روگردانی کرتے نظر آتے ہیں۔ گورنر جنرل کے اختیارات ہوں یا صدراور آرمی چیف کے ،ملک کے وسیع ترمفاد میںہرکوئی دوسرے کو گھر بھیجتارہا۔صوبہ پنجاب کی طرح سندھ بھی اسی طرح کی سازشوں کا مرکز رہاہے۔1990ء میں ہونے والی جام صادق کی سیاسی جمع تفریق ہویا مشرف دور میں ارباب غلام رحیم کی سرپرستی میں اکثریتی جماعت پیپلزپارٹی کو جوڑ توڑ کیساتھ سیاسی ’’اکثریت‘‘سے حکومت بنانے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ سیاستدان ہی اپنے ذاتی مفادات کو فوقیت دیتے ہوئے نہ صرف غیر جمہوری عناصر کے ہاتھوں کھیلتے رہے بلکہ اگلے انتخابات میں ایک بار پھر ذاتی مفادات کیلئے ’’لوٹ کے بدوگھر کو آئے‘‘ کا مصداق بنے۔2018ء کے عام انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی نے سندھ میں اکثریت حاصل کی اور حکومت سازی بھی کی۔ایک سال کے دوران مرکز کے کچھ وزرا کے بیانات سے یہ عیاں ہوا کہ سندھ میں دوبارہ سیاسی دائو پیچ کھیلنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں لیکن کوئی ساز گار حالات میسر نہیں آسکے۔خبروں کے مطابق سندھ میں سندھ حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے وہ سازگار حالات پیداہوچکے ہیں جس کی گزشتہ ایک سال میں پیش گوئیاں کی جارہی تھیں۔تبصروں اور تجزیوں کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی نیب کی جانب سے گرفتاری متوقع ہے اور اس کے بعد سیاسی منظر نامہ میں پیپلزپارٹی کی حکومت کو ختم بھی کیاجاسکتاہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ ممکنات میں سے ہے تو سندھ کی سیاسی شطرنج میں کون سے مہرے اپنی جگہ بدلیں گے اور کیا ان ہائوس تبدیلی کی حکمت عملی کامیاب ہوسکے گی؟

اس تمام صورتحال کو سمجھنے کیلئے موجودہ سندھ اسمبلی کی پارٹی پوزیشن کو جاننا ضروری ہے۔سندھ اسمبلی میں اس وقت حکومتی جماعت پیپلزپارٹی 168میں سے 99نشستوں کیساتھ سرفہرست ہے۔اس کے مدمقابل پاکستان تحریک انصاف 30اراکین صوبائی اسمبلی کیساتھ دوسرے ،متحدہ قومی موومنٹ 21 نشستوں کیساتھ تیسرے جبکہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس 14ایم پی ایز کیساتھ چوتھے نمبر پر ہے۔ تحریک لبیک پاکستان تین اور ایم ایم اے کا ایک ایم پی اے بھی اسمبلی میں موجودہ ہے۔پیپلزپارٹی کی 99نشستیں نکال دی جائیں تو باقی 69نشستیں رہ جاتی ہیں اور اگر انہیں اپوزیشن اتحاد بھی سمجھ لیاجائے تو کم از کم 16ایم پی ایز کو پارٹی سے ہٹ کر اپوزیشن کے نامزد وزیر اعلیٰ کو ووٹ دینا پڑے گا۔

اگر وزیر اعلیٰ سندھ کو گھر بھیجاجائے تو پیپلزپارٹی کو اپنے کم از کم 16ایم پی ایز کی ناراضی ختم کرناہوگی۔

ماضی میں کسی بھی اکثریتی جماعت کو حکومت سے نکالنے کیلئے فارورڈ بلاک تشکیل دیکر مطلوبہ نتائج حاصل کر لئے جاتے تھے لیکن اب آئین میں اس کی کوئی اجازت نہیں ۔ سیاسی جماعت میں فارورڈ بلاک بنانے پر آئین ہدایت دیتاہے کہ کسی پارلیمانی جماعت میں یہ بلاک نہیں بن سکے گا اگر کوئی پارلیمنٹیرین بلاک بنا ئے گاتووہ اپنی نشستیں کھو بیٹھے گا۔آئین میں واضح کر دیا گیا ہے کہ فارورڈ بلاک بنانے اور پارٹی قیادت کے فیصلوں سے انحراف ، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں پارٹی سربراہ کے فیصلے کے مطابق ووٹ نہ دینے یا وفاداری تبدیل کرنے کی صورت میں متعلقہ پارلیمینٹرین اپنی نشست سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کا انتخاب خفیہ رائے شماری نہیں بلکہ اوپن ووٹنگ کے ذریعے ہوتا ہے اور پارٹی سربراہ کی ہدایت سے انحراف کرنے والارکن سامنے آجائے تواسے اسمبلی رکنیت منسوخ کرنے کیلئے آئینی کاروائی عمل میں لائی جا تی ہے۔اس سے روگردانی پر ان کے خلاف الیکشن کمیشن کو ریفرنس بھجوایا جا سکتا ہے ،اسی طرح وفاداری تبدیل کرنے اور فارورڈ بلاک بنانے والوں کو آئینی کاروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔پارٹی سربراہ کو آئین کے تحت یہ اختیار حاصل ہے کہ پارٹی فیصلوں کی خلاف ورزی کرنے والے اراکین اسمبلی کے خلاف ریفرنسز بھجوا سکتے ہیں۔ گزشتہ دور حکومت میں خیبرپختونخوا میں فارورڈ بلاک بناکر وزیر اعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک کو گھر بھیجنے کی تیاری کی جارہی تھی مگر اراکین اسمبلی کے خوف یا سیاسی بصیرت کو دیکھتے ہوئے ایسا کواقدام عمل میں نہیں لایاگیا۔موجودہ پنجاب گورنمنٹ میں پاکستان مسلم لیگ نواز کے کچھ ایم پی ایز بھی فارورڈ بلاک بنانے اورپارٹی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے تحریک انصاف کے منتخب وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار سے ملاقات کرچکے ہیں۔ تاریخ ایسے گروپ اور اراکین سے بھری پڑئی ہے جو اپنے ذاتی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے آئین اور جمہوری اداروں سے کھلواڑ کرتے ہیں جس سے سول اداروں کو ہزیمت کا سامناکرنا پڑتاہے۔دوسری جانب سوال یہ پیداہوتاہے کہ سیاسی جماعتیں ایسی کالی بھیڑوں کو اپنی سیاسی جماعتوں میں دوبارہ جگہ کیوں دیتے ہیں ؟۔

نوٹ:مورخہ5اگست 2019ء کوروزنامہ جنگ میں چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے حوالے سے اشاعت خاص ’’ صادق سنجرانی کیسے جیتے ؟ شائع ہوا۔ اس حوالے سے مواد سینیٹ کی آفیشل ویب سائٹ سے لیاگیاتھا ،جس پرسینیٹر پروفیسر ساجد میر نے اعتراض اٹھایا تھا کہ ان کی سیاسی وابستگی مسلم لیگ ق کی بجائے ن لیگ سے تھی ۔لہٰذا اس بابت حقائق کی درستگی کیلئے یہ تصیح شائع کی گئی ہے۔

سازشی کہانیاں کیا کہتی ہیں؟

امکان 1:وزیر اعلیٰ سندھ مراد شاہ کی ممکنہ گرفتاری کے پیش نظر سندھ کے سیاسی منظر نامے میں تبدیلی کا امکان ہے۔کیایہ تبدیلی سندھ میں پیپلزپارٹی کیلئے بڑے نقصان کا پیش خیمہ تو نہیں ثابت ہوگی؟امکان یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کا ایک الگ گروپ بننے جا رہا ہے جو سندھ کی موجودہ حکومت کو ختم کرکے نئی حکومت بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔یہ افواہیں اس وقت منظر عام پر آئی ہیں جب وزیر اعلیٰ سندھ کی ممکنہ گرفتاری کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔باخبر ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی میں سندھ کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے چند اراکین صوبائی اسمبلی کی جانب سے نہ صرف فاوروڈ بلاک بنانے کی کوششیں کی جارہیں ہیں بلکہ دیگر ارکان کو ساتھ ملانے کیلئے روابط بھی کئے جارہے ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پیپلزپارٹی کے یہ اراکین مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں اور جیسے ہی وزیراعلیٰ گرفتار ہونگے یہ گروپ پیپلزپارٹی چھوڑ کر الگ ہوجائے گا۔اراکین اسمبلی میں نوابشاہ (شہید بینظیر آباد) اور تھرپار کر اور مبینہ طورپر مخدوم فیملی بھی اس گروپ میں پیش پیش ہوسکتی ہے۔دوسری جانب پیپلزپارٹی کے ایم پی ایز میں سے بیشتر پر ایف آئی اے اور نیب کیسز بھی ہیں جو وفاداری تبدیل کرنے کیلئے پریشر گروپ کا کام کرسکتے ہیں۔گردش کرتی ہوئی خبروں کے مطابق سندھ میں 25سے زائدارکان پرمشتمل ایک فارورڈ بلاک تیار ہوگیا ہے جو کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی گرفتاری کا انتظار کر رہا ہے ۔سندھ سے آنے والی خبروں کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی گرفتاری کے عمل میں آنے کی صورت میںآصفہ بھٹو زرداری کو الیکشن لڑوانے کے بعدوزیر اعلیٰ سندھ یا اپوزیشن لیڈر بنائے جانے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔

امکان 2:دوسری ممکنہ صورتحال یہ بھی ہوسکتی ہے کہ باغی یا ناراض ہونے والے کو ایک الگ سیاسی جماعت کے طور پر سامنے لایاجاسکتاہے۔گردش کرتی ہوئی خبروں کے مطابق بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی کی طرز پر سندھ میں بھی ایک نئی جماعت سندھ عوامی پارٹی بنانے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔اس نئی بننے والی جماعت کے لئے پیپلزپارٹی کے ناراض اور نظر انداز ہونے والے اراکین اسمبلی کو اس نئی جماعت میں شامل کرنے کے لئے بااثر سیاسی شخصیات متحرک ہوتی نظر آرہی ہیں۔یہ بھی خبر ہے کہ لاڑکانہ اور سندھ بلوچستان کے سرحدی اضلاع کے سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے اہم سیاسی خاندانوں کو اس سلسلے میں اہم ٹاسک سونپے گئے ہیں اور اس حوالے سے سندھ میں کم از کم 16اراکین اسمبلی سے نئی جماعت کی تشکیل کے حوالے سے بات چیت کا عمل بھی مکمل کر لیا گیا ہے۔یہ بھی امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ پیپلزپارٹی کے خلاف ہونے والی بغاوت کے کامیاب ہونے کی صورت میں سندھ ،بلوچستان کے اہم سیاسی خاندانوں کے ممبران صوبائی اسمبلی میں سے کسی کو مستقبل میں وزیر اعلیٰ سندھ بنانے کی بھی پیشکش کی جاسکتی ہے۔

امکان 3:مندرجہ بالا دونوں امکانات کی ناکامی کی صورت میں وفاق اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے گورنر راج نافذ کر سکتے ہیں ۔ بنیادی طورپر گورنر راج کے دو آئینی طریقہ کار ہیں جس کے تحت صوبے کا انتظام گورنر چلاتا ہے۔آئین کے آرٹیکل234 کے تحت متعلقہ صوبہ کے گورنر کی رپورٹ پر اگر صدر مملکت کو یقین ہو جائے کہ صوبہ کی حکومت آئین اور قانون کے مطابق معاملات نہیں چلا سکتی تو وہ گورنر راج نافذ کرنے کا اعلان کر سکتے ہیں۔ گورنر راج نافذ کرنے کی ایک دوسری صورت یہ بھی ہے کہ پارلیمینٹ کے دونوں ایوان اپنے الگ الگ اجلاسوں میں کسی صوبہ میں گورنر راج کے نفاذ کے لئے قراردادیں منظور کر لیں تو صدر مملکت ان پر عملدرآمد کرتے ہوئے گورنر راج کے نفاذ کا صدارتی فرمان جاری کرتے ہیں۔اگر آئینی طریقہ کار کے تحت گورنر راج لگایاجائے تو دونوں ملک بھر کا سیاسی منظر نامہ بھی تبدیل ہوسکتا ہے۔

سندھ میں اینٹی پیپلز پارٹی بننے والے فارورڈ بلاک کا ماضی اور مستقبل!

گزشتہ سال کے آخر میں سندھ میں پیپلزپارٹی سے فاروڈ بلاک یا نئی سیاسی جماعت کی باتیں عروج پر تھیں ۔اس وقت سند ھ اسمبلی میں پیپلزپارٹی کی 99اراکین کے ساتھ اقتدارکی کرسی پر براجمان ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت گر انے کے لئے 16 ایم پی ایز کی حمایت ضروری ہو گی۔سندھ میں پیپلزپارٹی کے اثرور سوخ کو توڑنے کیلئے مختلف ادوار میں مختلف اتحاد اور فاروڈ بلاگز بنتے رہے ہیں۔ 1990ء میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوئی تو سندھ میں صوبائی رابطوں کے مشیر جام صادق نے پیپلزپارٹی کے خلاف ا ندرون خانہ بغاوت کی۔اس طرح پیپلزپارٹی کی اکثریت ہونے کے باوجود جام صادق نے متحدہ قومی موومنٹ اور آزاد اراکین کے ساتھ سیاسی گٹھ جوڑ کیا اور ایک منظم حکمت عملی کے تحت سندھ کے نگران وزیر اعلیٰ بن گئے۔جام صادق کی پیپلزپارٹی کے خلاف دوسری سیاسی جماعتوں کو متحد کرنے کی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے 1990ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے خلاف حکمت عملی انتخابات سے پہلے کی گئی تھی اور اس بات کو یقینی بنایا گیا تھا کہ انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی سندھ میں حکومت نہ بنا سکے۔ جام صادق نے مقامی جاگیر داروں،دائیں بازو کے سیاستدانوں اور ریاستی وسائل کا استعمال اور سب سے بڑھ کر متحدہ قومی موومنٹ کی مدد سے حکومت بنائی۔ اس مقصد کے حصول کیلئے پیپلزپارٹی کے اندر توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔ اسی انتخاب میں پیپلزپارٹی کے بانی ذولفقار علی بھٹو کے کزن اور سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ ممتاز بھٹو کی سربراہی میں ''سندھ نیشنل فرنٹ'' کے نام سے اور ''سندھ نیشنل الائنس '' کے نام سے انتخابی اتحاد بھی بنے جو سندھ میں پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچانے میں کامیاب نہ ہو سکے ۔پیپلزپارٹی کے خلاف سندھ میں کھل کر سازش کرنا آسان نہیں ، یہ وہی کر سکتا ہے جو یقین کی حد تک پیپلزپارٹی کی اندورنی سیاست کو جانتا ہو۔

پیپلزپارٹی کے صوبائی اقتدار پر دوسری بار شب خون آمریت کے دورمیں مارا گیا۔ 2002ء کے انتخابات میں سندھ سے پیپلزپارٹی 51 نشستوں کے ساتھ سر فہرست تھی جبکہ متحدہ قومی موومنٹ 31،مسلم لیگ ق 14،نیشنل الائنس12 اور مسلم لیگ فنکشنل 9 نشستیں لینے میں کامیاب ہوئی۔ پیپلزپارٹی نے اکثریت حاصل کی تھی لیکن صوبے میں اسے اکثریت کے باوجود حکومت نہیں بنانے دی گئی۔ انتخابات کے فوراً بعد پیپلزپارٹی میں فارورڈ بلاک بنا کر جنرل مشرف کے حامیوں کی حکومت بناڈالی۔ پیپلزپارٹی کو حکومت سے دور کرنے کے بعد پرویز مشرف نے پہلے اپنے اتحادیوں میں سے ضلع گھوٹکی سے تعلق رکھنے والے علی محمد مہر کووزیر اعلیٰ کا عہدہ دیا جبکہ دوسری بار یہی نوازش جون 2004ء میں تھرپارکر کے ارباب غلام رحیم کو وزیر اعلی کا عہدہ دے کر کی گئی۔اس سازش سے حکومت تو کرلی گئی مگر 2008ء میں پیپلزپارٹی نے زیادہ اکثریت سے سندھ میں حکومت بنائی مگر فارورڈ بلاک کا کوئی مستقبل تھا،نہ ہوگا۔تیسرا بڑا پیپلزپارٹی مخالف گروپ 2018ء کے عام انتخابات سے قبل بنایاگیا۔ ایک بار پھرگرینڈ ڈیموکریٹک الائنسـ‘ بنایا گیا۔ ماضی کے اتحادوں کی طرح اس انتخاب میں بھی پیپلزپارٹی نے اپنے مخالفین کو 130جنرل نشستوں میں سے صرف 11نشستیں لینے دیں۔ پیپلزپارٹی کے خلاف سندھ میں قریباً گزشتہ ہر انتخابات میں ـ’سیاسی اتحاد‘ توبنا ضرور مگر حقیقت یہی ہے کہ کسی بھی اتحاد نے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو بڑانقصان نہیں پہنچاسکا۔جی ڈی اے اور مقتدر حلقوں کی جانب سے ایک بار پھر سیاسی جمع تفریق ہونے کو ہے مگر دیکھنا یہ ہوگا کہ پیپلزپارٹی کی حکمت عملی کیاہوگی۔