امریکہ طالبان مذاکرات ناکام کیوں؟

September 14, 2019

براک اوباما کی دونوں ٹرمز پوری ہونے کے بعد ایک خاموش آواز تھی کہ کاش اوباما ابھی مزید اس اہم ترین ذمہ داری پر فائز رہ جاتے جو ظاہر ہے امریکی جمہوری روایات کے پس منظر میں ممکن نہیں تھا۔

لیکن اس سوچ کے حاملین ہیلری کلنٹن کی کامیابی کو قریباً یقینی خیال کیے ہوئے تھے کہ ڈیمو کریٹس کی صفوں سے اچانک ایک چھپا رستم ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت برآمد ہوگیا جس نے امریکیوں کا مورال بڑھاتے ہوئے جذباتی اسلوب میں یہ نعرہ لگایا کہ وہ انہیں نئے امیگرنٹس کے سیلاب اور میکسیکو کے در اندازوں سے ہی نہیں دہشت گردوں سے بھی نجات دلائے گا۔

اگلے برس صدر ٹرمپ نے چونکہ ایک مرتبہ پھر اپنی قوم کے حضور پیش ہونا ہے اس لئے اپنے کھیسے سے کامیابیوں کی جو پٹاری نکالنا چاہتے ہیں ان میں سے ایک افغانستان کی کامرانی ہے جس کی دو صورتیں ہیں اول یہ کہ میں نے افغانستان میں امن قائم کروا دیا ہے، اب جیسا بھی سیٹ اپ بنے یا چلے گا کم از کم ہماری طرف بارود نہیں پہنچے گا، دوم یہ میں اپنی افواج کا بڑا حصہ حسبِ وعدہ افغانستان سے نکال لے آیا ہوں۔طالبان کے ساتھ دوحہ میں جتنے بھی مذاکراتی مراحل ہوئے ہیں اُن کا مطمح نظر یہی تھا۔

ان مذاکرات کے دوران ابتداً ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ طالبان بڑی حد تک ہمارے مطالبات مان رہے ہیں، وہ متشدد یا دہشت گرد طالبان نہیں رہے ہیں بلکہ بدلے ہوئے نئے افغانستان کے پُر امن طالبان ہیں جو نہ صرف یہ کہ افغان آئین کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی مطابقت میں چلنے کا عہد یا معاہدہ کریں گے بلکہ اس سیٹ اپ کے تحت قائم اشرف غنی حکومت کو قبول کرتے ہوئے جلد اس کے ساتھ براہِ راست مکالمے میں آجائیں گے۔

امریکی ذمہ داران کا خیال تھا کہ طالبان نے ابتدائی مراحل میں جو لچک دکھائی ہے آگے چل کر یہ مزید بڑھ جائے گی اور ہم ان سے مزید متنازع مسائل بھی منوا لیں گے جبکہ طالبان اپنے تئیں یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم کچھ لچکدار باتیں کرتے ہوئے امریکیوں کو اتنا بے وقوف بنالیں گے کہ وہ ہماری زمینی طاقت کو تسلیم کرتے ہوئے ہم سے کچھ وعدے وعید لے کر افغانستان سے کوچ کر جائیں گے، اس کے بعد ہم اشرف غنی اور ان کے ہمنواؤں سے اچھی طرح نمٹ لیں گے۔

وعدے وعید یہی تھے کہ ہم افغان سر زمین کو دوبارہ کبھی امریکہ کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، القاعدہ یا داعش جیسے جو بھی گروہ آئیں گے اُن سے ہم خود نمٹیں گے، غیر مسلم اقلیتوں اور اپنے دیگر سیاسی مخالفین کے متعلق کے ہمارا رویہ بہتر ہوگا البتہ اس بات پر ضرور اسٹینڈ لیا گیا کہ اسلام اور اسلامی شریعت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا اور یہ نرمی شریعہ کی نرم تشریح کے ساتھ قبول کی جائے گی لہٰذا امریکہ افغانستان کو ’’اسلامی امارت افغانستان‘‘ کے طور پر قبول کر لے۔

اس نوع کے مذاکرات میں ایک چیز اندرونی ہوتی ہے جو باہم بیٹھ کر مذاکراتی ٹیبل پر طے کی جا رہی ہوتی ہے دوسری بیرونی ہوتی ہے جو آپ اپنے گروپ اور بالخصوص اپنے عوام کو دکھا رہے ہوتے ہیں۔

جب کوئی بڑی طاقت والا اس طرح کے ماحول میں چھوٹی طاقت کے ساتھ برابر کی ٹیبل پر بیٹھتا ہے تو نفسیاتی طور پر چھوٹے درجے والا اسے اپنی آدھی جیت خیال کرنے لگتا ہے اور اپنے زیادہ سے زیادہ مطالبات منوانے کے لئے کوشاں ہو جاتا ہے۔

درویش کی نظر میں ٹرمپ انتظامیہ کی بڑی غلطی براہِ راست برابر بیٹھ کر شعلہ نم خوردہ کو الاؤ بنانے والی تھی۔

ظاہر ہے یہ صورتحال با امر مجبوری قبول کی گئی ورنہ بہتر صورت یہی تھی کہ امریکہ کی طرف سے قطر انتظامیہ یا پاکستان کو بیچ میں لاتے ہوئے خود پس پردہ رہ کر موجودہ افغان سیٹ اپ کو مذاکراتی میز کے آگے کرنا چاہئے تھا اور طالبان کا جثہ کسی طرح بھی گلبدین حکمتیار یا ان کی حزبِ اسلامی سے بڑھتا ہوا دکھانے سے گریز کرنا چاہئے تھا اور ساتھ ہی روز اول یہ شرط عائد کی جانا چاہئے تھی کہ مذاکرات اور دہشت گردی دونوں کسی بھی قیمت پر اکٹھے نہیں چل سکتے۔

یہ دونوں باتیں نہ منوا پانا از خود امریکی کمزوری کا اظہار تھا۔ امریکی انتظامیہ کی افغانستان سے نکلنے کی خواہش تھی اسے یوں برملا ظاہر نہیں کرنا چاہئے تھی جس کی ذمہ دار ٹرمپ انتظامیہ نہیں براہ راست سیاست کے اناڑی، یوٹرن لینے والے نااہل ڈونلڈ ٹرمپ ہیں اگر ایسی شتابی میں وہ جیسا تیسا معاہدہ کرتے ہوئے اپنی فورسز کو افغانستان سے نکال لے جاتے تو خود امریکی قوم آنے والے برسوں میں انہیں نئی بربادی کا ذمہ دار ٹھہراتی۔

نائن الیون کے بعد صدر بش جونیئر کی تمامتر کامیابیاں اپنی جگہ مگر اُس وقت جب انہوں نے یہ بھاری پتھر اٹھایا تھا اور دہشت گردی کے معمار پسپا ہو رہے تھے تو کیا یہ لازم نہیں تھا کہ وہ گرم لوہے پر چوٹ لگاتے ہوئے، عین وقت پر اس کی جڑ کاٹ دیتے۔

آج اگر کوئی زیرک، سنجیدہ اور معاملہ فہم امریکی قیادت ہوتی تو وہ اپنے شرقی و غربی تمام اتحادیوں کی معاونت کا اہتمام کرتے ہوئے اپنی اس جد وجہد کو منطقی انجام تک پہنچائے بغیر کوچ کا نام نہ لیتی بلکہ تمامتر زور اس بات پر ہوتا کہ نئے جمہوری سیٹ اپ کو دیگر طالبان مخالف طاقتوں کے ساتھ جوڑتے ہوئے کیسے اتنا توانا کیا جا سکتا ہے کہ مخالفین کی امیدیں مایوسیوں میں بدلتے ہوئے ان کی طاقت بکھر جائے یا تقسیم ہو جائے۔

عالمی طاقت کے سامنے وقت کا یہی اصل چیلنج ہے جس کے لئے مسلح جد وجہد کے ساتھ ساتھ اخلاقی، شعوری اور تعلیمی کاوشیں بھی اتنی ہی لازم ہیں۔ ایک ماڈریٹ، پروگریسیو جمہوری افغانستان کے لئے انہی خطوط پر ترقی پسند اور روادار افغان قوم کی طویل المدتی شیرازہ بندی از حد لازم ہے کم از کم وہ اپنے پاؤں پرتو کھڑے ہو سکیں ورنہ وہی رستے وہی پینڈے۔